شمس سے پوچھا جائے کہ گویائی کا مقصد کیا تھا تو جواب دے گا کہ خدا کی بات پہنچانی تھی وہ بھی سلیقے سے طریقے سے، شمس کو علم نہیں تھا کہ خُدا کی بات پہنچ رہی ہے بنا گویائی کے، خدا لمحہ بہ لمحہ ہمکلام ہوتا ہے
شمس سے سوال کیا غیر ضروری تھا یا جوابا اس کو نادانی کا احســـاس دلانا مقصود تھا .... شمس شاید روشنی پہنچاتا ہے تو بولتا ہے جبکہ جس کے پاس پہنچتی ہے اسکو اسکی خبر تک نَہیں ہوتی ہے ...... روشنی کا کلام خاموشی ہے اور شمس کو علم نہیں وہ خود روشنی ہے ... اب دیکھیے چاند کو وہ کتنا حسین ہے تو کہے گا زلفِ لیلی کا اسیر ہے اسیر محبت کی قید میں حسین تر ہورہا ہے شایدـمحبت اک دائرہ ہے دائرہ سے باہر مکان اور اندر زمان ..جب زمان و مکان کی قید سے نکل جائیں گے تو مکان و زمانے کی وقعت کیا مگر اس سب کو سمجھنا کیا اتنی آسان ہے
حسین لعل یمنی، حسین فرد آہنی ہے
حسین حیدری جلال ہے مردِ آہنی ہے
زمانہ کہتا خلیفہ انہیں ہے جنہوں نے
سرکٹا کے خلافتِ زمن زمن چنی ہے
وہ کربلا دلِ فگار لیے روتی رہی تھی
زمین غازیوں سے شہید ہوتی رہی تھی
لہو جدھر جدھر گرا، تو کلمہ پڑھا گیا
گواہی ذرے ذرے نے خدا کی دی تھی
کبھو تو چین آئے کبھی تو سر اٹھا کے چلیں
کبھو تو ہم نہ رہے کوئ نہ رہے جو رہے وہ رہے
وہ رہے تو سدا رہے یہ صدا کہ علی علی ہیں
علی بڑے باکمال ہیں علی مرے لجپال ہیں
علی سخیوں کے شاہ علی اماموں کے شہا
علی علم کی زمین کا لا محیط آسمان ہیں
گواہی علم کی ہیں وہ الواجد کا وجدان ہیں
علی بہ راز نمی، علی مونسں دل خیر خواہ
علی بہ حق روشنی کا جلال ہے وصل حال
دما دم میں نعرہ لگتا رہے گا یہی علی علی
دما دم میں توئی توئی کا آوازہ علی علی
خَریدو گے مری آنکھیں؟ میں نے کَہا؟
یہ انمول آنکھیں کیا بیچنے کے لیے ہیں؟
یہ اتنی انمول ہیں کہ مول لگتا نہیں ہے
لگا کہ مول کرنا کیا ہے؟ بے مایہ رہنے دو
وہ کربلا کی زمین پہ کسی کو دیکھا گیا
صبا کو قبورِ پاک گرد رقص میں دیکھاگیا
حسینی ہوں میں یہ کہتے اسے سنا گیا ہے
مہک ہے عنبرین، مشک کی فضا کہا گیا ہے
یہ دودِ ہستی حُسین ہے، یہ رشک باد ہے
درود اس فضا پہ بارہا صبا نے بھیجا ہے
بنامِ نور یہ درود کی مہک کربلا پہنچی
مرے حُسین کو سلام کہتے شہید ہوئی
ہے ناز ایں خاک بخشا نیستی کا لباس
بہ فخرِ گردشِ گنبدِ سنہری رنگ خونین
حصول عشق کی درسگاہ کا نسخہ ہوں
میں کیمیا گری ہوں شہِ حسین کی
منم چراغِ حسینی بہ نور لم یزل کی
خریدار مل جائیں گے بُہت آنکھوں کے
مگر نہ بیچو خزانہِ حسینی خواہی خواہی
ذرہ ذرہ ہو مشکبار تو شکر گزاری سیکھ لو
کہ خاکِ اسفلی کو ملے کمالِ نور کا حال
یہ عطیہ تحفتا دیا گیا، تحفتا دیا گیا ہے
ہماری آنکھوں کے خریدار کربلا کے امام ہیں
انہی سے مل رہے ہیں رنگ و نور کے جام ہیں
انہی کے در پہ رکھ دی ہیں نَذر لے لیں گے
عوض اسی جلوہ مستقل کے، جو موت دے
؛