...عرفان ذات خود سے خدا تک سفر ہے، چھوٹے چشمے کا سمندر کی جانب ..معبد بدن میں جب اک ذات ظاہر ہوجائے تو وہ ہی رہتی ہے، وہ ہمہ وقت رہتی ہے، وہ پاس بلاتی ہے، وہ یار سے ملاتی ہے. یارانہ ہے کیا؟ بہانہ بنتا ہے اور یارانہ ہوجاتا ہے .. وہ دوست جو اسکا دوست ہوتا ہے اسکو کیفیات نفسانی مغلوب نہیں کرتی. مقام لاتحزن ولاخوف سے مبراء ہوجانا بے نیازی کا مقام یے. اے خدا، دل لگی کی ہے
اے خدا، روشنی سی ہے
اے خدا، زیبا پس حجاب ہے
اے خدا، کون پس نقاب ہے؟
اے خدا، دید کو بہانے ملتے نہیں
اے خدا، ترے دوست ملتے نہیں
یہ دل لگی ساری ہے، کائنات پیاری ہے
یہ مقام شوق سے پرے نہیں
یہ مقام دل میں اوٹ میں ہے
یہ نیاز مندی کے سجدے میں
یہ نوائے دل کی صدا میں ہے.
خدا، لامحدود ازل سے ہے
یہ رگ دل میں کب سے ہے
کٹیں انگلیاں نامہ ء بر کے پاس
رہین دل کے پاس نگار جان نہیں
پیش روئے جاناں ہو مازاغ البصر کا مقام.
وہ چہرہ ہو اور. مسکرانے کا حال
وہ حال ہو کہ مٹ جائے. ملال
یہ تحریر شوق ذات ہے، یہ ستم ہے تیرِ پیوست کا، یہ نگہ سے گھائل جو دل ہے، یہ فقط اسیر باغِ امیر ہے، کہیں کے دل جس در کا فقیر ہے ...
... جو مبارک زیست ہو سفر میں ہو ...یہ زندگی بسر حذر میں، جو شوق ہو ننگ سفر میں ہو، جو حال ہو وہ نہال غم میں ہو، جو درد کی سوغات ہو تو ھل من کی صدا ہو، جو ھل من پر بات چلے تو اذن ہو استعجاب کا، جو حیرت سے نکل سکوں تو میں یہ کہہ سکوں کہ عالم شہود میں عالم نیست میں، کچھ نہیں ہے مگر سب ہے، کچھ نہیں ہے بس وہ ہے، جو خلا ہے وہ مدام شوق ہے، جو فنا ہے وہ رفقیق جان ہے
عطا کے واسطے صدائیں لگاتے ہی رہیں گے
سوالی شہ کے خالی ہاتھ کیا رہ جائیں گے
دلِ بے چین کو نوید جانفزا سنا
اے بادِ صبا جا کے میرا حال سنا
ستارو! تم بھی دیکھو میرا حال
اب کہ روشنی کا کچھ حصہ لا
کائنات بہت بڑی، وسیع ہے. تسخیرِ کائنات مشکل ہے. انسان پیدا تو اسکی تسخیر کے لیے ہے. تسخیر سے پہلے تو یہ علم ضروری ہے کہ کائنات ہے کیا؟ یہ وسیع کیوں ہے؟ میں اک نقطہ ہوں، میرے اندر یہ کائنات وسعت کیسے اختیار کرگئی. مشین کے اس دور میں ہم ڈی ـوی ـ ڈی میں سافٹ وئیر اور چیزوں موجودگی کو جانتے ہیں. اس میں موجود گانا سنتے ہیں. درحقیقت یہ گانا پہلے سے گایا گیا ہے
ہم پاسدارِ دانائے راز نہ ہوئے
گویا ہمی اہلِ پاسباں نہ ہوئے
جذب حق ہو تو کرتا ہے بیان
وہ بیان جسکا نہ کوئی بیان
میم دا رنگ سچا سُچا رنگ
میم دا سوانگ اے انگ انگ
میم دی ہست نے مست کیتا
میم آپوں آپے قرانی صحیفہ
دل کی کائنات پے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم لکھا ہے مگر ہم اس کو دیکھے، سمجھے بنا مسلمان ہوسکتے ہیِں. مومن بننے کے لیے ہمیں دیکھنا پڑے گا. یقین اندر کی قوت سے ملتا ہے
کائنات کے پیدا کرنے والے نے ہمیں یقین سے قوت سے نوازا ہے تو کام بھی کائنات کا چل رہا ہے. کام کی سمت کیا ہے، یہی سمت منزل کا تعین کرتی ہے.
وجہ تخلیق بشر اے، بلیغ لسان ..کوئی ترے جیسے کہاں. ترے مکھ کا.بیان ہو کسی سے کہاں، شوق جرم خانہ باب میں، وہ ذیشان طلوع ذات ہے، ریحان ذات زیست میں کوئے نہاں ہے ...زندگی اے زندگی کدھر جائیں کہ نام صلی علی پہ گر نہ ہو بیان کہ یہ تجسس فقط عرق ریزی ہے، زندگی تو بس تیری یے. یہ عجم سے اٹھی عرب تک گئی، میرے شوق کی داستان جانے کہاِں تک گئی ..اے قبلہ ء شوق، اے شمع پروانہ، اے ضوئے گلستان ...جب ترا بیان ہو، کب کسی کا نشان ہو
قدوسی صفات شش جہات
رحمانی اوصاف کی ہے بات
گہ میں خالق ملے ذات ذات
گنجینہ ہائے گل یہ کائنات
زندگی نہ کر ستم کی بات
خوشبوئے سے آغاز ہوا ہے
کائنات، انسان اور حیوانات
سیدہ فاطمہ ہیں امِ بنات
خاتون اول میں یہی بات
ازل کا حجاب اور صبح وہ
اٹھا جب نقاب، مل گئ ذات
وجد، الواجد کی تحریر ہے
جب مری روح کو مرا حصہ ملتا ہے
تو میں جھوم کے کہتی ہوں
الواجد کی تصویر کون ہے؟
مرے دل میں سرر کی تصویر ہے
یہ المصور کے ست رنگ میں ڈھلی ہو
مرے دل میں سات کلیاں کھل جاتی ہیں
مرے چراغوں کو تبسم ملتا ہے تو
میں مسکراتی رہی ہوں مسلسل
میں رقص میں رہتی مسلسل
مجھ پہ واجب الوجود کا سایہ ہوتا ہے
مقام انس جان وہ نہ پائے گا
خودی میں ڈوب نہ جائے گا
مقام حیرتِ عشق میں رہ لے
مقام دل میں وہ مل جائے گا