اک رقص داستانِ عشق
اک بات دل سے نکلی
تیر دل میں لگا
خون بَہا اور بہتے قطروں میں خُدا کا جلوہ
دِل!
خدا کیا ایسے جلوہ گر ہوتا ہے؟
تیر ہجرت کے؟ نیناں کے؟
دل قدموں میں
یہ خالی ہے دل یا بھرا ہے؟
اچھا کتنا بھرا ہے؟
عشق جوگ دے ڈالتا ہے
عشق رانجھے صورت آیا
دل اچک لیا
رانجھن یار دکھ جاووے تو بات بن جائے
جب جب وہ دکھتا ہے اندر روشنی ہوجاتی ہے
فنائیت میں کسک ہے؟
کیا چبھن؟
کیا خالی پن؟
فنائیت کیسی ہے جو سوال رکھتی ہے
تری بات چل گئی
مری بات رہ گئی ہے
تری یاد کے دیپ دل میں جل اٹھے ہیں
جدائی نہیں تھی کبھی
وصلت کا سوال کیسے ہو؟
اک بے نام جوگنیا رہ گئی
جوگی نَہیں رہا ...
ابھی تو ابتدا ہے
سفر دائم کسک ہے
سفر دکھ کا ہار ہے
سفر میں اشکبار کیوں؟
سانول یار ساتھ ہے تو یہ فاصلے کیسے؟
یہ کہانی لکھی ہے
یہ کہانی لکھی گئی ہے اس سنہری کتاب میں جس کا قرطاس چاندی کا ہے
یہ عشق کی کتاب ہے
وہ چنتا ہے بندوں کو
بندے سوانگ بھرتے ہیں
تیر دل میں چلا کے
جھروکوں سے جھانکتے ہیں
پوچھتے ہیں
زخمی تو نہیں؟
غم تو نَہیں؟
جب اس صورت یار کو دیکھیں تو دیکھا کریں خدا کو
لکا چھپی ہو جیسے
لا اور الا اللہ کا کھیل جیسا
ہیر نے پہنا لباسِ لا.
رانجھن یار کے نشان کہاں؟
اللہ پاؤں کیسے امکان؟
مکان میں کہاں ملے گا
لامکان میں لازمان دائروں میں
پنجرے میں رہتے گھٹن ہوگی
نکلنا پڑے گا! نکلنا پڑے گا! نکلنا پڑے گا