Sunday, February 28, 2021

سوالی***

میری ذات ایک سوالی ہے ، آپ کی دل کی دنیا نرالی ہے ، ہم پر آپ نے کیوں گرہ ڈالی ہے ، یہ شان کملی والے ﷺ کی ہے ، نسبت سب سے نرالی ہے ، جانے کیوں، جانے زمانے ہم نے ، کہ روشن قسمت  تمھارے ہاتھ کی تھالی ہے

کمال تو نگاہ یار خیراں کا ہے کہ مست خراماں باد کو مخمور کردیا ، بہار کا نغمہ ہے سن ، خزاں کے جالے اُٹھا ، رستہ ہادی کا ہے سچے مرسلﷺ کا ،بس اندازہ بیاں محتاط ہے مسلسل ، عمر رفتہ کا جیسے عذاب ہے مسلسل ، خواب میں خواب ایک لگتا ہے مسلسل ، ، رہبر سچا ہادی ﷺ  رہنما ہے مسلسل ، درود زندگی کے مرض کی دوا ہے مسلسل ، سجدہ   تشکر کے جھکا بدن ، لرز اٹھا طور ، جلوہ گاہِ جلوہ میں تجلیات  کا طور ہے مسلسل

شمع کہے تو کون ہے ، تو کیا ہے

وہ کہے کہ خواب ہے ، خواب میں احساس ، احساس میں ادا ، ادا میں ناز ، ناز میں اعجاز کی دلربائی نے لوٹ لیا ، ہمیں، جس کی نگاہ نے لوٹ لیا۔۔رنگ جس کا کالا وہ ہمارا یار ہے مسلسل ، جس باب سے گزر کے ہمیں جانا  وہ رستہ طور مسلسل ، ہماری کہانی زخم سے پر ہے مسلسل ، لہو لہاں جگر اور آبلہ پا ہے مسلسل

حیدری باب میں میخوار ہے مسلسل ، منتظر شمع انوار کی مسلسل ، پلٹ کے صدائیں گونج اٹھیں مسلسل 

میخواروں کے ہادی یانبی ﷺ ہادی سلام قبول کیجیے ، ہمارے ہاتھ میں درود کے پھول ، قبول کیجیے ہمارا نذرانہ ، دیوانہ کیا جانے دیوانگی کیا ہے ، روشنی کا احساس ایسا ہے کہ روشنی پس دیوار ہے مسلسل ۔

روح ‏کا ‏طواف***

روح مرکز کے گرد گھومتی رہتی ہے،  جس شدت سے گردش ہوتی ہے اس قدر شدت سے شیشہ ٹوٹ جاتا ہے ..آنکھ کو جلوہِ جاناں چار سُو نظر آتا ہے .... وہ تو نم آنکھ کی نمی بڑھا دیتا ہے،  نم مٹی کی التجا  "تو "..... توئی چار سو ... اے جلوہِ جاناں، دل گھوم گھوم کے تجھے چاہے .... ٍ تو جلوہ نما ہے .... اے.میرے دل کے حبیب ...مٹنے لگے سب رقیب ... دوریاں گئیں، سب مل گئے دل کو اپنے ..... یہ جدائی تھی جو سہی گئی تھی .... یہ جو وصل ہے جو چیخنے پر مجبور کرتا ہے ...دھمال ڈالنے کو .... یہ کیف آور رقص .. یہ گھومتے چوراہے .... یہ منازلِ بقا کے فاصلے .... یہ رابطے محبوب سے ... شادی کی کیفیت،  وصل قریب ہے وہ جو حبیب ہے جو رگ جان سے قریب ہے .... کھال اترگئ بس رہ گئ دھمال .... ہم پہ سرر طاری ہے ... ہم میں وہ رہتا ہے جس کے لیے گھر صاف ہے .... لا الہ الا اللہ .... ہم نے اس میں خود کو فنا کردیا .... کیا رہا؟  وہ رہا ... کیا ہے مجھ میں؟  نور علی نور کے سلاسل سے ملا پاک نور ہے ...

 یہ زیتون کے پتے پر مجلی ہوتا ہے کبھی طوُر  پر تو کبھی حبیب کبریا صلی علیہ والہ وسلم کی نظر سے بکھر جاتا ہے ... وہ سراپا طور وہ سراپا نور ... کرتے ہیں دل کو مخمور .. میرے کبریاء جاناں دل میں رہتے ہیں،  ان کی آنکھ مستانی ہے،  دل میرا نورانی ہے ... ورقہ عشقِ ہستی پلٹا جارہا ہے،  میرا صفحہ صفحہ نور سے پر نور ہے ... زندگی کی کتاب روشن کردی گئ ہے میرے لیے ہدایت لکھ دی گئی ہے ... مجھے ملا ہے اجازت نامہ،  سند عشق کی حدیث .. دل میں اک ہی عزیز .. اررررے وہ کدھر ہے؟  ارررے وہ ادھر ہے !ارررے میٹھا سا نغمہ سناؤ ... سرمدی.عشق کا راگ ہے ... یہ رات کا سہاگ ہے ... دل اڑتا ہے فضا میں مانند باز.... سرخ ہاتھوں میں روشنی یار کی ..ذرہ ذرہ اسکی قندیل ... اس قندیل میں.زیتون کا تیل .... یہ شجر بڑا مضبوط ہوگیا ہے اس میں مہکتے گلاب کے خوشنما ہھول جن سے بسا رنگ و نور .... طہﷺ ... میرے طہ ﷺآگئے ... سارے پڑھو درود .... سارے پڑھو درود کہ سرکارﷺ آگئے ....  صلی علیہ والہ وسلم ...  دیے دیے پانی میں،  گلاب کی پتیاں رقص کریں گے .... روشنی بھی خوشبو بھی ... نور  و نور ہے زنجیر ... زنجیر عشق کی فولادی ہے ... عشق میں کیسی بربادی؟  ذات کے زندان سے پنچھی آزاد ... اس در چلیں گے جہاں پر مینار ِ نبوی صلی علیہ والہ وسلم ہیں .....

 الم نشرح لک صدرک .... کھل جائے جب سینہ تو خوشبو مل جاتی ہے، راز عیاں ہوجاتے ہیں ... حجاب مٹ جاتے ہیں .. اپنے  مل جاتے ہیں .... روشنیوں کا شہر دل بن جاتا ہے دل میں نبیﷺ کا گھر ہو جاتا ہے .. دل حجاز ہوجاتا ہے ... حجاز کی سرزمین بڑی روشن ہے ... روشنی کے شہر میں کیا ہم اکیلے ہیں؟  کیا آبشار نہیں؟  کیا پہاڑ نہیں؟  کیا  اشجار نہیں؟  ارے جھک گئے سارے نورِ مجلی صلی.علیہ والہ وسلم آیا ... سر اٹھ نہ سکا،  نیاز  مند ،نیاز میں رہا .....  رات کا اعجاز .. رات کا اعجاز کہ رات بہت سہانی ہے ... رات نے بانٹی سرخی ... گلابی سرخی ... رواں رواں سرخ .... شہادت دی رہی نمازآذاں ... کٹ گئی رات .. سجدہِ شکر ہوا ادا .... شکر شکر شکر ...  یہ شکر وصل کی نشانی ہے یہ مسجود و ساجد کی کہانی ہے بیت رہی اس پر جس کا دل نورانی ہے .....  

کعبہ.عشق کا کعبہ کون؟ رات میں چاند کا مہتاب کون؟  عشق کی تمثیل کی تمثیل کون؟  شمیشیر غوث پاک ہیں ..... شمیشیر غوث پاک ہیں مصحف کلمہ نظام صاحب ہیں .... مصحف کلمہ  نظام صاحب ہیں ... قلندروں کے امام حسینرضی تعالیٰ عنہ ہیں جمال کائنات امام حسن ہیں رہبر دو جہاں سرور کائناتﷺ۔  قصہ اک نیا شروع ہوا ... اک نئی منزل کا اذن .. مسافر آزان ِ عشق ادا ... نماز عشق قربانی کی رات ہے  شادی کی کیفیت ہے منادی کی کیفیت ہے .... یہ حج اکبر ہے ... .

رقص میں جہاں ہے یا میں رقص میں ....بات اک ہے ... میں ہی حقیقت ہوں ...باقی سب مایا ہے ....نور، سب مایا ہے ...مایا جال میں پھنسنا کیا؟ دل مثلِ شمع فکر وجدان ...دل مثلِ بہار بکھرتے پھول ... دل مثل باد کے بکھر رہا جھول رہا ... دل مثل اشجار ... جھکے بندگی میں ...تیرے بندے تیرے بندے تیرے بندے ..حم ...... حمعسق.... مر جانا مٹ جانا ... عین عشق ہو جائے بس... عین العین کا عکس ہوجانا اچھا ...فانی کو فنا ہوجانا اچھا ... باقی کو بقا میں قیام ہونا ..نماز کا عین ہے بقا ...بن بقا کے نماز نہیں ...بن بقا کے حج نہیں ... شادی کی کیفیت منادی کی کیفیت آزادی کیوں مانگ چل دے آذان حبش میں ہو یا قرن ہو یا ارم میں ہو یا فلسطین میں یا کہ عرب کے صحرا میں ... قافلے سبھی مل جاتے ہیں چاہے ہند سے ہوں ... فرق نہیں رہتا جب سارے حاجی حج سے ہوں .... جب نمازیں قضا ادا ہوجائیں ... جب دل رب سچے کا ہو جائے تو دل منم جمال او ..... جمال میں کمال چھپے نورانی خزانے .... یہ منزل فنا ہے کہ بقا؟ یہ اوج ہے یا زوال؟ یہ کیسا مقام ہے؟ یہ جنگل، نہ صحرا ...یہ موسیؑ اور ہارونؑ کا راز ہے ... یہ یحییؑ اور عیسیؑ کا راز ہے ... دل انجیل مقدس، دل انجیل مقدس ... دل میں قران مسلسل .. دل نماز میں مسلسل ... دل طوف شمع میں ... دل حاجی .. دل اچوں حق ھو دیاں واجاں ... دل میں نمی .. دل عکس سے معمور... دل محو جمال .. دل حسین تجلیات کا مرقع .. دل قبلہ نما بنا .. دل مجذوب ..جذاب عالم محمد صلی علیہ ہیں

نہ ادھر ہماری رہے نہ ادھر تمھاری رہے ....زمین پر واجب سجدہ شکر .... حم ...... حاضری کے بعد ملتی ہے محفل ...محفل کہ مئے ابدی کہ رحمت یزدان ... حرم سے نکلے دل کے فسانے محبت کے ملے کاشانے ... حاجیوں کو ملتے ہیں ساقی ... مخمور رہتے ہیں مست ہوتے ہیں جو وہ پاتے ہیں دل کی باتیں ... حق کی باتیں ... حق کی سوغاتیں .. حرم سے منبر تک ...منبر سے حرم تک ... شہ.رگ کے قریب ... حج جن کو نصیب ہوتا ہے وہ ان کے قریب ہوتا ...دیارِ حق میں وہ جن.کو.نصیب ہوتا ہے ... حق کی.نشانی اسم محمد صلی علیہ والہ.وسلم ... حم .... وہ حامی وہ مددگار ،وہ جلوہ نما، وہ قبلہ نما ..وہ رخ یار کی تجلی.،وہ جمال کی، جلال کی تجلی ،وہ آیات میں سب سے افضل نشانی ..مشک مشک ہے رواں رواں ... دل میں نورِ قران بسا ہوا ... نورِ رحمان دل میں ہے ...فرقان پر ہے دل  ہے وجدان پر دل .. دل کی تمجید تم کیا جانو ..نورانی دل ... اسم حق لا ھوت میں بسیرا ہے جن کا .... یا ھو جن کا ورد .. ان ملائک میں وزراء ہیں ان میں امراء ہیں ... ذکر ہوتا ہے ان میں ... ذکر یار نصیب ہوتا ہے ... جا خشیت کی چادر اوڑھ لے ... جا چھپ جا چاند کے اوڑھ ... جا چھپ جا ....ملیں گا تجھے کمال .کمال بندگی کے بعد دیدار ... جا چھپ جا ... جا چھپ حجاب میں ہو ...ازل کا نور بے حجاب ہے ... سجدہ شکر لازم ... حم ..... یا رحمانی ... ھو ..... حق ... ھو ... حق آگیا ..باطل مٹ گیا...

خوشبو***

زمین پانی سے بھر جائے تو پیاسے کو آنا چاہیے ورنہ سیلاب آجاتا ہے. سیلاب زندگی بھی ہے. سیلاب گلاب ہستی بھی ہے کہ درد کے مابعد کا تحفہ ہے. خوشبو کا احساس خوشبو کی جانب لیجاتا ہے. خوشبو عرش کے پانی سے وجود میں آئی ہے. یہ خاص خوشبو گلاب کی ہے جس سے بقیہ خوشبو محصور ہو جاتی ہے. شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں آنسو بہانے والو. تم کو کیا ہوا،  تم تڑپ میں اویسی و بلالی ہو جاؤ تاکہ فاصلے معنویت کھو دیں. تم کو قربت کی روشنی فارس سے بحضور کیوں نہیں کرتی؟  تم پروانے کیوں نہیں بنتے؟  تم ستارے بن جاؤ کہ سورج کو تلاش ہوتی اندھیروں کو. مٹادو تم اندھیروں کو. زمینیں بہت سی ہیں جن کو نور علی نور کی مثال ہونا ہے. جن کو ایسی مثال ہونا ہے ان کے پاس سیادت ہے. یہ نسبی و نسبتی سادات جڑے ہوتے آیتِ کوثر سے. اللہ ھو کہتے یہ نسبتوں کے سلاسل میں مودب ہوتے ہیں

نور***

آج تم ایک انسان ہو. تم سوچو تم میں ایک چراغ ہے. تم کو خوش نصیبی پر فخر کرنا چاہیے کہ تم میں چراغ روشن ہے ... چراغ اپنی روشنی کے لیے بیتاب ہوتا ہے.  چراغ میں نور علی نور کی مثال روشنی ہوتی ہے. یہ سب مرشد حق کی بارگہ ناز سے محصول بات ہوتی ہے. جب نور مکمل ہونے لگے تو شہادتیں واجب ہوتی ہیں. انسان کو چاہیے ایک دوسرے کے کام آئے کہ انسان کے دل میں محبت کے چراغ اس لیے جلائے جاتے ہیں کہ محبت سے روشنی دیں  اللہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے. چلو اس پر غور کریں کہ اللہ تو آسمان پر ہے اور زمین تو نور کی تلاش میں رہتی ہے. زمین ایک سیارہ ہے اور اس پر سورج ہے. سورج سے جہاں منور ہے. انسان کے اندر چراغ ہے  . اس کو باہر سے اک سورج چاہیے جو اس کے اندھیرے مٹائے. جب اس کے اندھیرے مٹ جائیں تو وہ خود اک سورج ہوجاتا ہے. بے شک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے. وہ اللہ کا کرم ہے جس کو نور علی النور کی مثال کہا گیا ہے. یہی زیتون کا بابرکت تیل ہے نہ شرقی ہے نا غربی ہے. اللہ ہر سمت ہے اللہ مشرق و مغرب سے پاک ہے. جس اللہ کی حد مقرر کرلو وہ اللہ تو لامحدود نہ ہوا. جو لامحدود ہوا وہ ہر ضد سے پاک ہے. اس نے تم میں نور کی تجلی رکھی ہے اور کہا من جھاتا فقیرا، لنگی حیاتی. افسوس کا مقام ہے ان کے لیے جن کے چالیس کے ہندسے گزر گئے اور ان کی پہچان کے زینے قدم کو نقش نہ پا سکے. ایسوں کے لیے اللہ نے کہا والعصر ..گھاٹے میں وہ لوگ ہیں جن کو علم نہ ہو سکا زندگی کی دوپہر گزارنے کے بعد وہ کون ہے چالیس کا ہندسہ مبارک ہے. یہ مبارک ہے کہ اس نے انبیاء کا تعارف دیا. اس نے کئی ولی اس طرز پیدا کیے،  اس ہندسے میں چار بجتا ہے. بس اللہ باقی ہر جگہ

تحفے*---

دل کی رقت پر سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ سوال کیا ہے؟ سوال کا جواب کیا ہے؟  سوال کا اسباب کیا ہے؟ رات میں ملال اور ملال کا لباس کیا ہے؟ جبین سجدہ ریز ہے، رمز شناس ہے کیا؟  جب جاگتے ہیں دل، روتی ہے آنکھ،  سوتا ہے شعور اور بہتا لہو دل میں ھو ھو کی صدا سے مخمور ہو کے رواں رواں میں محبوس ہو کے بھی نعرہ ء حق لگا دے تو بندہ کَہے کہ کہاں جاؤں میں؟ میں کتھے جاواں؟ کتھے اونہوں نا پاواں؟  اودھے جلوے چارچفیرے .. بانگ دیندے ریندے نے مرغ سویرے سویرے ...لنگ گئی حیاتی، غماں نے مار مکایا ..جنگ جاری ہے ... حیات  پیہم مشقت میں،  رہن رکھی چاندنی نے پوچھا کہ کیا ملا؟  ملا جو سوال کو جواب ملا ...جواب میں یاد کا سندیسہ تھا ..سندیسے آتے ہیں اور ستاتے رہتے ہیں .. رات میں نور علی النور چمکا چاند،  رات میں سحر در سحر اشجار ہیں جن کی رگ رگ میں جاودانی کا دھواں ہے اور مکھڑا جس کا نورانی ہے.. وہ پھرتا چلتا ہے عکس وجدانی ہے،  لہر لہر میں رنگ ہے اور رنگ میں کلی کلی کی مہک سے جل رہا ہے چمن،  دود ہستی میں راگ چھڑا ہوا ہے ..سرمدی راگ میں بات بھی ذات کی ہے اور بات ذات میں واحد ہی رہی اور واحد میں خاموشی صامت رہی. حق وحدہ لاشریک کے سامنے رگ جان سے قریب کون تھا؟  میں نہیں تھا ..وہ بھی وہی تھا ..بس آئنے تھے دو ..دوئ تھی کیا؟  دوئ نہیں تھی مگر یہ آنکھ روئ تھی کیا؟  جی جی!  جذب تھی جس آنکھ میں وہ رہتی ہے یاد میں ..زہرا کے بابا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بے حساب درود کہ کمان سے نکل گئے تیر اب زخم.سے جل.رہا دجلہ ... فرات کی نہر میں انالحق کی صدا ہے ...گراں تھا نعرہ کیا؟  راز عیاں تھا کیا؟  برسر منبر بہک گیا کوئ ... بہک جانے کی سزا بھی نرالی تھی مگر جس کے پاس سایہ کالی کملی والا کا ہے اسکی شان نرالی ہے. کوئ آقا والی ہے ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم. مری غلامی بھی نرالی ہے کہ رنگ و نور کی محفل سجنے والی ہے. شام میں صدا یے اور صدا میں کرن کرن کا جلوہ اور جلوے میں رنگ ساز نے رنگ دکھائے تو ست رنگی بہار میں عیاں راز کے سارے پردے فاش!  راج ہوا کبریائی کا.  جو.صبغتہ اللہ والی ہے،  اسکی کملی کالی یے، جس کے پاس رات کی جاودانی ہے،  راج جس کا انوکھا یے سورج کی کرن کرن میں مگن کون یے؟ گگن کی لالی کہاں سے آئ ہے؟  راج کرے گی دنیا جب  دیکھے گی جب جھلک دیکھے گی ..کچھ جو صلی علی کی دھوم میں مر جائیں گے ..کچھ اس بازگشت میں رہ جائیں گے. کچھ اس جھلک کے سکتے میں رہ جائیں گے کچھ کے سر جھکے رہ جائیں گے کچھ قائم قیام میں رہ جائیں  گے. کچھ کو عندلیب کا نغمے سنائیں جائیں گے، کچھ رقص شرر میں جل جائیں گے، کچھ کو نغمہ جانفزاں سے بہلایا جائے گا کچھ کو دید کا سامان دیا جائے گا کچھ کو رات کے پہرے فاروقی نقارے دیے جائیں گے، کچھ کو صدیقیت کی مسند پر گرانقدر تحاٰئف دیے جائیں گے، کچھ علی علی کی صدا میں نبی نبی کی گونج میں مگن رہیں گے تو یہ ہوں گے وہ حال جن پر رشک فلک ہوگا، نوریوں کو ملال کہ وہ بشر ہوتے تو یہی احسن تقویم ہے. یہ زمانہ ہے شرفیت کہ اشرف المخلوقات سے وابستگی کا ہے کہ آؤ نعرہ ھو لگائیں دل میں رہ جائیں گے ارمان نہ ملیں گی وہ گلیاں

قریب ‏تھا ‏کہ ‏مرجاتے---*--

قریب ہے کہ مرجاتے ہیں،  قرین جان سے، جان کو جو پا جاتے،  ردھم نہیں ہے ... رات کی رانی ہے، گلاب بھی ہے،  اور پتے پتے ہل ہل کے سلام کہے جارہے ہیں ...شامستان کی گھڑی میں داستان عشق کا لہو کون دیکھے گا؟  یہ جو ہم جیسے قبیل کے چند ہیں،  کس میں ہمت ہے کہ لہو لہو کی بوند ٹپکاتے ہوئے یاد کے پیکان سے دل کو بہلاتے رہیں ..اے دل مسکرا کہ یہ عالم ہجر نہیں یہ عالم موت ہے اوررنگریز کی  جاودانی لہریں بھی ہے ..اے دل مسکرا کہ موت نے سجدہ کیا ہے کہ موت سامنے کھڑی مسکرا یے اور موت کے سامنے ہی میں موجود ہوں ...کیا میں موجود ہوں؟  میں نہی  موجود ہوں وہ موجود ہوں. میری نس نس میں جس کا ذکر ہے مری حرف حرف کی شدت اسکی گواہ ہے کہ سراہ راہ ہو یا سرطور بات اک ہی ہے ..ہمیں تو جلوے سے مطلب ہے کہ چار چفیرے ہیں مالک کے سب رنگ ...سورج کی تمازت بھی کیا خوب ہے کہ چمک رہا ہے تو صلی علی کی صدا ہے اور ہم کہتے ہیں سلیقہ بندگی میں طریقہ ء درود کیا ہے؟  طریقہ درود میں کیسی وارادت ہے کہ ورود کون یے؟  شاہد کون یے؟ شہود کون ہے؟  اے عکس  اٹھ جا!  اے رات ٹھہر جا!  اے حنا!  رک سوال باقی ہیں کہ کچھ نقاب باقی ہیں. کچھ زوایے ہیں الگ، کچھ ماہتاب الگ ہیں کچھ راج الگ ہیں. کچھ دیوانے مضطرب ہیں، کچھ انجان راہیں ہیں، کچھ نئے شاہرائیں ہیں، کچھ ہجر کی لمبی رتوں میں آہون کی داستان میں اک صدا ہے. حق وہی باقی یے. حق وہی موجود ہے. میں نہی  موجود یے وہی موجود یے. اے جلوہ جاناں. اللہ کہاں ہے. اب کون کیسے بتائے کہ اللہ کہاں ہے بس پیش حق کہتے ہیں کہ اللہ تو رگ جان سے قریب یے ..شہ رگ کا کلمہ ھو ہے میں کہتی ہوں تو تو تو تو ہے. عالم میں کیا ہے می تو خود اک عالم ہوں میں نہیں ہوں وہی عالم ہے. رات چھاگئی ہے اور گلاب مانند کتاب سینے پر دھرا ہے اب بتائیے کہ گلاب کا کیا کیا جائے؟ گلاب کو سونگھا جائے یا تکا جائے یا سونگھ سونگھ کے سرائیت پذیر سرمدی دھواں دیکھا جائے. کہنے کو تو عشق میں عشق رہ جاتا ہے طور جل جاتا ہے مگر طورمیں مجلی اسم کس کو ملا ؟ جی جو بیہوش ہو گئے ان کو ..سو اے خمار آلود آنکھ چپ رہ ورنہ خماری مہنگی پڑ جائے گی. اے دل گرفت رکھ ورنہ رات کٹ جائے اورصبح نہ ہوگی اورصبح کے بین کا رنگ کتنا پھیکا یے جب تک کرنیں روشن روشن ہو کے ہر جا کو جلوہ نہ بنادیں فائدہ ا اے دل خاموش!  ورنہ کیا رہ جائے باقی؟ کچھ طلب کے سکے؟  پھینک دے کاسہ کہ کاسے تو کہتا تو ہے پیاسہ. کیا تو پیاسا ہے. نہیں تو مضطرب نہی‍ یہ پیہم مرا طوفان ہے. یہ گریہ نہیں ہے یہ مری یاد ہے یہ تو نہیں ہے یہ میں ہوں میں تو ہر جا موجود ہوں میں شہ رگ کا کلمہ ہوں ..

مثال***

سادہ سی بات ہے، سب میں سادگی ہے. سادگی کیا ہے؟  سچ سادگی ہے  سچ میں قباحت کیا ہے؟  سچ کی حکمت یہ ہے کہ حکیم سے ملتا ہے  حکیم  طبیعت کا سلیم ہوتا ہے. سلیم وہ ہے جس نے رب سے وعدہ یاد رکھا ہوتا ہے  وعدہ کونسا؟  وعدہ کہ حق میں فقط نائب ہو مگر اصل تو ہی ہے  جس نے انالحق کہا،  اس نے فرق مٹا دیا .. اللہ مثال نہیں ہوسکتا ہے مگر مثل ٹھہرانا ہمارے لیے کیا ضروری ہے؟  اللہ اکبر. اللہ سب سے بڑا ہے  .مثال در مثال سب میں سچ ہے اور سچ بڑا ہے  ساری مثالیں مصوری ہیں. وہ المصور ہے. نقاش گر نے بنایا مجھے. میں نے نقش کو پہچان لیا اور پہچان کے سب کو  آپریٹو کردیا. اس آپریٹو کے پیچھے بڑی طاقت ہے. میں منبع کل کا معلوم نہیں ہوں. میں اپنی ذات کا معلوم ہوں  ... سب سے بڑا معلوم جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں. اس لیے:  بعد از خدا بزرگ توئ قصہ مختصر

Saturday, February 27, 2021

عشق ‏روحاں ‏دا ‏سنجوگ ‏

راگ سناوے آس دلاوے 
ساز وجاوے یاس مکاوے 
عشق روحاں دا سنجوگ 
عشق سے جاتا ہے سوگ 
عشق خوشبو عین وصل 
کدی ہجرت کدی وصلت 
کدی واج تے کدی خاموش 
کدی راگ اے کدی شور اے 
کدی بحر اے تو کدی موج 
کدی بادل اے کدی ساون 
کدی بجلی تے کدی رحمت 
دیدار دی اگ لگا دیوے 
آرزو نو صد آرزو بنا وے 
پیراں پڑیے، اکھیاں روون 
ساواں اوکھیاں راتاں لمیاں 
اتھرو وگن،  سرخی منگن 
جندڑی نو روگ لگا دیوے 
عشق روحاں دا سنجوگ ہے 
عشق توں جاندا سوگ اے 
عشق مست مست کریندا 
عشق جذب تے آپے مجذوب 
عشق دی ہستی مستی ویکھو 
عشق رلاوے عشق ہنساوے 
عشق دا مرض لاعلاج اے
من دے روگ تن دے سوگ 
عشق اے روحاں دا سنجوگ 
من دی ہستی ہوجاوے مٹی 
مٹی دی اوقات ہوجاوے مٹی 
عشق مٹی دا بالن  چنگا اے 
بھٹیارن بن جا جے سچا اے 
سمجھ سمجھ نہ آوے گا اے 
دلوں وحی بن کے اتر جاوے 
سجن مٹھن پیار دی مستی 
ساڈی ہستی کیہ اودی ہستی

سورہ ‏لہب ‏سے ‏ملا ‏پیغام ‏

جب نبوت کا آغاز ہوا تو، آپ کو شروع میں حکم  ملا کہ دعوت / تبلیغ کرو.... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند اخلاق کے حامل انسان --- صادق و امین کا لقب پانے والے...

آپ کوہِ صفا پر جاتے ہیں اور سب کو بُلاتے ہیں ... پیغام پہنچاتے ہیں اللہ کا..... یہ پہاڑ اہم اطلاعات پورے قبیلے کو فراہم کرنے کا ذریعہ بھی تھا. اس لیے سب جمع.ہوگئے..... ابولہب ایک ایسا شخص ہے جو اچھے اور برے کی تمیز نہیں جانتا اور نہ بھلائ پر آمادہ ہے.... 

گستاخی کا مرتکب ہوتا کہ کہتا ہے ترے لیے ہلاکت ہو نعوذ باللہ کہ اس لیے یہاں سب کو  جمع کیا گیا ہے م.. اللہ جل شانہ کو جلال آتا ہے تو یہ آیت نازل ہو جاتی ہیں کیا گیا... 

ان میں پیغام کیا کیا ہے؟

ابولہب صاحب ثروت شخص تھا. اللہ کا قہر نازل ہوجاتا مگر ان آیات میں لعنت کی گئی.... 

تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اک انسان اللہ کے بہت قریب ہے کیوں؟ کیونکہ اس نے اپنی زندگی اللہ کے لیے وقف کردی. جس نے اللہ کے لیے وقف کردی اسکا ضامن اللہ تعالیٰ ہے 

اک شخص جس نے دنیا میں کھانے / پینے کے لیے وقت صرف کیا. اس کو خدا کے پیغام سے سروکار نہیں کیونکہ وہ تو خود شہرت و طاقت  نشہ لیے ہے.... 

میرے لیے پیغام کیا ہے کہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قائم.ہوجاؤں. اک عام انسان کے لیے یہی حکم ہے. ...معروف / نہی کا حکم.پہلے اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے. آپ کا عمل کا ذکر پہلے ہوتا ہے پھر زبان پر ذکر ہوتا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے عمل کے ذاکر رہے ہیں پھر آپ کو تبلیغ کا حکم.ہوا

مگر ہم.سب مسلمان ہیں اس لیے تبلیغ تو ہم.سب کو سوٹ کرتی.ہی نہیں ہے ہم.سب کو امر بالمعروف نہی عن المنکر کا عمل بھاتا ہے.... 

دوذخ کیا ہے .  دوزخ ہے کیا؟

اختیار کا ختم.ہونا دنیاوی جاہ دولت و سرداری کا ختم.ہونا ہے. جس شخص پر اس کی "میں " حکمران ہو. وہ منفی سوچ کا حامل ہوتا ہے منفیت ---- کینہ بغض لالچ حسد جھوٹ یعنی وہ عناصر جن کا ایندھن پہلے اپنی ذات بنتی پھر دوسرے. وہ شخص اپنی ہی دوذخ میں ہلاک ہو جائے گا

ان کے لیے نیکی کا رستہ بند کردیا گیا جس نے امر بالمعروف نہی عن المنکر کی بات کرنے والے شخص کو لعنت دی. اللہ جل.شانہ اس سے اسکا اختیار واپس لے لیں گے. اسکا اختیار اللہ کا دیا ہوا تو ہے

وہ اپنی منفی سوچ میں پھنس کر رہ جائے گا. اور جس میں کینہ حسد جھوٹ وغیرہ جیسے اوصاف انتہا کو پہنچ جائیں اس کے دل دوذخ کی مثال ہو جاتا ہے. وہ چاہے بھی تو اپنی ہی کریٹذ دوزخ سے نکل نہیں سکتا ہے

حبل الورید ...اللہ شہ رگ سے قریب ہے. یہاں شہ رگ سے قریب سخت رسی ہے. اللہ کی رسی تھامے رکھو مگر جس نے "میں " کی رسی کو تھام رکھا اس کے گلے میں اس کا میں کا.پھندہ اتنا شدید پڑگیا کہ اللہ کا احساس / نام و نشان تک مہ رہا. جس جگہ اللہ کا احساس نہ رہے وہ  جگہ/ دل بے سکون و انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں

جس شخص نے اپنی ذات کی فلاح سے کام کرتے دوسروں کو فلاح پہنچائ وہ کامیاب ہے

جس شخص نے اپنی "میں " کو خدا بنالیا اس کے لیے ہلاکت ہے. اللہ نے اس سے دودی اختیار کی

دل اسکا خالی ہوگیا. دل میں صدا آتی ہے اللہ کی. وہ شخص صم بکم عم کی مثال.ہوگیا
پس میں نے امر بالمعروف کی راہ اختیار کرنی ہے اپنی ذات کو حکم دینا ہے کہ میں فلاح کی جانب آؤں

پھر عمل کا ذاکر ہوتے دوسروں کو زبان سے کہہ سکتی. مشکلات میں اللہ ہمارا ضامن یے. وہ نیکی کرنے والے کے سر پر ہاتھ رکھے ہوتا ہے. اس کا پشت پناہ ...

سورہ ‏نصر ‏سے ‏ملا ‏پیغام ‏

اس سورہ سے مجھے سبق ملتا ہے:  حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اک cause کے لیے کھڑے ہوئے. یقین کے پیکر عالی نے سورج و چاند کی قسمیں کھائیں اور مشن عظیم کو جاری رکھنا کا عہد کیا............ اللہ پاک نے مومنین کو طرح طرح سے آزمایا ...!  مظالم سہے گئے،  مار پیٹ سہی گئی، معاشرتی بائیکاٹ ہوا،  ہجرت کرنی پڑی ... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنوں کی جدائی سہنی پڑی ... اس کے باوجود آپ کا حوصلہ پہاڑوں کو مات دے. آپ بے مثال شجاعت و دلیری سے معاملات کو نبھاتے رہے،  پے در پے غزوات اور فتح خیبر!  یہودیوں کی عظیم الشان سلطنت کا خاتمہ اور اس کے ساتھ نوید دی گئی فتح مکہ کی ...

میرے لیے سورہ مبارکہ میں کیا.سبق ہے؟  میرے لیے کیسی مدد اور کیسی فتح ہے؟  میں نے خود سے سوال کیا ہے. آج اس مقام پر کھڑی ہوں اور قران کریم کا مخاطب میں ہوں ....
سب سے بڑی جنگ جو آج کے مسلمان کو یا مجھے درپیش ہے. وہ درون کی جنگ ہے. میں نے کوشش کی ہے کہ نفس کے حیلوں کو سمجھ سکوں؟  کبھی نفس کو سمجھانا چاہا؟  نفس میرا بھی یہودو نصاری کی طرح چال چلتا ہے. بد عہدی کا مرتکب ہوتا ہے. اپنا مفاد عزیز رکھتا ہے
یہ سورہ تمام مجاہدوں کے لیے پیغام رکھتی ہوں. میں نفس کے جہاد پر ہوں. یہ جہاد اکبر ہے.  جنگ کیسے ہوتی ہے؟  اسکی مثال 

* چار گہری دوستیں بیٹھی ہیں. ان کے معاشی اسٹیٹس میں فرق ہے. ان میں سے ایک جدوجہد میں مصروف ہے. ان میں سے اک احساس برتری میں مبتلا ہے. ان میں سے اک احساس کم تری میں مبتلا ہے...چوتھی دوست اس جہان میں نہیں ہے. وہ یقین پر قائم رہی ہے اور اب وہ حقیقت میں جی رہی ہے.

احساس کم تری میں نفس حاوی ہے. احساس برتری میں بھی نفس حاوی ہے.جبکہ جو جہاد میں مصروف ہے. اس کی روح کبھی حاوی ہوتی ہے تو کبھی نفس!  پہلی تو خود ترسی کا شکار ہے. اس پر ترس کھایا جائے،  رحم کیا جائے، منفی جذبہ اس کو خود کا اسیر کیے دے گا. برتری تکبر کا جذبہ ہے. شیطان کو جنت سے نکالا گیا تھا تکبر باعث

معرکہ حق و باطل میں اس لڑکی نے کئی معرکے سر کیے ہوں گے. جس سے یقین اس کو ملا ہوگا..  اب اللہ نے میرے نفس کو مخاطب کیا ہے کہ جو کوئی اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرے گا،  ویسے ہی نفس کو شکست دے گا، جیسے آپ صلی اللہ علیہ.وآلہ وسلم اور جناب علی رضی تعالی عنہ نے فتح خیبر میں یہودیوں کی دی. میرا نفس ویسے ہی من میں چھپے حرص، ہوس اور مکاری،  خود ترسی،  تکبر کے یہودیوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرے گا تو اسکو اللہ جانب سے نوید ہے کہ اللہ کی مدد آپہنچی یے

اس نوید کے ساتھ ساتھ پیغام تو یہ ہے جس طرح فتح مکہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ کعبہ کے بتوں کو اکھاڑ پھینکا .یہ نوید ہے ہر مجاہد نفس کو کہ  اس کے دل کا خانہ ء کعبہ منفی عناصر سے پاک ہونے والا ہے. اس کے دل میں اثبات کا نور بھرنے والا ہے روح کو نفس پر فتح کی نوید ہے کہ جو یقین.سے پامردی سے لڑے اس کے لیے فتح کی بشارت ہے

یہ نوید بشارت ہے!  اللہ نے مدد کے ساتھ جیت کی خبر دی ہے.

زندگی ‏حقیقت ‏میں ‏بھاگ ‏رہی ‏ہے ‏

زندگی حقیقت میں بھاگ رہی ہے اور ہم حقیقت سے دور بھاگ رہے .... زندگی دو مدار پر گردش رواں رکھتی ہے ....فنا اور بقا ...بچہ پیدا ہوا ...زندگی ملی اور پھر فنا ہوگیا بوڑھا ہوتے ...قبر تک جاتے ....  اب جو فنائیت مادی جسم کی موت سے ملے، وہ تو کچھ معانی نہ رکھتی ہے ...اس لیے جو انسان اس کی محبت میں موت سے پہلے فنا ہوجاتا ہے ...اسکو  اس دنیا سے جانے کے ابدیت مل جاتی ..اسکا ذکر بلند ہوجاتا ...اللہ فرماتا ہے 

ورفعنا لک ذکرک .... 

اب جس کا ذکر اللہ بلند کرے تو وہ شخص کیا ہوگا ...درحقیقت یہ کرم ہے جب صدر چاک ہوتا ہے ...اللہ فرماتا ہے 

الم نشرح لک صدرک .... ووضعنا انک وزرک ... 

تو اس پر رحمتوں کا نزول ہوجاتا ہے .... علم مل جاتا ہے ..یہ علم کیسے ملتا ہے ...؟  
قران پاک میں رب فرماتا ہے 

یا یھا المزمل .... 

وہ نور جو چھپا ہے،  وہ نور جس نے اک تجلی سہی اور گم ہوگیا ...جسے ہوش نہ رہا ... جس پر ڈر غالب آگیا یعنی رب سچے کا رعب بیٹھ گیا ..... 

اس نور سے رب مخاطب کرتے کہتا ہے ...

اے میرے مزمل .... 

پوچھا رب سے، مالک کیا احکامات؟

قم الیل الا قلیلا ...

قیام کر رات کو مگر قلیل ....
 
مالک قیام کیوں کروں؟  
ورتل القران ترتیلا ..
.
قران پاک پڑھنے کے لیے،مگر اسطرح کے ترتیل سے ...
مالک سے پوچھا قران سمجھ سے مشکل ...امی ہوں ... مگر طلبگار ہوں ...

مالک نے کہا .... 

مطلب ہم سمجھائیں گے، نیت دل پہ قائم رہ .... اسطرح کہ تو ذمہ داری کے قابل ہوجائے ..
..
انا سنلقی قول ثقیلا ....
 
یعنی عنقریب تم پر اسکے معانی مفاہیم سب کھلتے جائیں گے ... مگر انسان کہ نادان ....

لو انزلنا ھذا القران الی جبل الرئیتہ خاشعا متصدعا  من خشیتہ اللہ 

اگر یہ قران کسی پہاڑ پہ نازل فرماتے تؤ خوف سے دبا جاتا ... پھٹا جاتا ...

 مرتے ہیں ہم لوگ اور لفظ کھوجتے ہم لوگ ...یہ قران نازل ہوتا ہے اور اگر قران پہاڑ پہ نازل ہوتا تو پہاڑ  روئی روئ ہوجاتا مگر انسان کے دل پہ قران نازل ہوتا اور انسان غور نہیں کرتا
انسان دیکھتا نہیں کہ اسکو کیسے پیدا کیا گیا؟  اسکی قدر متعین کی گئی ...اسکو احسن التقویم و اسفل سافلین کا اختیار دیا گیا اور خالق نے قسم کھائی "تین "کی اور زیتون کی ...یہ انسان جو اپنے اصل کی جانب آتا نہیں

انسان کا اصل تو وہ دور ہے یاد کرنا ...جس کو یاد کرنے کے لیے قران پاک نازل ہوا ...او غافل!  او نادان ...ذرا دیکھ ...دیکھ لفظ کے ہیر پھیر کچھ نہیں ...اسکی تلاوت ٹھہر ٹھہر کے کرنا لازم

جب انسان بھاری ذمہ داری سے عہدہ بھرا ہوجاتا تو خالق فرماتا ہے ....

وہ ذات بندے کو عرفان کی جانب لیجاتی ہے ... 

سبحان الذی اسرہ بعبدی لیل  من المسجد الحرام الی مسجد الاقصی الذی ....
 

یہی معراج حقیقت ہے ...
اے غافل ..اٹھ ..کپڑے جھاڑ ... اور نیت دل سے وضو کر ...نیت حضور کی طلب رکھ ....تیرا رب تجھے پکارتا ہے اور تو اٹھتا ہی نہیں رات کے پہر ..جس پہر خالق اور بندے کے رازو نیاز ہوتے

دل ‏غم ‏گین ‏بہ ‏رخِ ‏استم*** ‏

دل غم گین بہ رخ استم
دل حزین بہ قرب استم
شام گزید، ستم مکن ...
شاخ بَہ حَرم قرب استم.
خدارا رحم کن بَہ احوال نور....
منم پاشیدم  ،منم روحی  شمشیدم ، حیات گمشیدم، چشم در روح قرار دھید ... کجا رفتم، فنا گشتم....
ستم جانیا بیا پیش دلم
نہم مجرمی بہ عشقم
من رقصی بہ دار عشقم
شمع دل از فنائے رفتم
منم قلندرم منم حیدریم
دل کے قرار کو گلاب لہجہ بنا، آنکھ رکھ، دل میں گمشدہ رہا کر!  دل کسے کب حال سے نکالتا ہے، یہ انسان خود حال سے نکل جاتا ہے ....رقص محفل میں نہیں ہوتا، محفل رقص میں آتی ہے ...زلزلہ دل میں آتا ہے، طوفان  وقوعہ پہ آئے تو تھام کے دل سجدہ کر ...
سجدہ! سجدہ!  سجدہ!
منم ساجد  ...منم ساجد
سجدہ شکر بسمل کا، سجدہ شکر بسمل پہ رقص واجب .....
انا حسینی!  انا حسینی!  انا حسینی!  محبت حسین خمیر میں ہے!  اسکے عشق میں ڈوبی،  غوطہ زن ہو ...کچھ الفاظ کے سمندر ہیں، کچھ معارفت کی گہرائیاں ہیں، کچھ تجلیات سے منور روزن دل، کچھ حدت ہے،  آتش فشانی عمل ہے!  کچھ زلزلوں نے جسم کو ہلا رکھا. ...ہاتھ دعا کو اٹھتے ہیں مالک رحم! رحمی بہ حال بسمل!
تبسم!  تبسم!  تبسم!
تو جس حال کے لیے تخلیق کی گئی، اسی حال میں رحم .... اشکوں کی مالا پرو، رحم کی ندیاں بَہا .... رحم مل جائے گا ...خدمت میں جاودانی ہے ...جا خدمت کر، مرا دل جیت لے! میں تو منتظر ہوں کب سے محبت دوں! تو نے اس راہ آنے میں وقت ضائع کیا ....  آجا!  آجا میری بندی!  میں ترا معبود .....
پڑھ لا الہ الا اللہ
منم:  اللہ ھو اللہ ھو ...ھو، ھو ...اللہ ھو
مالک:  پڑھ رب زدنی علما
منم:  ازدنی علما او رب ....ازدنی، ازدنی ...
مالک: تیرے ساتھ چند فرشتے ہیں، تسبیح خوان ہیں ... چل تجھے علم ملا
منم:  سبحانک لا علم مالنا الا ما علمتنا ....
مالک:  سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی مسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا ...انہ السمیع العلیم ....
منم:  میں مسکین و عاجز .... کیا اوقات ....
مالک:  ما تفکرون؟  ما تدبرون؟  اللہ الوالیی .... اللہ العلیی ...اللہ الرحیم ...پڑھ یا اللہ یا الرحمن یا الرحیم یا ذوالجلال والاکرام .....
منم : میرے احوال پہ رحم ...میرا شمس کہاں گیا!  دل پہ حال، ملال ہے! شکر واجب ...مولا شکر واجب

تخلیہ -**‏

تخلیہ ... 
میرے ہونے کا تخلیہ 
دے رہا ہے جنم مجھے 
میں کون ہوں؟
یہ کون دل کے شیش محل میں ہے؟
یہ کس تیر نے آر پار کیا؟
ہاں!
تخلیہ!
اس سے پہلے کے راز فاش ہو جائے 
اس سے پہلے تو گھات میں آئے نہ خود کے 
مجھے میرے ہونے کا اذن ملا 
اب تخلیہ 
ہاں ...
تخلیہ ..

اک ‏نعت ‏وہ ‏ہے****

اک نعت وہ ہے جو وجد ہے 
اک نعت وہ ہے جو مہک ہے 
اک نعت وہ ہے جو وصل ہے 
اک نعت وہ ہے جو رات ہے 
اک نعت وہ ہے جو بات ہے 
اک نعت وہ ہے جو ساتھ ہے 
اک ذات وہ ہے جو ساتھ ہے 
جو وہ ساتھ ہے تو نعت بنی 
جو نعت بنی تو رات بنی ہے 
رات میں بات،  بات سے بات 
یہ ملاقات ہے، یہ بہاراں ہے 
نعت کا وصف، عمل عین.ہے 
نعت کا وصف،  حب عین ہے 
نعت کا وصف،  جذبِ دل یے 
نعت کیا ہے؟  نعت تعریف یے 
نعت سے بات،  بات سے رات 
رات نے پائی ہے رات کی سوغات 
کر مناجات،  مناجات پسِ ذات 
پسِ ذات؟  ہان عین ذات ہے 
یہ لا عین ہے یا عین لا ہے؟  
یہ عین و لا کا کھیل کیا ہے؟  
کھیل نہیں ہے. 
ہاں یہ ضرب عین و لا کیا ہے؟  
الا اللہ کی ضرب سے نعت ہوتی ہے 
ضرب حق!  ید اللہ ہے 
بانگ مرغ ہے کہ وجدِ آفرینی 
ترنگ میں مگن کوئی ذات یے 
یہ نہ اوقات تھی پر کیا بات ہے 
یہ سوغات ملے جسے عین بات یے 
کمال کا تحفہ کہ لا منات سے لاحاجات سے ہوا سلسلہ 
سلسلہ بنا کیا؟  
ہاں بنتا یے 
سلسلہ تو عین شہود ہے 
پس عکس رقص یے 
دیوانہ کوئے یار جاتا یے 
دیوانہ کو علم نہیں رستہ 
دیوانہ محتاج کسی کا ہوگا؟
لا حاجات سے بات بنی 
لا سے عین شروع ہوا 
العشقُ عین 
العشقُ حب من 
الذات بالذات 
الذات رقصِ اظہارات 
پسِ دل طور کی بات ہے 
سر آئنہ میں ہوں؟  پس آئنہ کون ہے؟

دیوانے کی لو لگی ہے 
شناسا جانے کہ ہوگا کیا؟  
شناسائی کا لطف پوچھنے سے ملے گیا کیا 
ربط ذات میں مناجات لا 
ربط ذات میں لا حاجات لا 
تو رک جا!  ساکت ہو جا 
ذات کو اظہار میں لا 
تو لا ہو جا ...عین الا اللہ ہو جا 
رقص بسمل پسِ مناجات ہے 
یہ دل کی بات ہے رمز شناس یے 
قبلہ یے قبلے میں سجدے کی بات ہے 
قسم اس کعبہ کی 
العشق ذات من 
الحب ذات من 
الذات بالذات 
تدراک نہ ہوگا 
رنگ نی ہوگا 
رنگ مگر ہوگا 
جدا نہ ہوگا 
مگر وصل نہ ہوگا 
کمال نہ ہوگا مگر اس میں کمال.ہوگا

رجب سے شاد ہے 
یہ ناشاد دل کب سے برباد ہے؟
نہیں!  نہیں!  
یہ ذات ہے 
یہ وہ عین ذات ہے 
جس کی بات سے چلی بات ہے 
نہ تھی اوقات مگر کیا بات ہے 
سلسلہ ءنور ہے کہ روشنی ہے 
روشنی ہے کہ ماہ و سال ہیں 
ماہ سال سے پرے اک نظام یے 
نظام سے پرے اک کائنات یے 
کائنات میں تمام عالمین ہیں 
عالمین کے رب کی بات یے 
الحمد للہ رب العالمین 
الرجب !  ہاں رجب!  
ذکر شاد!  ہاں ذکر افکار سے ہوا 
ہاں یہ عین بات سے ہوا 
یہ منادی یے کہ کسی نے کہا 
العکس بات من 
العشق ذات من 
رقص بسمل میں چھپا کیا ہے 
تماشائے ذات سر بازار رکھا ہے 
اس میں کمال نہیں ہے مگر کمال کی رمز ہے 
وہ جو عالمین سے ہے 
وہ دل میں دلوں کو پکڑلیتا ہے 
وہ قلب سے قلوب میں جھانک لیتا ہے 
وہ نظر میں رکھتا ہے 
نظر منظر،  نظر زاویہ 
نظر حاشیہ،  نظر مستور 
نظر اول نظر آخر 
نظر دائرہ، نظر نقطہ 
نظر اک سفر ہے 
سفر کب سے ہے 
سفر میں اک خبر ہے 
خبر میں کیا بات ہے

سرحد ‏پار ***‏

کیا سرحد کے پار پریم رنگوں میں ڈھلی مورت دیکھی؟
کیا سرحد کے پار یار کی یار میں  صورت دیکھی؟
لکھتے ہوئے جس قدر خوش ہوں، اسی قدر کرب سے دوچار ہوں ... 
آتش شوق کے مرغولے بکھر کے دائرے بناتے ہیں 
ان دائروں میں ان کہی کہانی کی تحریر دیکھتی ہوں.  
یہ دائرے سرحد پار سے میرے ہست نگر کے گرد چکر کھا رہے ہیں 
صدائے عشق مجھے نہ دو 
غمِ عشق میں حال سے گئے
کسے فرصت سنے شب دیجور میں سرحد پار کے فسانے 
سرحد پار مٹی کے پتلوں سے ہوتے ہوائیں پیٍغام دیتی ہیں 
آہستہ آہستہ چلیے 
یہ زینہ عشق  قرینہ ادب سے ملتا ہے.
الفت کے نشے میں سرشار ہوں، کسے خبر شرر بار ہوں 
میری حدت سے گھبرا کے آنکھیں موند لیں جس نے 
ہواؤں جاؤ،  بتاؤ اسکو!  بتادو کہ جاودانی ملی ہے!  یہ شراب عشق سے نصیب ہے.  
حبیب کون ہے؟  رقیب کون ہے؟  
کس کو خبر وحید کون ہے؟
کس کو عطا رنگِ پیرہن ہے 
کس کو ملی دستار شوق کہ وہ مدہوش ہے.  
سرمہ ء وصال میں رنگت کا سوال ہے بابا 
رنگت سرمئی ہے!  وجدانی لہر نے نعرہ لگایا.  صبغتہ اللہ!  
ملتا ہے یہ رنگ جس کو 
اسی کو شام و سحر میں انعام ملتا ہے 
وجدان!
وجدان کیا ہے 
میں اکثر سوچتی ہوں وجدان کیا ہے ؟  میں حیران رہ جاتی ہوں کہ وجدان بس ایک راستہ ہے. ایک سفر کی گزرگاہ جو وقت کے ساتھ طویل ہوجاتی ہے اور بحر کی مانند وسیع ہوجاتی ہے.  وجدان الوہیت کے چراغوں کو پانے کا راستہ ہے!  یہ شام حنا ہے جو رات کی ہتھیلی پر سجتی ہے. یہ رات کی قبا ہے جس کو پہن پہن کے رات بہروپ بدل کے جلوہ گر ہوتی ہے. رات کا حجاب کب اترے گا!  افسوس رات کا حجاب تار ازل سے تار ابد تک کالا ہی رہے گا اور اس بے معنویت سے گزر کے صبحیں ملتی رہیں گی مگر اے چارہ گر 
رات کے چراغ سے،  شام کے لباس میں چلتے ہوئے شمس کے سامنے نہ آجانا کہ چاند ہی کافی ہے!  اصل کا پردہ فاش ہوتا ہے تو شمس شمس نہیں رہتا اور چاند چاند نہیں. چاند پر شمس کا گمان اور شمس پر چاند کا. رات اپنے بے معنوی حسن کے پیچھے چاند و سورج کی گفتگو کھولتی ہے تو حجاب فاش ہوتا ہے کہ رات آنکھ کا دھوکا ہے ہر طرف اسی کا سرمدی دھواں ہے بس اسی سرمدی دھواں کے چھپ جانا، چبری اوڑھ لینا حجاب ہے.  حجاب کو ملال کیا ہوسکتا ہے؟  سوچیے؟  سوچ تو یہی ہے کہ حجاب خود اٹھنا چاہتا ہے تاکہ حسن کی سرسامانیوں سے اسے سکون ملے، سامنے والا اس جلوے کو سہے بار بار اور کہے 
حق محمد!  حق علی! حق اللہ 
حق حسین!  حق علی!  حق فاطمہ 
حق اللہ حق محمد

قدیم ‏نور ‏

لکھتا رہے ہے مجھے قلم، سیاہی جانے کس بخت سے نصیب ہے. شام کے دھندلکے میں القران سے جاری وصیت ہے .یہ کائنات کی مجھے نصیحت ہے کہ قائم رہنا ہوتا ہے جب تک کوئ خبر منشور الہی سے نشر نہ ہو. دل کے سودے ہوجائیں تو دل اپنا نہیں رہتا  دل جسکا ہوتا ہے اس کے سامنے سر بہ خم ہوتا ہے. یہ وظیفہ ہے یہ صحیفہ ہے اور میں نے اپنی ذات کی قرات شروع کردی    ... یہ ٹھہر ٹھہر کے پڑھا قران ہے، یہ جو عمل مجھے حکمت کی جانب لیے جارہا ہے. حکیم قران پاک ہے. مجھے قران پاک نے یہ نصیحت کی ہے کہ قران پاک محبت ہے. قران کی آیت آیت محبت سے لبریز ہے. افسوس کیا گیا حضرت انسان پر کہ وہ کیوں جاہل اور نادان ہے ... اللہ نے وقت کی سب سے برگزیدہ ہستی کو کہا 

یا ایھا المدثر 

اے کمبل اوڑھنے والے ....  درون میں کملی کون سی ہوئی. کملی تھی حجاب کی. جب حجاب درز درز روشنی سے اقراء کا پیام لایا تو الہیات سے جسم مبارک لرزنے لگا ... اللہ کی شام بے نیازی والی ہے جبکہ بہترین عبد کو نیاز میں رہنا اسطرح کہ نیاز اللہ کے لیے بطور خیر ہدیہ تقسیم کی جائے. یہ الہیات کا نزول اپنی ذات کے لیے نہیں ہے. یہ ملحم آیت وارد ہوتی ہیں. وارد آیت نشان بن کے دل میں چمکتی ہے. جس دل میں اللہ کے نشان پڑجائے اللہ کے قدم تو نور حادث نور قدیم سے جا ملتا ہے اور مکمل ہونے لگتا ہے .... یہ نور وقت کے  ساتھ ساتھ مکمل ہوتا جاتا ہے ..  یہ نور جب مکمل ہوتا ہے تو کہتا ہے دل 

اللہ ہے خیال،  مجاز میں رحمن 
اللہ ہے حق،  مجاز میں رحمن 

خشیت سے جسم ایسے لرزتا ہے جیسے پتے تیز ہوا سے بکھرنے لگتے ہیں.    انسان خود میں سمٹنے لگتا ہے ..جب کملی بدل دی جاتی ہے،  روشنی مل جاتی ہے تب انسان کے لیے منصب ہوتا ہے اور اسکو عہد نبھانا ہوتا ہے ... فرمایا جاتا ہے 
قم فانذر 

اللہ کریم محبت ہے محبت بانٹنے کا حکم مل جاتا ہے. حق و باطل کے معرکے ہوتے ہیں اور حق کی جیت ہوجاتی ہے. حق سچ ہے اور سچ لازوال ہے .... قلم نے لکھا ہے کہ خدا محبت ہے. خدا کی پہچان محبت سے ہے. خدا ماں کی وہ لوری ہے جو نور قدامت کی پہچان ہے  ہم قدیم نور ازل سے اسکی تلاش میں ہے. یہ کھیل کھیلا جاتا ہے تاکہ کھوجی روح کھوج کرے اور جذب حق میں دھیان سے اس کی لگن قائم رکھے ... اللہ تو قائم ہے مگر عارف اللہ کو قائم رکھتا ہے. یہ پہچان ہے کہ اللہ العالی ہے مگر عارف ذات سے اسکی رفعت کو مذکور کرتا ہے توصیف کرتا ہے. جس کی رفعت کا تذکرہ ہوتا ہے وہ کون کررہا ہے یہ دیکھا جاتا ہے .. عارف اللہ کی وہ زمین ہے جس کو شمس کی سی تابناکی حاصل ہوتی ہے 

سنو ... خدا قدیم ہے مگر جس کے لیے نور حادث ہے اس نے نقطے کی جانب سفر شروع کردیا ہے  اس نے ع اور غ کا فرق مٹا دیا گویا نقطہ اس کی ذات ہے. یہی پہچان ہے کہ نقطے ہو جاؤ اور نقطے مٹادو ...نقطہ جس کو مل گیا اس پر الم کا نشان بطور قدم واجب ہے  یہ آیات قدم ہیں جو دل پر ایسے پڑتے جیسے گرم پگھلا لوہا ہو دل ... نشان ہوتا ہی منور ہے

حبیب ‏دل ‏میں ‏رہا ‏ہے ***‏

حبیب دل میں رہا ہے 
قرینِ جاں وہ رہا ہے 
کون ہے وہ پتا بتاؤ؟
نَہیں!  حجاب اچھا 
نہیں اچھا نقاب!  
پاگل ہو تم،  سب دید میں ہیں 
محو لقا ہیں 
گم دیوانے ہیں 
مے خانے پیمانے میں ہو 
تم کو دیوانے کہتے ہیں 
میخانے پیمانے میں ہیں 
دل میں رہتے مستانے ہیں 
یہ دل مکین جانب اطہر ہے 
شاہ دو جہاں کا یہ اثر ہے 
دنیا کی دل میں اک قبر ہے 
دنیا نبھانی اب اک  جبر ہے 
دنیا میں رہنا؟  ارے حذر ہے 
دنیا مٹی ہے اور دل پاؤں ہے 
رکھی کسی نے یہ چھاؤں ہے 
رحمت کی بدلی چھائی ہے 
رحمت سے دنیا پاؤں میں ہے 
کملی والے نے لاج رکھی ہے 
صدائے دل میں بات رکھی ہے 
وہ کون ہے جس میں جلوہ حق نما ہے 
وہ کون ہے جس کو غازہ کہا دنیا نے 
غازہ حق لیے وہ شہپر جبرئیل لیے ہے 
دل کو دیکھو یہ بابرکت قندیل لیے ہے 
وہ محمد کا نور ہے دل پر نوری ہالہ ہے 
یہ شیریں درود ہے کہ درود کا پیالہ ہے 
دل میرا جھکا ہے  کہتا ہے شہ والا  ہے 
دل کی زمینیں ہیں 
دل کے افلاک ہیں 
دل پر رحمت کی بدلی ہے 
دل پر جنبشِ مژگان نے نم کردیا یے 
نم ڈالتے ہیں وصل کرتے ہیں ہم 

میں نے محبوب سے پوچھا تم کہاں تھے؟  کیوں نہیں ملے اس سے قبل؟ کتنا رلایا تھا ...رات جگایا تھا مگر نہ آئے تم ...اب تم آئے ہو جب دجلہ سوکھ گیا ہے جب بادل پانی کھوچکے ہیں جب بینائی نے آنکھ کھودی ... ظلم ہوا نا مجھ پر ... محبوب پیارا ہوتا ہے محبوب آنکھ ہوتا ہے آنکھ ہے روشنی ہے ...آنکھ اسم ذات ہے محبوب اسم ذات ہے محبوب بندگی کی وہ روشنی ہے جو ھو بن کے دل میں جل.رہی ہے. رحمت کی جل تھل ہے کہ جل جل بجھ بجھ کے جل رہی ہوں. کملی.والے نے پناہ دے رکھی ہے میری ذات میں شام رکھی ہے دل رات کی ہتھیلی میں ہےاور سورج کی تابش میں جلن نے دل جلا دیا 

جل گیا دل.اور بچا کیا؟ 

تو بچائے کیا آئنہِ دل؟  دل تو بچا ہی نہیں ہے دل کسی کی یاد میں فنا ہے ... فنا ہونے کے لیے محبوب چاہیے ہوتا ہے اور جس دل کو طالب نہ ملے وہ مطلوب نہیں ہو سکتا ...
جس.کو.مطلوب نہ ملے وہ طالب نہیں اچھا 

طالب بن جا مطلوب پاس ہو 
مطلوب ہو جا کہ طالب پاس ہو 

یہ قاب قوسین کی.رمز نرالی ہے ...ہم ان کے سائے میں ہیں یہ حکمت نرالی ہے ...یہ ثمہ دنا کی.رفعت بن مطلوب حاصل نہیں ہوتی ہے ...مرشد کا سینہ.قران ہے جس کو سینہ نہ ملے اسکو پناہ نہیں ملے گی ... اپنے آپ کو بچالو محبت سے ...

اے محبوب تم نے کتنے واسطوں، کتنے سلسلوں میں بات کی؟
تم کو دوئ میں جا بجا دیکھا 
تم کو خود میں نہاں دیکھا 
اے محبوب بتاؤ کہاں کہاں نہیں دیکھا .. باہر ہو تم ..اندر بھی تم ... تمھارے نام کی شمع جلتی ہے دل میں تو نام اللہ نکلتا ہے. تسبیح دل والی پڑھو. تسبیح کیا ہے؟

محبوب کہتا ہے کہ تسبیح دھیان ہے دھیان میں آجاو ..دھیان فکر ہے اور افکار میں وسعت ہے وسیع ہوجاؤ لامحدود ہو جاؤ عشق لامحدود ہے اور تم کیسے دھیان محدود کیسے کرسکتے. تم کو رفعت پر جانا ہے اور بے انتہا کی شدت میں گم ہونا 

اے  بیخودی ہم کو تھام لے 
اے خودی تجھ میں گم ہیں 
یہ خودی سے ابھرتا جنون ہے 
روح گم ہے اور گم کس جہان میں ہے 

اچھا.محبوب کہتا ہے کہ جام وحدت پی لے اور کہہ دے دوئی نقش ہے جھوٹا اور کردے عشق سچا. 

دل بتا تو سہی کہ عشق سچا میں کیسے کروں؟  تو خود اسم دعا بن کے مٹا دے جھوٹ دل کا اور ہو جا مجھ میں بس اک تو سچا 

حق سچا اللہ ہے 
محبوب میرا اللہ ہے 
محبوب وہ ہے جو اللہ سے ملا دے 
اللہ.اللہ اللہ کہو 
اللہ.سے اللہ ملے گا 
اللہ کہنے میں رمز پوشیدہ ہے 
ذات خود میں پہچان کرچکی ہے 
یہ معرفت وہ حاصل کرچکی ہے ...

طریقہ ----*****‏

چل اس نہج کہ زمین کی گردش تھم جائے اور افکار کے سلاسل مل جائیں. کچھ مل جائے تو دل ہِل جائے. دل کو صدا سنائی دے یا چہک اس بلبل کی جو زمن در زمن ساتھ میرے ہے. زمانہ تو میرے ساتھ ہے تو میں کون ہوِں. مجھے افلاک کا سینہ چیر کر دکھایا جائے تو دل گویا ظاہر ہوجائے. ایسے ممکن نہ تھا کہ مکان گویا مکین کے بنا.ہو. مکین ساتھ ہو.تو زمانے ساتھ ہوتے ہیں ..  مکین سے پوچھا جائے کہ زمانے ساتھ ہیں تو اس مکان کی حیثیت کیا ہوگی. مکان والے بڑی شان والے ہوتے ہیں اور شان کریمی سے پردہ بڑا رہ جاتا ہے. فہم سے مدبر ہوتا انسان خود میں دربار ہوجاتا ہے. دل میں مکین ہو شاہ اور حجاب رہے تو حضرت انسان پردے سے ہچکچاتا ہے  ہچکی لگی رہے گی تو زمین خالی نہ رہے گی. سیلاب زندگی کا عندیہ ہیں اور تخریب کا صدقہ بھی  یہ تلاطم وجود میں جب بھرپور ہوتے ہیں اور شور میں ہیجان آتا ہے  شور کہتا ہے کہ  چل جانب منزل  چل اس متناہی سلاسل سے لامکان کی منزل پر جہاں تجھ پر حقائق ہائے ھو کھلیں  جہاں شور میں سکوت اور سکوت میں شور ہوجائے  دل میں بس اک صدا ہو بس جناب وہ کہیں گے 

یا محب و محبوب 
یا مطوب و طالب 
یا عاشق و معشوق
اے طواف والی ہستی 
مطاف میں بٹھا 
مطاف میں نور ہے 
نور جانے کس کا ہے 
نورِ من تو سن!
طورِ دل بتا تو 
کہ انگلیاں کٹ گئیں 
بنا دیکھے حسن کی تابش 
دیکھیں گے تو حال کیا ہوگا 
یہ جلوہ حضور 
مجھے کرے مہجور 
وادی عشق میں طیور 
ان کی جانب ہیں ضرور 
مٹ جائیں دل کے فتور 
دل کو مل جائے صبوری 
راقم سے ہو بات ضروری

سفر ‏کا ‏آغاز ‏***

سفر کا آغاز شروع نہیں ہوتا مگر جب بچہ قدم رکھتا ہے ـ قد بڑھ جاتا ہے اور شعور پختہ ہوجاتا ہے ـ روح کا شعور سمجھنا پڑتا ہے یعنی شعور میں لانا پڑتا ہے ـ تم فلک پر بیٹھ کے وہ لکھتے ہو جو وہ لکھواتا ہے، تو پھر شعور بیدار ہے مگر تم زمین پر رہ کے اسی میں کھو گئے ہو تو زمین کی ناسوتی نے تم کو گھیر لیا ہے ـ  فلک پر مقیم ہونے کے لیے طائر کو پرواز چاہیے ہوتی ہے. پرواز کو پر لگانے والا جانتا ہے نور کن ہندسوں اور کن حروف سے منتقل ہوتا ہے ـ  تم کو آیات نوری چاہیے اور تم نہیں جانتے کہ خدا تم کو یہ آیات نوری دینا چاہتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ نور اپنا دائرہ مکمل کرلیتا ہے ـ دائرہ مکمل ہوتے ہی فرق مٹ جاتے ہیں ـ تب ہی دوئی کا خاتمہ ہوجاتا ہے ـ وحدت کی جانب سفر کا آغاز خشیت سے ہوتا ہے جب روح کو جلال ملنے لگے تو یہ مقام ہے ـ مقام اقرا.  یہ مقام لاہوت ہے. مقام لاہوت پر جائے بنا لفظ اقراء کے مکارم سمجھ نہیں آتے. جب لاہوت پر مقیم طائر جاننے لگتے ہیں تو ان کو ترس ہونے لگتی ہے کہ قراءت ہو مزید. ھل من مزید کرتے کرتے ان کو سرر کی منازل میں وہ سب طے کرایا جاتا جس کے واسطے ان کو عبدیت کا درجہ ملنا ہوتا یے. ہم چاہتے ہیں کہ انتخاب کریں تو ہمارا انتخاب کا طریقہ یہی ہے کہ دینے والا بس تسلیم میں رہے کہ بقا ہمیں ہے. یہ ہماری کرسی ہے جس پر ہم قرار کیے ہوئے ہیں. ہم دیکھتے ہیں تو روح دمکنے لگتی ہے. اسکو ہماری چاہت ہے. اے طائر،  تو نفس کے دھوکے و فریب میں پھنس کے اس کرسی کو اپنی کرسی مت سمجھنا ورنہ شہ رگ سے جو قلبی قلبی فرشتہ ہے،  جان کنی کے عالم میں اس سے ملنا محال ہو جائے گا. ہم نے جو عطائے غیب سے عطا کیا ہے وہ اک جریدہ ہے. اس پر جو تحریر ہے وہ فیکون کا وہ علم ہے جو تکوین کا محتاج ہے. ہم نے چاہا کہ پرواز دی جائے تو ہم چاہیں گے ایسا ہوگا. کسی کی مجال نہیں ہے کہ ہمارے قانون میں دخل ڈالے 

اے طائرِ سدرہ!  تجھے کس بات نے دھوکے میں ڈآل رکھا ہے؟  یقین کے بنا کچھ ممکن نہیں ہوتا ہے. جب تک نوری ہالہ مکمل نہ ہو، تب تک وہ مقام مقربین کا جو لکھا ہے، وہ ملتا نہیں . نقطے سے سفر شروع ہوتا یے دائرہ بنتا ہے اور دائرہ پھرنقطے تک لوٹ آتا ہے. سو لوٹ کے ہمارے پاس آنے والی روح،  اطمینان سے رہ!  سمیٹ لے یہ اشک اور سجدے میں رہ. خدا ساجدین کو محبوب رکھتا یے خدا صابرین کو محبوب رکھتا یے

قلم-- ‏کہانی ‏

اپنی کہانی ہے اور قلم لکھ رہا ہے. اصنام ستارے سے یا افلاک سے پرے مگر ہیں اصنام  ... دل کو ایک صنم کافی ہے جس نے انگلی پکڑ کے چلنا سکھایا کہ تو اب اٹھ اور کر کام. کام کے لیے یہ جہاں ہے. جہان میں ستارے ہیں جبکہ ہر انسان ستارہ سحری لیے ہے. تجھے چاہیے کہ ستارے کے پاس نہ جا بلکہ ذات کے سحر میں ستارہ ہو جا. اب کن سے فیکون ہو جا. امر حاصل ہے تجھ کو کہ خداکا امر ہے ہر جگہ اور اسم ذات سے جڑی ارواح کی تسبیح اللہ اللہ اللہ ہے. اللہ اللہ اللہ کرنے سے کام بن جاتا ہے کہ خدا ماں جیسا مہربان ہے مگر خدا اپنے ساتھ ذات کا خلوص مانگتا ہے. تجھ کو چاہیے کہ نیت خالص کرکے خدا کے پاس چل. وقت کے مذبح خانے میں جوہر لٹا دیا جائے تو تڑپ کو قرار کب ملتا ہے  تڑپ جذب کرنے سے قائم ہوجاتا ہے اسم ذات مگر نادان اس بات کو کہاں سمجھ سکتے. اے دل! قسم اس جہان میں ہزار دل ہے اور ہر دل میں اللہ ہے  ہر دل کی تسبیح ہے اللہ اللہ اللہ. اللہ کے اسم ذات سے ھو کا جلوہ ہوتا ہے. ہر جانب ھو ہے یعنی اللہ پورے جہان میں جلوہ گر ہے. کب کسی نے کہا ہے کہ قران پاک مقدس جائے نمازِ دل ہے. جب تک نیت کا جائے نماز بچھایا نہ جائے دل وضو نہیں کرسکتا. اے دل!  قرار پکڑ کے قائم ہو جا اس کلمے سے جس میں ھو کی نشانیاں ہیں. محبت مل جاتی ہے اور محبت تقسیم ہوجاتی ہے. جذبات نکھر جاتے ہیں اور قلب مطہر ہو جاتے ہیں. مطہرین کو چاہیے کہ نیت پاک رکھیں ورنہ کام بنتا نہیں یے. جس کا کام نہ بنے وہ گیا کام سے. جب سے اس جہان میں حسن آیا اور جلوہ گرہوا ہے. تب سے جہاں میں حسینوں کے متلاشی بنائے گئے ہیں. اک تلاش کرتا ہے حسین کو اور دوجا محسن ہوجاتا ہے. یہ محسن و متلاشی کی بات ہے. یہ قربت کی انتہا کی بات ہے کہ جس میں دوئی نہیں ہوتی کہ جس میں من و تو کی بحث نہیں ہوتی. یہ جذبات مصفی و مجلی ہوتے ہیں اور آیت زیتون دل میں ابھر آتی ہے. یہ زیتون کے بابرکت تیل سے آگ پکڑتی ہے اور دل کا لوح اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے. کون اس میں کود سکتا ہے؟  یہ عشق ہوتا ہے جو نار میں کود پڑتا ہے نار گلنار ہوتی ہے مگر کون جا سکتا ہے کہ درد کو ختم کرنے کے لیے درد جذب کرنا پڑتا ہے. جذبات پانے کے لیے جذبات قلم کربے پڑتے ہیں. قلم تلوار کی مانند ہر شے قلم کر دیتا ہے اور خالی دھڑ سے بسمل کا رقص ہوتا ہے بسمل دار پر رقص کرتا ہے اور جوش میں ہوش قائم رہتا ہے. یہی عین حیات ہے جو بعد ممات ہے

قصہ ‏گو ‏

قصہ گو چھیڑ رہا ہے قصہ مجھ میں اور میں لکھ رہی ہوں عشق کی کہانی . مقدس صحیفہ ہے جس کو لوح مبین سے مبارک دل میں اتارا گیا تھا اور اس کے جلوہ کو مخلوق آئی تھی. یہ نہ کہو کہ عشق مجذوب ہے بلکہ جس دل میں اترا ہے وہ مندوب رسول ہے. قسم اس رات کی جو سینوں میں قرار پکڑ لیتی ہے وہ عشق کی آگ ہے جس سے دل کے درد چھالے بدن کو دیکھنا محال ہوجاتا ہے. یہ آگ ان دیکھی ہے جس میں روح جل جل کے وہ خوشبو بکھیرتی ہے کہ روم روم سے یار   نکل آتا ہے اور یار اپنے  ذرے میں رونما ہوجاتا ہے .

جیسے اک مصحف تم میں ہے ویسے اک مصحف ہر آیت میں ہے. عشق دکھاتا ہے آیت آیت میں آیت ہے. یہ وہ ہاتھ ہے جسکو یدبیضاء کہا گیا ہے جس سے دل پر نوری ہالے وجود پکڑلیتے ہیں گویا دل برقی رو پکڑلیتے ہیں ... سب یک ٹک ہو کے تسبیح ھو کے پڑھنے لگتے ہے. کون کہتا ہے قران پاک میں عشق و معشوق کے قصے نہیں ہے. عشق کا قصہ اتنا مقدس ہے جتنا اک مجذوب کا دل. یہ کہانی تو قرار پکڑی، جب آدم علیہ سلام کو جنت سے نکالا گیا تھا

وہ گریہ ء آدم جس کو دل میں محسوس کیا جاتا ہے وہ کیا ہے؟  عشق گریہ کے بنا نہیں ہوتا ہے. یہ دل روتا ہے دیدار و وصلت کو .....،  وہ جنت جہاں راحت و چین جذب  کی صورت سرائیت کیے دیتی ہے اور کیا تم نے نہیں دیکھا اک باپ،  بیٹے کی جدائی میں بینائی کھو دے ... وہ عشق تھا جس نے خوشبو سے پتا دیا، بیٹے کا وہ دنیا میں خاکی لبادے میں موجود ہے

عشق اک ماں کے سینے میں نمودار ہوتا ہے اور ماں بچے کے لیے روتی ہے جیسا گریہ یعقوب تھا تم نے سنا. کبھی گریہ یعقوب دیکھو اور دیکھو کتنی مائیں اس جہان میں اپنی قربانی سے زمانے کو سنوار رہی ہیں

عشق کو پڑھو تم تو یاد ہوگا جب باپ و بیٹا قربان ہونے مقتل کو پہنچتا ہے اور اک دنبہ نمودار ہوجاتا ہے. دیکھو تو تم اک طالب رہا دوجا مطلوب ہے

عشق طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کو مطلوب بلاتا ہے اور مطلوب کو طالب. پیاسا کنواں کے پاس آجاتا ہے اور کنواں پیاسے کے پاس. قران پاک میں عشق کی داستانیں ہیں یہ داستانیں جب موسی علیہ سلام نے لن ترانی کہا. لن ترانی سے من رآنی کا سفر تھا سارا کہ ہستیاں بدل دی گئیں

عشق طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کو مطلوب بلاتا ہے اور مطلوب کو طالب. پیاسا کنواں کے پاس آجاتا ہے اور کنواں پیاسے کے پاس. قران پاک میں عشق کی داستانیں ہیں .....، یہ داستانیں جب موسی علیہ سلام نے لن ترانی کہا. لن ترانی سے من رآنی کا سفر تھا سارا کہ ہستیاں بدل دی گئیں

یہ عشق کا سارا کھیل ہے کہ جو ازل سے آزاد روحیں میں چلتا  آیا ہے جب ابراہیم علیہ سلام نے خدا کی کھوج کی اور کہا کہ خدا تو کیا چاند ہے؟  کیا تو سورج ہے؟  مظہر مظہر سے ہوتے وہ کہاں پہنچے... اللہ تک . ہر آزاد روح جو تلاش کرتی ہے خدا کو مظہر مظہر میں،  یہ عشق ہے ..

یہ طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کہہ رہا کہ کہاں ہے تو مطلوب. اے مطلوب چل آ ... مطلوب کہ رہا ہے کہ طالب آ،  طالب آ،  طالب آ ... یہ شب بیداری کے قصے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جاگتے رہے اور حرا میں قائم رہے .. زملونی زملونی کہتے خشیت میں ڈوبتے ڈوبتے رہے یہ کیا تھا ..یہ عشق تھا
جب مومنین کی کھالیں قران کی خشیت سے کانپنے لگ جاتی ہیں اور وہ جذب ہوجاتے ہیں بہت سے ایسے ہیں جو آیت کے نور سے مسلمان ہو جاتے ہیں، یہ جذب ہونا عشق ہے

عشق مجذوب ہونا مانگتا ہے عشق جذاب مانگتا یے ....، عشق حسین مانگتا ہے،  عشق حسن مانگتا ہے ...، عشق کلام الہی ہے ....یہ قلم سے چلتا سلسلہ ہے جس میں ارواح زیر دام ہوتے قربان ہو جاتی ہیں. یہ جان دینے کا نام ہے جب ہم نے پڑھا قرأت صحابہ کی گرم کوئلوں پر ... یہ طالب و مطلوب کی کہانی ہے جس میں جمال کی طالب ارواح اکٹھی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاز .. قسم اے دل..... تمام ارواح آج بھی جمع ہیں اسی گھڑی کو ہم دیکھتے ہیں ان کی کملی نے ایسی تمام ارواح کو اپنے کملی میں لے رکھا یے

لفظوں کے ہیر پھیر میں میرے دل کچھ نہیں. بندگی عشق ہے عبدیت عشق ہے  ..عبدیت یعنی خود نیاز کی انتہا میں ہونا اور خدا وہ ہے جو بے نیازی پر ہوتے اپنی مامتا کو لٹاتا ہے وہ ہے. لفظ عشق نہیں ہیں    روح عشق ہے عشق میِ روح جل جاتی ہے کپڑا جب تک نہ جلے عشق نہیِ ہوتا

کپڑا جلنا چاہیے اس لیے سورہ النور میں نور علی نور فرمایا ہے مرشد وہ نور ہے جو روح کے نور پر نور ہوجاتا ہے آئنے کو آئنہ نہ ملے آئنہ روتا ہے آئنہ چاہیے .. آئنے ہوتا ہے عشق ہوتا ہے....

آؤ ہم سب دعا مانگیں کہ ہمیں عشق سے نواز دے خدا...ہماری جھولی میں عشق کی وہ لازوال دولت رکھ کہ ہم تن من لٹا کے خدا کی گود میں سر چھپالیں کہ ہمیں بس خدا کافی ہے اللہ ھو الکافی اللہ ھو الشافی...خدا ماں کی لوری ہے. یہ جو مائیں پھرتی محبت بانٹتی ہیں بن عشق کے یہ قربان ہو سکتی ہیں؟ ان کی روح جل رہی ہوتی ہے ان کا درد مانگتا ہے اور درد اور.....،  درد کی دوا ہے درد....اے خدا ہمیں درد بے انتہا دے اور اتنا دے کہ درد نہ رہے اس درد میں یاد رہے تو اورکوئی نہ رہے کہ تو نے باقی رہنا ہے باقی سب کو فنا. اے خدا ہم کو فنا کردے کہ ہم فانی یے تو باقی. جب دل فنا ہو جاتا ہے تو دل کہتا ہے....، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ...یہ کلمہ ایسے دل میں قرار پکڑ جاتا ہے اور ہم کو خدا کے سوا کیا چاہیے  خدا کافی ہے

اضطراب*** ‏

بے چین ہے دل کیوں؟  یہ اضطراب کیوں ہے؟  رُخ تو مائل ہے، دل میں محسن بیٹھا ہے اور جزا نہیں محبت کا. اس سے پوچھنا کہ موجِ اضطراب مانند بحر تموج رکھتی ہے اور انتہا مانگتی ہے.  تو درد دے!  دے اور بے انتہا دے مگر ساتھ وہ دے جس کے لیے کاتب کو مکتوب لکھوا رہا ہے. یہ فاصلے حائل کیوں ہیں؟ یہ نقاط کیوں متصل نہیں ہورہے؟  تو نے کہا تھا کہ تو دے گا؟ تو نے تو کہا تھا تو نہیں چھوڑے گا!  تو نے تو کہا تھا کہ دائم ساتھ رکھے گا مگر یہ جو دوری ہے یہ تو اضطراب ہے ـ اے برق نمودار ہو!  اے شعلہ جلا دے!  اے الوہیت کے چراغ،  ملوہیت کی روشنی سے نواز ... تو نے دینا ہے تو نے تو کہا تھا تو دے گا 
خاموشی ہے اور رات سوتی ہے 
تو نے تو کہا تھا تو تو دے گا 

پھر سیم و زر کے انبار کہاں ہیں؟  پھر وہ رات کے عروج پر بام و در سے کھلی روشنی کہاں ہے ـ میرا گنبد افلاک میں کھوگیا ہے ـ یہ معبد بدن میں کس کی آیت ہے؟  یہ موج حق ہے جو سینے میں پیوست ہے 

سو جاؤ!  سو جاؤ!  سو جاؤ!  
ورنہ زار زار رو!  زار زار رو!  
اس نے بلایا نہیں ہم جاتے نہیں 
وہ بلائے گا تو ہم جائیں گے 

اک اسم مانند فرشتہ راہ میں ہے.  اک اسم مانند آئنہ نمود میں ہے. اس نے کہا تھا دید کریں گے. کرو گے پھر تم دید ... چلو پھر وادی ء بطحا میں چلیں. چلو پھر النمل کو پڑھیں. اور دیکھو چیونٹی کا سینہ زمین پر کیسا بھاری پڑا تھا.  چلو ہد ہد سے پوچھیں کہ افلاک سے زمین تلک کس کی شہنشاہی ہے ..چلو چلو ہم خود کن پڑھ کے پھونک دیں تن من میں "اللہ " جان آئے گی ہم میں.  جی اٹھیں گے ہم.  مردہ دل کو چاہیے کیا؟ کیا نہ چاہیے؟  وہ دے گا روشنی سے منور سجدہ. سجدہ پڑا رہے گا اور ہالہ نور سفر کرے گا. یہ مقام حــــم کب کھلے گا. یہ اسم طلحہ ہے. یہ مجاور اسماء کے فرشتے ہیں. دل میں مزار ہے جس میں نورانی مصحف کو پڑھنے والی کنجیاں ہیں اور مطہرین ان کنجیوں کو کھول سکتے. چلو " اسم کن " سے "لفظ " اللہ " کو پھونک دیں. یکمشت سب خود کھل جائے گا. تمام اسماء کی مجال نہ ہوگی. ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے .... صاحب قران وہی ہوتے ہیں!  قاری ء قران وہی ہوتے ہیں 

اے خدا!  کتنی دیر؟  یہاں سانس کم ہیں،  کام زیادہ ہیں. اے خدا بلا لے اور کاتب کو پکڑا دے وہ تمام اسماء جس کو بوقت نفخ دیا تھا. نائب کو چاہیے کیا؟  نیابت ادھوری ہے!  انسان ادھورا ہے. تجھ کو اللہ کب گنوارا ہے کہ نائب ادھورا رہے.  تو نے تو کہا تھا تو اپنا نور مکمل کرتا ہے. تو نے تو کہا ہے کہ نور مکمل ہوگا چاہے جتنی کوشش کوئ کرلے. تو نے کہا ہے کہ اکملت اکملت اکملت. جب تو نے مکمل کردیا تو امتی کیسے رہ سکتے؟  یہ تو ہمارے لیے ہے نا؟  ہے نا؟  ہے نا؟  تو دے دے اللہ!  اس سے پہلے سانس گھٹ کے مر جائے!  مرض بڑھتا جائے گا دوا کب ہوگا. تو نے کہا تھا کہ تو ملے گا. تو نے کہا تھا تجھ کو مخلوق سے محبت ہے. تو محبت والا ہے. تو پیار والا ہے. تو مانگے ہیں ہم اور مانگی جائیں گی کہ بنا لیے ہم کیسے جائیں؟  بتا؟  بتا؟  بتا نا؟

رنگساز ‏

رنگ والے نے بلایا ہے. رنگ والے سے کہو کہ اللہ ھو. اللہ ھو. اللہ ھو 

تم اللہ، وہ اللہ،  یہ اللہ،  ادھر اللہ،  اُدھر اللہ 
واللہ،  واللہ ہر جگہ اللہ،  واللہ واللہ اللہ اللہ  
یہ اللہ میرا، وہ اللہ اسکا،  نہیں سب کا ہے 
کہو اللہ، کہو اللہ،  اللہ والے سنیں گے ھو ھو 

تو خود ہے!  تو خود ہے!  تو خود مصور ہے!  تو خود ترتیب ساز ہے. تو چشم بصیر سے دیکھے اور کوئ جگہ ایسی نہ ہو جہاں چھپ نہ سکے ہم. ہم چھپ نہیں سکتا وہ دیکھے اگر تو تاب لاؤ گے؟  لاؤ گے تاب؟  آب و تاب میں حساب نہ  رکھو ورنہ ہو جاؤ گے لاجواب. یہ شام گلاب ہے. یہ شام ہے مست ولائے حیدری. منم حیدری! ہم حیدری ہیں. ہم غلامِ علی ہیں ... ہم غلام پنجتن پاک ہیں. بے حساب درود اعلی ہستیوں پر. یہ شمار نہیں کرتے دینے میں. مانگ لیتے ہیں ہم ان سے ذات اپنی ... ذات وہی ہے جو ساڈی ذات ہے. اسم ذات ہے!  حق ذات ہے!  جس میں شاہ عباس ہے. جس میں ریشمی رومال ہے جس میں ساجد بھی اک ہے وہی مسجود ہے. فرق نہیں. دوئ نہیں تو نماز ہوئ کیا؟  بس جانو اور کہو نہیں جانا. معلوم نہیں ہے. ہم نہیں جانتے 
کیف ھالک 
کہنا اچھا ہے سب 
یوم تکملو 
کہو کیا پتا کیا خبر 
بس کہو اللہ اللہ اللہ 
اللہ اللہ کہنے والا ساز اک 
اللہ اللہ کہنے والی بات اک 
اللہ اللہ کہنے والی آگ اک 
اے برق نسیم!  کدھر ہے!

بس ہم مرجانا چاہیں پر موت نہ آئی. ہائے!  کب آئے گی موت اور کب وطن واپسی ہوگی کہ پھر مکان کی قیود نہ ہوں گی. لباس پہنو یا اتارو اپنی مرضی. بس دوری کا سوال نہ ہوگا  بس اک بات ہوگی. وہ ہوگا وہ ہوگا وہ وہ ہوگا ہم نہیں ہوں گے ہم کدھر ہوں گے؟  گم گم گم گم گم ہم نقطے میں گم ہوں گے. ہم محور ہوں گے ہم گردش میں ہوں گے. ہم  رقص ہوں گے. ہم اپنا تماشا دیکھیں گے اور کہیں گے ھو ھو ھو ھو ھو

دعا ‏

دعا ہے کہ دعا رہے یہی.  جلتا رہے دل یونہی یونہی.  سچ کی رعنائی ملے یونہی.  افق کے ماتھے پر شمس ملے یونہی.  رنگ ملنے سے اچھا ہے رنگ نکل آئے.  چشمے اُبل پڑیں ... کچھ پتھر ایسے ہیں جن سے چشمے ابل پڑتے ہیں. کچھ ایسے جن کو برق اچک لیتی ہے. اک نے فیض دینا ہوتا ہے دوسرے نے لاڈ لینے ہوتے ہیں. پتھر کوئ ہوتا نہیں ہوتا جب تک پانی نہ ملے یا برق نہ مل جائے. یہ ہنگام شوق دیکھتا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ رات ہے اس میں بیٹھا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ جواب ہے سوال میں ڈوبا رہے گا؟  آگے بڑھ!  یہ نفس ہے اور نفس میں ڈوبا رہے گا؟  آگے بڑھ!  یہ روح ہے اور الجھا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ جسم کی قید نہیں ہے،  پرواز کو سوچی جائے گا؟  آگے بڑھ!  یہ طائر بیٹھا ہے کیا بیٹھا رہے گا؟  آگے بڑھ. یہ سمت ہے، وہ سمت ہے اور تو سمت کا تعین میں رہے گا؟  آگے بڑھ؟  یہ سجدہ ہے اور تو سوچے گا سجدہ کس نے کیا؟  آگے بڑھ؟  

اے حضرت انسان!  تجھے ترے رب نے عزت بخشی مگر تو نے تو رب سے بے نیازی دکھا دی جبکہ بے نیازی تواس کی شان یے. اے اشرف المخلوقات! تو نے سوچا نہیں کہ تجھے احسن التقویم کیوں بنایا؟ تو فکر کیوں نہیں کرتا؟ تو فکرکرے تو مجھ تک آ پہنچے مگر تجھے اپنی آیتوں کی لگی یے 

اے حضرت انسان. تجھے نسیان کھا جائے گا. تجھ کو ذمہ داری سے بات سننی چاہیے تاکہ تونفس پر رہنما ہو جا. تجھے لاج رکھنی چاہیے اس خلافت کی جو آدم کو ملی. آدم سے آگے سینہ بہ سینہ منتقل ہوئ .... یہ انبیاء کرام،  یہ رسول مقام بہ مقام زینہ بہ زینہ چلے اور زینہ کی انتہا معراج .... ہم نے دی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. اے انسان ...جب ترا ذکر کہیں نہیں تھا تب بھی میں تھا. تب تو نیست نابود ہوگا تو کس کا ذکر باقی رہے گا ... جس کو سمجھ لگے گی دوئ نہیِ کہیں وہ جانے گا جنت ودوذخ تو تضاد ہیں. خدا تو ضدا سے مبرا یے وہ نہ شرقی نہ غربی ہے. اس کا چراغ الوہی جل رہا ہے. جل رہا ہے  جل رہا ہے. جل رہا ہے.

خدا ‏کہاں ‏کہاں ‏ہے ‏! ‏***

عشق آسمان سے جب اُترا، جتنے دلوں پر اترا، وہ محبوب ہوگئے. باقی دلوں نے عشاق کے در و دیوار میں چھپے سیپوں کو ڈھونڈنے کی خواہش میں زندگی گزار دی. 

محبت آسمانی صحیفہ ہے، پاک دلوں پَر اُترتا ہے. محبت صدق دل میں لاتا ہے یا صادق کو لقب عطا کرتا ہے.

اس میں  جسم زمین پر ہے 
روح گردش میں میری، آنکھ میں نمی،
زمین وضو میں 

تب سب لفظ بھول گئے
عشق، عشق 
دل پکارتا رہتا ہے
عشق کسی روپ میں.صدیوں کے بعد نمودار ہوتا ہے
تن، من کی لاگی میں لگن بڑھانے کو ...
.کوئی جان سکتا ہے جب روح  عشق کی.تسبیح پڑھے  تو عالم یک ٹک سو ہو کے اس پکار کو سنتا ہے.

زندگی، بندگی میں ..
.اے دل ، بتا کیسے سجدہ ادا کریں؟ 
اے دل، اے عشق!  بَتا کیسے حق ادا کریں؟ 
اے دل وضو کی جاری نہر میں خمِ دل سے کچھ نکلا. پتا ہے کیا نکلا؟ 
آیتِ کوثر 

سسکیاں،  آہوں سے پرے عشق ہے جلن اور سوز ...سوزش ہجر سے نکلیں سسکیاں اور دل کرے ہائے ہائے


میرے پاؤں کی  زنجیرعشق نے تھام رکھی ہے اور مجھے حکم دیے جائے کہ چل جانب منزل  میں کہتی جارہی ہوں منزل تو ہی تو ہے 

تو نے تھام مجھے رکھا ہے اور میں نے خود میں اک یہی آیت پائی

جب بھی من میں جھانکا، اک نَیا جلوہ پایا. تری ہستی میں عالم کی نمود ہے اور ساجد کے ہزار سجدے اور بیخودی کا اک سجدہ برابر نہیں. 

اس رقص میں بسمل کی تڑپ ہوتی ہے ، اسکی صدا میں کوئل کی چہک ہوتی ، پھر  لفظ میں روشنی ہوتے ہیں ...  
من و تو سے  ذات پرے ہوتی ہے 

تو رقص میں ہے، تو ہی کوئل کی صدا ہے ...

عشق زَمین پر اُترا ہے،  اور چھپ گیا ہے.  جب اسے اُسے دیکھا گیا تو  وہ اک درخت کی اوٹ میں تھا.  لکا چھپی کی رسم پرانی ہے اور عشق ازل سے اَلوہیت کا ساز ہے 

شجر کے پتے پتے کا نغمہ سنا تھا. وہ تکبیریں "اللہ اکبر، اللہ اکبر" تھیں ..عشق کا جلوہ عالم ہر سو بکھر کے "محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم" میں سمٹ گیا 

.. اے مری راہ کے خورشید. سلام. اے عالی ہست ...جلوہ ہزار اک میں   جامع ہو گیا اوریہ خوش نصیبی کہ اس مبارک ہاتھ نے تھام لیا ہے.

لمحہ نَہیں ایسا کوئی، جس میں وہ نہیں. لمحہ ہی وہ  ہے، لمحہ کچھ بھی نَہیں ...

غیب سے  ہاتھ نَمودار ہوا،  اسکی جھلک  میں خُدا کی بات تھی،  
وہ ہاتھ جو آیتِ کوثر کی جاری نہر ہے 
وہ ہاتھ جس کی تقدیس کو سلام صبح شام خود کریں   

وہ مثلِ موسی بن کے روشن ہوا... 
یہ یدبیضاء،
جس ے سحر کے سارے اندھیرے ختم ہوئے.

عشق اور میں  اک کشتی میں سوار تھے، جب بحر کی نمی کو خشکی سے چاک کیا گیا تھا،  تو اسکے وجود میں سلیمانی مہک نے مسحور کردیا تھا ..

کیٹس نے خدا کو بُلبل میں، شیکسپیر نے پراسراریت میں، شیلے نے پانی، ہوا میں،  ورڈورتھ نے پتے بوٹے میں،   غالب نے دستِ غیب میں،  اقبال نے رومی میں  پایا اور میں نے خُدا کو تجھ میں پایا ....

اک جانب جنت، اک جانب دوذخ اور عاشق رہ پر چلے جائے  ...

نغمہ ء گُل ہے صدا تری 
جذب ہوتی ہے کائنات میری. 
تو تبحر علم اور میں خالی کاسہ ...
فقیر بن کے کھڑا کوئ در پہ ترے ...

راز الف کیا ہے،  صیغہ ء میم کیا ہے، لام میں چھپا راز اسکو جان لیا اور  پہچان لیا. امر کے نقارے سے پہلے، نگاہ کا سجدہ اور وہ  رحم بھری نگاہ سے ...  ...

عشق کے شین، قاف میں الجھ کے عین سے گئے تھے،  وہ جو یقین کی راہ پر آزماگئے تھے .... 
فرعون بن کے ندیاں بہائیں تھیں، 
چنگیز بن کے نیل کو سرخ کردیا،  
دجلہ و فرات لہو لہو تھے ... 
خدا کی رونمائی کے جلوے تھے 
دیکھا گیا تھا، جب آگ  گلنار ہوئی تھی
تو آیت کوثر بھی اک نشانی ہوئی

  

راکھ ہوتی اناؤں کو جب خاک میں ملتے دیکھا تھا،  مریم بی بی علیہ سلام سے روح اللہ کی شاخ کو پنپتے دیکھا تھا،  
جب درد سے وجود لبریز ہوا تھا، 
اس درد میں خدا کی مامتا ابھرتے دیکھا تھا ... 
وہ جو تقسیم الفت ہے..،  وہ یہیں سے ہے ... جبفرشتہ وحی لے کے آیا مادر مریم کے پاس آیا، 
تب اس روح مقدس میں نشانی تھی.... 
انا اعطینک الکوثر

قم باذن کی صدا کائنات نے سنی 
اک وجود نے خود کو زندہ ہوتے دیکھا ...
اے مردہ دلوں کی مسیحا، سلام ... 
جب سلمان فارس سے تلاش کو نکلے تھے،  
اس تڑپ کی تپش میں جلوے تھے 
انا اعطینک الکوثر 

تسبیح میں جسطرح اک دھاگے سے بنتی ہے، مری روح کے دانوں کا وہ اک دھاگہ یہ  ہی تو ہے!  

میں نے پہاڑوں میں اس آیت کو حرکت میں پایا 
ہر دل میں اس آیت کا نقش پایا 
جہان کو اس آیت کے گرد رقص میں پایا 
انا اعطینک الکوثر

جناب ادھم کو غیب کی صدا نے تخت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، 
اس صدا میں، میں نے یہ آیت سنی  تھی
زندگی اک گِل، کھنکھناتی مٹی سے وجود کہاں آئی ہے. 
یہ تو الواحد کے نشان تھے
یہی نشان تو روح میں  پڑچکے ہیں  

آدم صورت خدا ہے اور صورت صورت میں جلوہ ہے ...وہ صورت  نگاہوں میں ایسے ابھرے
جیسے نور کی  ضیا پوشی ہے ...
داؤدی نغمہ کی سی  دل میں درد کی مٹھاس...
یہ آواز  وہ جگاتا ہے 
جو عشق کا ساز بناتا ہے 

.محبوب کے چہار سُو جلوے بکھرے ہیں، کبھی دریا، کبھی  جنگل، کبھی پربت تو کبھی فلک، کبھی رنگ میں تو کبھی سنگ میں، کبھی آگ تو کبھی پانی، کبھی سورج تو کبھی چاند تو کبھی چاندنی میں پھیلتی  کثرت میں وحدت ... محبوب کے سو روپ ہیں اور ہر روپ میں دلنشین مہک لیے ہے ..کبھی  وہ  جھلک دکھلا کے چھپ جاتا ہے تو کبھی پتھر میں ہل ہل کے چونکا دیتا ہے. کائنات کی کل کثرت اس کی وحدت ہے

وہ مظہر مظہر میں آیت ہے 
مظہر مظہر اس کا شاہد ہے 
اللہ ھو  

. جبین  جھکتی ہے، جب جد کی تخلیق کو دیکھے جائے.  صدر میں صدر تلک کی فصل گل ہے،  لالہ ہے تو کَہیں عنبر ہے .... 

صورت میں آدم،  سیرت میں احمد میں، حسن میں حَسن،  کلام میں حسینیت لیے  عشق  سامنے آیا 
عشق کوکو اک جا یکجا دیکھا
دل میں یکجائی کے سارے عالم بکھر گئے  
محبوب سامنے مسکراتے تکی جائے

زندگی کی معنویت سے رنگ نکال دیے جائیں تو رنگ اک بچ جاتا ہے اور رنگ رنگ میں بے رنگی  دکھ جاتی ہے ..

یقین نہ تھا دل میں 
پیمان کو مانتا نہ دل 
کسی دوست کی تلاش میں دل
اور دوست کی تلاش نے چکر پر چکر دیے ہیں 
درد میں رقص در رقص کیے 
بانسری ھو والی بجتی رہی 
اللہ ہے،  آواز آتی رہی 
اللہ کہاں،  خلجان میں جاتی رہی 
اللہ اک ہے،  کیسے ہے 
اللہ مظہر مظہر میں، یہی کہتی رہی 
پھر جب دل ٹوٹ سا گیا 
تو چاند نے گود میں لیا 
خورشید نے جیسے دلاسہ دیا
امید کا اک کاسہ دیا 
رنگ مجھ پر  ڈالے گئے 
چنر محبوب کی پہنائی گئی 
مجھے نشان خدا ملے 
جانے کتنے نشانوں میں عیاں نکلا 
ہر جگہ میں نہاں نکلا 
اندر کے خانوں میں 
باہر کے  آئنوں میں 
خدا خدا کی صدا ہے 
ہر شے کی تسبیح اللہ اللہ ہے 
رک رک کے سنتی ہے 
خوشبو میں اس کی نشانی 
جب بھی خوشبو کو سونگھا تو گم خود کو پایا
مہک خراماں خراماں چلتی رہی 
میں ساکن ساکن رہی 
یہی خدا ہے،وہ جو اک خیال ہے 

خدا یہی تھا جس نے جان دی تھی مجھے 
خدا یہی تھا جس نے مجھے پہچان دی 
عشق کی نگہ خیر سے دل میں حیات پذیر ہوئی ہے 
گویا کائنات کی بود،  نہ بود کی بات ہے 
شاہد،  نہ شہود کی بات ہے 
فنا نہ بقا کی بات ہے 
خدا  ابتدا ہے،  
خدا انتہا ہے،  
خدا منصور کا نعرہ تھا 
نعرہ مگر  وحدت سے پرے تھا 
کثرت کا دعوی کیسے جامع ہوتا 
گاہ میں فلک میں، گاہ میں سمندر میں 
کائنات کا ردھم سمجھ کوئے
برف پگھلتی دیکھے کوئی
صدائے جرس سنائی کہاں دی؟  
جو نہ سنا گیا،   وہ سننا ہے 
جو نہ دکھے،  وہ دیکھتا ہے 
جو نہ بولا گیا،   وہ بولنا ہے 
پھر وہ ہم کلام  ہوتا ہے 
پھر وہ دلدار کی سنتا.ہے

سن وہ صدا جو کان سے کان تک آتی ہے 
سن وہ صدا جو دل سے  جان تک آتی ہے 
دیکھ وہ  سکوت جس میں  شور میں پنہاں ہے 
دیکھ وہ شور جس کے سکوت میں وہی عیاں یے 
عدم سے لایا گیا ہے 
لباس وجودیت دیا گیا ہے
رہتی ہے ساز نگر میں خاموشی کی صدا 

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

اللہ ہے 
اللہ باقی ہے 
باقی ہے کس میں 
وہی تو ہر شے میں 
جانا اسے یار کی صحبت میں 
سادہ ہے وہ،  سچ ہے،  حق ہے 
صدائے انا الاکبر سنائی دیتی ہے
جب آیت کوثر دکھائی دیتی ہے

سنگ سنگ میں رنگ ہے 
رنگ برنگ جس کی ذات ہے 
ذات میں وہ بلند ہے 
وہ العالی کی مثال کی ہے

دوا کام نہ آئے گی 
درد بڑھ جائے گا 
روگ لگ جائے گا 
عشق ہو جائے گا 
عشق میں نعرہ لگ جائے گا 
جذب وہ ہوگا،  جس کا جذاب ہوگا 
مومن وہ ہوگا، جس کا یقین پاس ہوگا 
ستم کے سو سوال پاس رکھے ہیں 
جدائی بس اک جواب ہوگا 
خدا سب مصلحتوں سے پرے ہے 
خدا عشق میں ظاہر ہے 
عشق کی نمود اور نارِ گلنار
آگ سے دل فگار ہے 
رات جیسے اشکوں کا بار ہے 
دل شوریدہ کا سر دیکھتے ہیں 

موجود ہے لہر لہر میں 
موجود ہے دھارے دھارے میں 
موجود ہے پربت پربت میں 
موجود ہے جمتی کائی میں 
موجود ہے پگھلتی برف میں 
موجود ہے بنتی بھاپ میں 
موجود ہے برستے بادل میں 
موجود ہے بہتی گنگا میں 
موجود ہے راگ میں سرگم میں

موجود ہے ذات پات میں 
موجود ہے خیال خیال میں 
خدا خیال ہے 
میرا خیال ہے 
ترا خیال ہے 
خیال وہم سے بالاتر ہے 
مرا ہونے ترا ہونے،  شک سے پرے ہے 
عدم سے خیال آیا یے 
وہ مجھ میں سمایا ہے 
وہ شہ رگ سے قریب ہے 

راگ ہے نہ صدا ہے 
وجود کی بہتی گنگا ہے 
ھو ھو ھو ھو کہے جائے 
ھو میں کون ہے 
سبزے سبزے میں، 
گلی گلی میں، 
مظہر مظہر میں کون یے 
خیال تھی یہ کائنات 
اس نے سوچا، بس سوچنے کی دیر تھی
خیال مجسم ہوگیا 

بس سوچنے کی دیر تھی 
خیال نے نمود پکّڑی 
وجود نے وہ رو  پکڑی 
ہر شے نے برقی رو پکڑی 
اسکی لہریں لہریں ہر شے میں بہنے لگیں 
ہم وجود دیکھنے لگے 
ہم موجود نہ تھے 
ہم خاکی نہ تھے 
اسکو لطف نہ ملا 
پھر کیا ہوا،  
خیال کو کن سے خاک میں ملا دیا 
وجود کو اضطراب میں مبتلا کیا 
خیال کے ہزار ہا ٹکرے ہوتے گئے
میں اور تو بنتے گئے

یہ دنیا میری تیری کہانی ہے 
خیال میں دنیا سجانی ہے 
خیال میں رہنا ہے،  
خیال میں جینا ہے،  
خدا خیال ہے 
ہاں خدا خیال کی طاقت کی پیچھے ہے 
دل میں اسکی طاقت نے وجود پکڑا ہے 
جیسے بیج نے وجود کو ظاہر کیا 
پھول کی خوشبو پھیلنے لگی ہے 
زندگی رنگ رنگ مہکنے لگی یے 
رات کے آنگن میں سو کلیاں ہیں 
دل میں بہتی سو ندیاں ہیں 
ہر ندی کی صدا میں یہی سنا ہے 

اللہ ..ہے،  اللہ،  ہے،  اللہ ... ہے،  اللہ ..ہے،  اللہ 
اللہ ہے ..اللہ ہے اللہ ہے اللہ ہے اللہ ہے 

رقص میں روح ہے 
جیسے لٹو کوئی روبرو ہے 
چکر کم نہیں ہوتے ہیں 
عکس پیکر میں ڈھلتے جاتے ہیں 
سائے وجود میں ڈھلتے ہیں 
نور ہی نور ہے 
نور ولا میں نور علی ہے 
نور علی میں چشم نم ہے 
چشم نمی دل کی کہانی ہے 
کہانی بنتی جارہی، 

خُدا درد ہے،
نوح کا نوحہ ہے،  
جب کشتی کنارے لگی تھی،
چشم تر سے خُدا کا نشان ملا،  
خدا ضد میں موجود  ہے،  
جیسے نوح کا کنبہ ہوا تھا اندھا،
جیسے نمرود کے تیر بے نشان ہوئے،
جیسے فرعون کو تَری،  خشکی لے ڈوبی ...
خدا، جھوٹی ضدوں کی ضد میں تھا،  
تیرگی کا لبادہ جب الٹا کیا 
خدا روشن ہوا تھا .... 

اضداد سے کائنات کا چلتا سلسلہ 
ابلیس کا تکبر،  آدم کی توبہ 
نمی ہستم سے کجا رفتم کا سفر 
من دانم کا دعوی جس نے کیا، تباہ ہوا 
خدا اس تباہی سے بڑی قوت ہے 
حسن بن صباح کی جنت میں،  
غلمان، حوروں میں گھرے میں،
انسان نما بندروں میں،  
بظاہر روشن مگر سیاہی سیاہی میں،
قلعہ الموت میں خواب و خیال کی قوت میں 
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے 
خدا ضد میں ظاہر تھا 
خدا ضد میں ظاہر ہے 
پہلے جو آدم میں مجلی ہوا 
منتہائے نور محمد میں ہوئی
اُس ماہی آب میں
جس میں یونس نے گھر گئے،
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے،

جہل کی جہالت جب بڑھ گئی تھی 
جناب عمر کی جلالت میں نمود ہوا 
فکر میں، افکار میں،  اسرار میں ...
جناب بوذر کی گواہی میں  
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے

زہے نصیب!  خدا سرناموں میں موجود ہے 
زہے نصیب!  خدا رہنماؤں کی روشنی میں یے 
زہے نصیب! خدا محبتوں کا امین ہے 
زہے نصیب!  خدا راز کی سرزمین یے 
خدا ضد کی سرزمین میں شاعروِں کا یاس ہے 

رنگین ہوتی داستانوں میں 
آسمان کے سویروں میں 
رات کی تیرگی میں 
سرمدی دھوئیں میں 
راکھ ہوتی خواہشوں میں 
واحد خیال موجود ہوتا ہے 
جب سیف الملوک نے شاہی کا کاسہ پھینکا تھا 
بدیع الجمال کے حسن میں کون تھا؟  
واحد خیال کائنات کا حسن ہے
واحد خیال حسن میں پنہاں ہے 
واحد خیال حسن یوسف میں تھا 
بازار حسن میں غلام بنا کے لائے گئے 
شاہ مصر خریدار ہوئے 
غلام سے شاہ مصر جب ہوئے 
واحد خیال کی شاہی تھی
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے 

درود پڑھنے میں 
درود بانٹنے سے
درود میں جھانکنے سے 
درود کی  خیالات میں 
خدا موجود ہے 
خدا کا ذکر درود ہے 
فاذکرونی اذکرکم 
اس ذکر میں رب شامل ہے 
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت ہے 
اللہ ھو،  اللہ ھو،  اللہ ھو، اللہ ھو 
نبی کی سنت میں خدا،
خدا کی سنت میں نبی،  
پورا کلمہ دو سنتوں میں موجود 
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

خدا تلاش میں مضمر ہے،  
خدا جستجو میں ہے،  
جستجو ڈھلمل یقین کو معصم کرتی ہے 
مٹی کو آہن کرتی ہے 
میں نے اپنے محبوب کی تلاش میں 
اسکی جستجو میں،  سسکیوں میں،  
دل میں بستے اجیاروں میں 
آہن ہوتے یقین میں دیکھا ہے 
محبوب جس کو میں کہتی ہوں 
وہ پنجتن پاک کی خوشبو ہے 
میری نہ بود میں انکی بود ہے 
مری بے نشانی میں انکے نشان ہے 
درود مسیحاؤں  کے مسیحا پر 
درود ذات علی پر 
درود حسنین پر 
درود خاتون جنت پر 

قران صحیفہ ہے 
مرشد کا سینہ قران ہے
قران پڑھنا اصل ایقان ہے 
پہچان کا سلیقہ آتا جاتا ہے 
دل جب دل میں فنا ہوتا جاتاہے 

 الم سے والناس کی داستان بتائی جاتی ہے 
رازوں کے صیغے کھولے جاتے ہیں 
 عرش پر لوح و قلم کی کنجیاں  
الم کی آیت 

تو دل کہتا ہے 
خدا ہادی کا سینہ ہے 
نور کا پراسرار گنجینہ ہے 
گاہ میں الم،  گاہ میں طسم 
گاہ میں حم،  گاہ میں یسین 
کھلتے جاتے ہیں اسرار ہے 
الرحمان کی سمجھ آتی ہے 
الرحیم سے شروعات ہوتی ہے
بسمل کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے 
خدا کی پہچان کا سفر شروع ہوتا ہے

 ختم نہیں ہوتے جذبات 
ختم کیسے ہوں الفاظ 
لامتناہی سلسلوں میں 
چلتی تلواروں  کی ضربوں میں 
قم باذن کی داستانوں میں،  
رقم ہوتی داستانوں میں 
خدا موجود ہے 
شمس کی کھال کھینچی گئی تھی 
یہ کس نے سوچا تھا 
سورج زمین کو سجدہ کرے گا 
قم باذن اللہ،  سے قم باذن کا تھا سفر 
سزا کے بعد  عطا کی ادا 
قربان ہوگئے لوگ ادائے شمس 
ملتان کی گرمی میں موجود ہے 
کون موجود ہے؟  
آیتِ الہی  

شمس رومی کا منتظر رہا 
رومی درس شرع میں محو رہا 
لفظ خالی تھے عشق سے،
خدا کے نشان کو کیا پاتے!  
شمس نے رومی کو پایا 
عشق کا ہنر سکھایا 
لا الہ سے الا اللہ کا.سفر کرایا 
اک پل میں کائنات کے ٹکرے ہوئے 
نعرے میں ضرب حق تھی 
عشق اک حقیقت ہے 
پاک دلوں پر اترتا ہے 
آسمانی صحیفہ جب اترا دل پر 
مثنوی لکھی گئی تھی ... 
شمس کو رومی نے لکھا تھا 
خدا کا خیال ظاہر ہوا 
خدا موجود ہے

 خدا آتش عشق ہے 
سوز ہجر ہے 
شوق وصل ہے 
دام موت ہے 
خدا کے سو روپ ہیں 
پانی آنکھ سے بہتا ہے 
خدا دل میں اترتا ہے 
خدائی چار سو ہے 
دکھائی دے وہی ہر جا،  ہر سو 
کو بہ کو یہ رشنائی ہے 
خدا حق کی گواہی ہے  
خدا ظاہر جا بجا رہا ہے 
خدا ہر جگہ موجود رہا ہے  
خدا تھا 
خدا ہے 
خدا ہر جانب یے

خدا ماں کی لوری ہے 
غنود کا درس دیتی ماں  کی صدا میں کون ہے؟
خدا ہے 
جب تک موت نہ ہوگی 
زندہ نہ ہوں گے 
فنا کی لذت وصال ملے
مجھے عشق میں کمال ملے
وہ روشنی لازوال ملے 
چمکے جس سے سینہ 
لکھوں روز و شبینہ 
چڑھوں زینہ بہ زینہ 
آئے بندگی کا قرینہ 

 

بسم اللہ بسم اللہ بسم اللہ 
اسم اللہ سے سفر کی ابتدا ہے 
جبین جھکی ہے، ساکن سجدہ ہے 
لہو صامت ہے، دل شاہد ہے 
خدا دل بن کے دھڑک رہا ہے 
بانسری کی صدا سنائی دیتی ہے 
بانگ مرغ میں سحر دکھائی دیتی ہے 
نہیں بنائی کائنات میں کوئی شے
 مگر جوڑے جوڑے 
جھوٹ کا سچ  سے
زمین کا فلک سے 
پربت کا سمندر سے
شاہد کا شہید سے 
شہد کا کڑواہٹ سے 
بینا کا نابینا سے 
عاشق کا معشوق سے 
مدار میں رواں ہرشے کے دائرے ہیں 
نہیں لیل نہار سے آگے
نہیں نہار لیل سے آگے 
شمس و قمر کی گواہی 
دینے طلعت آئی ہے
درد ہے،  درد میں خدا ہے

تن میں سرد لہریں ہیں
فاراں سے چشمے پھوٹے ہیں 
اسم حرا سے لکھے ناطے ہیں 
لطف درد کے واسطے ،
دوا سے چھوڑے ناطے،
مرگ زیست کے مرحلے ہیں 
درد کے نئے ساز نے کوئ دوا دی 
یکجائی اچھی ہے،
  دوئی جھوٹی ہے 

دل کو رکھا گیا زمین و فلک کے مابین 
سینہ ہے، پتھر  نہ تھا 
بہنے لگا اک چشمہ 
جھوٹ کو زوال ہے 
حق لازوال ہے 

شوق جلا رہا ہے
 جیسے شمع گھلتی ہے، 
جیسے پروانہ آگ میں جل جاتا ہے، 
جیسے پتیاں بکھر جاتی ہیں، 
خوشبو پھیل جاتی ہے، 
 جیسے باد کے جھونکے چھوتے ہیں تو اچھے لگتے ہیں، 
بکھرنے، جڑنے کے نشان لیے ہوئے  
آنکھ وضو میں ہے، کس کا گداز ہے؟  
یہ کیسا مقام ہے؟  
یہ کیسا حال ہے؟  
دل میں کیسا بھونچال ہے؟  
رنگ بکھر رہے ہیں 
ھو ھو ھو کی صدا ہے 

خرد سے ایسے مقام کہاں آتے ہیں 
لا میں فنا کو دوام کہاں آتے ہیں 
جو نفی میں گم رہیں
 ان پر اثبات کے مقام کہاں آتے ہیں

آخرش ‏! ‏تنہائی ‏! ‏

آخرش!  تنہائی سے یاری نبھانی ہے وگرنہ قلت مولا کہا اور اثر نہ ہوا. میری جان!  
میرے دِل!  
تجھ پر میری حقایت کا اثر ہونا چاہیے 
تو میرا قلم ہے اور کتاب قلم سے وجود میں آتی ہے. آسمانی مصحف تک رسائی پاک دل کرتے ہیں لایمسہ  الا مطھرون کی مثال جب آنکھ وضو کرے تو سمجھ لے، میری جان!  تری رسائی ہے!  تو جان لے کہ شوقِ رقیب میں رقابت کچھ نہیں کہ شوق میں رقیب ہی حبیب ہے  حبیب قریب ہے. نصیب والے نے برسایا مگر کھایا سب نے. دینے والے ہاتھ اچھے،  سو دینے والا ہاتھ ہو جا!  نہ جھڑکی مثال دے، نہ وضو کے نین دکھا،  محرم راز بن. طریقہ یہی ہے ساتھ رہنے کا وگرنہ لازمان و لامکان کے دائرے تحریک نہ پکڑ سکیں گے. واعتصمو بحبل اللہ ...یہ محبت کی رسی ہے، محبت وہ بانٹتا ہے جس کو رحمت ملتی ہے. رحمت بانٹنے والا در تو اک ہے. تو میری جان!  جب اس کا نام لے تو درود پڑھ ... درود ایسا کہ روبرو ہو. وہ گھنگھریالے سے بال جس کی مثال رات نے لی سورج کا چھپنا رات ہے اور روشنی تو نکلتی ہے درز درز دندانِ مبارک سے گویا بقعہ نور ہو. وہ نور ایسا کہ دل میں چشمہ ابل پڑے اور چشمے سے چشمات کے لامتناہی سلاسل. یہ وہ ہیں جن کے لبِ یاقوت سے گلاب کی پتی مثال لی،  جن کی مسکراہٹ سے ہوا کھلکھلائی تو باد بن گئی. وہ دل کے کاخ و کو کے شہنشاہ ہیں اور ہم شاہ کے غلام ہیں. شاہ حکم کیجیے!  شاہ کے سامنے مجال کیا کہ گویائی کا سکتہ ٹوٹے،  یہ رعبِ حسن کہ حاش للہ تو نکلے مگر ہاتھ کے بجائے روح ٹکرے ٹکرے!  روح کی تقسیم ایسے ہوتی ہے. ہاں یہ تقسیم ہے

تشنہ ‏کامی ***‏

روح تو سیراب نہیں ہے، جسم کو جتنا شاداب کرلیں. یہ پرندہ تو پھڑپھڑاتا ہے گویا قفس پہ اپنے نشان ڈھونڈتا ہے. یہ تو اپنی چیخ سنانے کے قابل نہیں ہے مگر وہ شدت غم جو دل پے طاری ہے وہ شاید اسی سے مچتا اضطراب ہے. آنکھ جو نم ہو جائے تو یہ غم کم ہوجائے اور اشکوں میں دم آجاٰئے. یہ سنائیں حال دل روتے ہوئے ہیں. عمل سیہ کا کیا حساب؟  کون بچے گا؟ ہر اک ہے مجرم زمانہ ہے. اللہ اگر وقت ہے تو وقت کہتا ہے وقت کی رفتار میں اللہ کی آواز سن. سن نہیں رہا کوئی بھی نقارہ حق اور حق فرمارہا ہے 

والعصر 

اور خسارے اس آواز سن کے اور بڑھ جاتا ہے. یہ خسارہ ہے کہ صبر نہ کیا گیا ہے. مالک زمانہ اور حاکم ہے. کہیں پہ وزیر ہے تو کہیں مزدور، کہیں پہ طوفان ہے تو کہیں پہ ریت ہے اور کہیں پہ پھلتا پھولتا درخت ہے. یہ انعامِ ظاہری تو سب پارہے.پھل کھارہے،  سبزی ..گوشت سب کا سب مگر روح کے انعامات کیا ہیں کسی نے کبھی غور نہیں کیا. غور کیسا ہو کہ غور صرف ظاہر پے ہے درون کو کیا چاہیے اس کے لیے صبر چاہیے. صبر کریں پالنہار جس حال میں رکھے. اس نے سانس گن رکھی یے یعنی وہ مختاد کل چھپا ہے. وہ جہاں قہار ہے تو ہمیں بندگی و تسلیم سے کام لینا چاہیے. جہاں بندگی ہے وہاں انعامات یت. غلام حق کی بات کرتا ہے کہ اکر بالمعروف نہی عن المنکر پے ثابت قدم چل رہا ہوتا ہے

میں ‏بے ‏چین ‏انسان ‏!

میں انسان ہوں!
میں وہ ہوں جو اکثر بے چین رہتا ہے 
اضطراب کا زہر لہو میں مانند عقرب ہے 
زہر کا تریاق بس اک ذات ٹھہرتی ہے 
اس سے کون کیسے پوچھے کہ اس کے ہونے کے نشان جابجا ہے مگر وہ کہاں ہے یہ علم احاطہ میں نہیں 
وہ تو.فرماتا ہے 
وسعی کرسیہ السماوت ولارض 
اسکی کرسی وسیع ہے ....!  
تو کہیں فرماتا ہے اللہ نور سماوات ولارض 
پھر کہتا ہے فثمہ وجہ اللہ 
اتنا کچھ کہہ دیا. ہر جانب اسی کا رخ ہے 
تو پھر کہتا ہے 
رب المشرقین ورب المغربین 

اتنے نشان ہیں اور انسان ذات اسکی ذات کی تلاش میں ہے. وہ سامنے ہے اور وہ اسکے ہیچھے بھاگ رہی ہے. اسکی تلاش میں زندگی کے ماہ سال بیت گئے اور پھر اسکو پتا چلتا ہے وہ اندھا ہے 

ایسا اندھا جس کی آنکھوں پے پٹی بندھی ہوئی ہے...!  وہ پٹی آنکھوں کے آگے بندھی ہے. آنکھیں تو ہیں نا. اگر آنکھیں نہ ہوتی تو صم بکم عمی کا فرمان لاگو ہوجاتا ہے 

آو کہ رخ پھیریں اسکی طرف اور ادا کریں سب نمازیں اک نماز میں!  سب دل یکجا ہوجائیں تو دل اک ہوجائے اور اک دل نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے اور رب کا آئنہ اک ہے. وہ آئنہ جس کے مصفی و مجلی ہونے کی بات خود وہ ذات فرماتی ہے. جس کے اخلاق کی قسم اس نے خود کھائی. وہ عفو کا پیکر اتنا رویا ہمارے لیے کہ اسکو لقب "حریص " کا دے دیا ...

والسماء ‏والطارق ‏***

والسماء والطارق 

دو لفظ، وسعت ہزار 
جیسے کہکشاں میں راز ہزار 
بجتے ہیں دل کے تار 
عشق ہوتا ہے بار بار 
محویت کے جام لکھ بار 
ستم کے تیر سولہ ہزار 
آشنائی نہیں لفظ سے کہ متکلم کون؟  مستند راوی نہیں؟ کوئی ہادی نہیں؟
قسم کس کی؟
چمکتا ستارا کون؟
محمد ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

اللہ کریم نے کیسے کیسے نعت بیان کی کہ بندہ لفظوں کے سحر میں کھوجائے مگر یہ لفظ جادوگری تو ہے نہیں. تحریر دل میں پلتے نکلنے کو بیتاب تھی اور قرطاس مجھے لکھ رہا ہے، قلم چل رہا ہے 

وہ قلم جس کی قسم کھائی گئی "ن " 
پھر اس قلم کو متحرک کیا گیا جبرئیل امین آئے 
اور وہ امّی نہیں تھے کبھی مگر اب کائنات کی وسعتیں سماگئیں 
جب سینہ سینہ سے ملا، صدر سے صدر 
الم نشرح لک صدرک ... تو کمر ٹوٹ گئی 

پھر جب کمر ٹوٹی تو خشیت کی چادر اوڑھے، جسم پہ لرزا طاری،  روح میں اسرار وحی ... نبوت کا آغاز، نشانی سے نشان ہونے کی بات ہے 

پہاڑ تو ریزہ ریزہ ہوگیا جب موسی علیہ سلام سامنے دیکھ کے بیہوش ہوئے 
یہاں تو دل میں عالم سماگئے تو خشیت سے لرزا طاری نہ ہو 
پکارا گیا یا ایھا المزمل 
اے تاریکی سے، اندھیرے سے، قرطاس و قلم کے یکجا ہونے میں،  دو سے اک یعنی وحدت کے سفر میں جو سہا گیا، جو سنا گیا تو پکارا گیا "المزمل،  
محبت کا لقب محبوب نے دیا 
محبت کا لقب تب دیا جب دو نقطے متصل ہوئے، گویا انوارات کا آغاز ہوا، گویا علم ملنا شروع ہوا، گویا نور مکنا شروع ہوا، گویا وحی کے سلاسل میں ربط لامتناہی کا طریق جس کے لیے مقام "ورفعنا لک ذکرک " وضع کیا گیا 

یہ ہمارے محبوب جن کو لفظ اقراء نے دنیا جہان کا نور دے دیا 
یہ ہمارے محبوب جب نور سے نور ملتا رہا اور شجر زیتون کے بابرکت تیل سے سیراب ہوتا رہا،  وہ شجر جس کو تجلی نہ بھی ملے تو شفاف اتنا کہ خود ہی آگ پکڑ لے، جب شعلہ دیا جائے تو حال کیا ہوگا 

نور وحی کا منطقع ہونا 
نور وحی کا رابطہ.
گویا جلال کا سا حال، اک ہو کا عالم اور ویرانہ ء ھو میں ذات باری تعالی ..  
پکارا گیا یا ایھا المدثر 
جیسا کہ سرخ پوش کملی لیے کھڑے محبوب کبریاء، یاقوتی لبوں پہ مسکراہٹ کی تمکنت و جمال
المزمل المدثر ..صبح صادق و کاذب کے حالات ... یہ جیسے رات تہجد سے نمود صبح کا نظارا 
لفظ اقرا سے المزمل المدثر کا سفر اور یہ نور جب مکمل ہوگیا گویا شمس کی مانند طلوع ہوا 
تو فرمایا گیا 
والسماء والطارق 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ چمکتے ستارے ہیں جنہوں نے نور کی یہ منازل طے کی ہیں 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ رشد و ہدایت پے فائز ہیں 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ "النجم ثاقب " سے ایسے لاتعداد ستارے نکلیں گے اور فرمایا گیا 

انا اعطینک الکوثر 

تشکر عظیم کے لیے کہا گیا قربانی و نماز کا ..نماز تو محویت کا حال ہے 
محویت عشق کمال کا عالم 
عشق ہو تو قربانی لازم 
تو دی ہے نا قربانی چار یاروں نے 
مگر قربانی کی منتہی امام حسین علیہ سلام سے 
وہ پاک بابرکت ذات جو ستارے پیدا کرکے،  ان کو منور کرتی رہی 
اس ذات پے لاکھوں سلام اورسلام درود پنجتن.پاک  پے،  اصحاب و ال نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
تری نسل پاک میں بچہ بچہ ہے نور کا

وجے دل والی تار، کلام وی ہووے لکھ بار، جیویں چن دی چانن ایویں محبوب دے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم دی روشنی، جتھے نور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بس جاوے، اوتھے شمع ہدایت دی بال دتی جاندی اے. اوتھے تو "تو "میں "دا سیاپا ہوندا نئیں. بس ادب نال کھلو جاوو تے مل جاووے یار 

رب نے قسم کھائی والسماء والطارق 
جیویں آسماناں تے اووہی، جیہرا آپ آپ آسمان 
تے صبح سویر جیہڑا تاراچمکدا پئیا اے، اوہدا ناں محمد 
ساہڈا رب سانوں کہندا میں تعریف کرنا محمد دی، صلی اللہ علیہ والہ وسلم، میں ً درود بھیجنا ناں  ...

 ایہو تے درود اے کدھی یسین، کدی حـــــم، کدی طٰہ، کدی مزمل، کدی طســم، کدی حـمعسق، تے کدی الم، تے کدی المــــدثر 

ایڈا سوہنا درود کوئی پیج سکدا؟ پیج کے وکھاؤ، رب رب اے، اوہدی ذات وکھو وکھ اے ...

قندیلِ ‏دل ‏****

قندیل پاک مکرم ہے 
دل سادات کا حرم ہے 
شمع کا دل محرم ہے 
نگاہ سے چلا کرم  ہے
گناہ کا رکھا بھرم ہے  
دل میں بیٹھا مکرم ہے 
محبت ہی دین دھرم ہے 
محبت زخم کا مرہم ہے


ازل کا نور ہے؟  مکرم ہے 
ازل کے نور میں جذب ہے 
مکان میں لامکانی لازمانی 
شہباز کو ملا پرواز کا بھرم 
شہباز نے اڑان بھر کے دیکھا 
فضا میں پاؤں، زمین تو عدم
مڑ کے دیکھا؟  یہ تو ہے جرم


کہاں کی تیاری ہے؟  کدھر کو جانا ہے؟  سیادت کو ملا سید اپنا ہے. غلامی سید کی ہے اور سید نے دیا ہے سادات سے مروج نگینہ. یہ نگینہ حسینی ہے جس سے ملا نور کا سلسلہ. یہ سلسلہ تو مکرم ہے.
وہ  سادات حسنی و حسینی ہے 
وہ گفتار سے،   کرادرِ عینی ہے 
وہ میخوار ہے، گردش پانی ہے  
 عرش کے پانی کا خاص پانی ہے

وادی حرا،  جبل النور دل ہے،  محور عشق میں نقطہ دل ہے 
، کامل عشق اور جذبہ دل ہے 
سہما تڑپا مچلا یہ میرا دل ہے 

یہ فضائے سازگار شہباز کے اڑان کی ہے. اڑان بھر دی گئی ہے اور کہا گیا چلو محفلِ حضوری کی تیاری ہے  چلو اب کہ باری ہے. کرم مجھ پرجاری یے. یہ آیت کوثر جاری و ساری ہے. اللہُ اکبر دل کی آری ہے  ..  دل میں کبریاء جاناں کی مہک آرہی ہے 

مہک مہک کبریاء جاناں کی ہے  وہ دہانہِ غار میں کھڑا منتظر ہے کہ کب آؤں میں اس کے پاس. گھوم کے جانا کہاں تھا مجھے؟  آخر تو آنا تھا مجھے ادھر. سو چل دی سرکار کے ساتھ کہ یاس کو ملے اظہار ساتھ


سبحان ‏اللہ ‏****

سبحان اللہ!  آیت میرے سردار کی ہے 
سبحان اللہ!  آیت سید سادات کی ہے 
سبحان اللہ!  یہ آیت مرے حسین کی ہے
سبحان اللہ!  یہ آیت معراج کی ہے 
سبحان اللہ!  یہ آیت شاہ نوران کی ہے 

آیت کا ظہور ہے کہ آیات کا؟  بسم اللہ ہے تو اسم مگر مظہر بن کے اترا ہے. بسم اللہ سے نکلا دھاگہ. اس دھاگے میں وعدہ ہے اور وعدہ تھا اسکا ارادہ. ارادے کی تعمیل کی میں نے. اس نے مجھے ارادے کی سلطنت بخشنی ہے اور میں نے محو ہو کے اس کے امر کو پورا کرنا ہے  جُز بسم اللہ - دل کو کیا چاہیے  جزدان دل ہے اور بسم اللہ بنی قُران ہے. پیکر عالی امامِ حُسین یقین کی،  استقلال کی تصویر جن کی تصویر سے پانے لگی نور اپنے رنگ. وہ مکمل آئنہ ہیں میرا اور صورت گر نے اس رنگ سے رنگا ہے مجھے کہ صدا آتی ہے 

یا ایھا المدثر 

پکارا گیا ہے!  سنا گیا ہے!  سہا گیا ہے!  جذبہ مقرب بنا ہے!  سائبان ملا ہے.

یا حیی!  یا قیوم 

قائم اللہ کی کرسی اتری ہے اور باقی اللہ نے قرار پکڑا ہے دل میں  اللہ ھو!  اللہ ھو!  اللہ ھو!


اللہ کی صدا دل میں تو یہی ہے کہ مسجود ہوجاؤں مگر ساجد کہاں جائے؟  بسمل کے سو دھاگے،  سو نسبتیں.    نسبتیں مل رہی ہیں اور رقص پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے. بسمل نے عین رقص میں کہہ دیا 

اللہ -- تو میرا ہے
اللہ -- جہان والا
اللہ -- انا کی کرسی والا ہے 
اللہ -- جلال میں رہا ہے 

آج اس کے جلال نے مجذوب کردیا ہے. شخصے بقول:  جاذب بنا دیا گیا ہے مجھے. میں وہ ہوں جس کو دیکھ کے سبحان اللہ کہا گیا ہے . 
سبحان اللہ!  شب دراز نے منزل پالی ہے


خبر ‏مل ‏چکی ‏ہے ‏! ***‏

خبر مل چکی ہے!  

خبر مجھ میں شامل ہوچکی ہے جیسے مری ذات میں خبریں جمع ہیں. یہ جمعہ جس میں مثالیں جمع ہیں یہ وہ محفل ہے جہاں مثالیں دیکھ کے خاموش رہا جاتا ہے اور سرر میِں خبر دی جاتی ہے کہ شہادت سے شاہد ہونا لوح ازل پر رقم ہے. تو نے رقم ہوا پورا کیا ہے، میِں نے قلم بنایا تجھے،  تجھے قلم ہونا ہے میرے لیے. ازل سے الوہی گیت کا لکھا ہے جسکو تو نے پورا کرنا ہے.

ازلی بات ہے،  ابدی بات ہے. کہ اس نے منازل دیں ہیں اور تڑپ کی سعادت دی ہے. یہ سعادت یے کہ اس نے بات کی عادت دی ہے  ذات سے اس نے اپنی تقویت دی ہے. وہ تقوی ہے جس میں راہ عشق کو خار دار جھاڑیوں سے چنوایا کے گزارا جاتا ہے. یہ رقص آبلہ پا،  زخم خوردہ پرندہ کیسے طے کرتا ہے. بُت کے اندر جب اسکی صدا ابھرتی ہے. بت میں وہ ہے اسکی صدا ہے کہ بچا کیا ہے؟  بچنا بھی نہیں تھا کچھ کہ بچا کیا ہے؟  
منزل شہود میں قیود؟  
قیود بھی واجب صعود 
تنزیل میں وہ ہے موجود 
جذبات سے ہٹیں  حدود 
کسی ذات کا ہے یہ ورود 
شاہد -- شہادت --- شہود 
اللہ ----  شہید میں موجود 
شاہد نے شہید ہونا تھا 
شہادت ملی ہے،  ہاں ملی ہے ایسی شہادت جس مین شاہد بھی وہ ہے،  شہادت بھی اسکی ہے اور رستے وہ خود طے کروا رہا ہے. اس نے کہا کہ وہ اپنا نور پورا کرے گا تو وہ اپنا نور پورا کرکے رہے گا کہ نور اسکا چل رہا ہے زینہ بہ زینہ اور نور کو ادب سے مل رہا ہے قرینہ. یہ شاہ نوران سے ملا وسیلہ کہ جل رہی مری آرزو دیرینہ اور میں کر رہی ہوں ان کی روز و شبینہ.

محو ‏کھو ‏گیا ‏ہے ‏.... ‏!***

محو کھو گیا ہے ... !  

محو کھوتا کیسے ہے؟ محو کو جب بلاوا آتا ہے تو اس پر بیخودی کا ظہور ہوجاتا ہے. یہ بیخودی کا سنگم مجھ میں خودی سے ابھرا ہے  فضا نے مجھ میں کملی کی صورت گھیر لیا ہے. ہواؤں نے رستہ دکھایا ہے. سرکار نے بُلایا ہے 

طٰہ ---- گلِ یسین 
طٰہ----- دلِ حا میم 
طٰہ ----  جلالی شعاع 
طٰہ ---- رمزیہ بقا ہے 
طٰہ ---- اکسیر شفا ہے 
طٰہ ---- قربِ ساعت 
طٰہ----- رنگ سنہری 
طٰہ---- تجلی منتہی 
طٰہ---- منشور الہی 
طٰہ---- خبر کی ابتدا 
طٰہ---- دید کی بقاء

طٰہ سے طسم  کا سفر ہے  طسم ایسی الوہی منشور کی باریک بین شعاع ہے جس سے بقاء کے در وا ہوجاتے ہیں  بقا مجھ میں کھل چکی ہے اور میں اس کی انا ہوں  انائے اکبر سے اکبریت کے جامے میں کسی نے صدا لگائی ہے. صدا جس نے دی،  اس نے کہا 
تو میری ہے، 
میں نے کہا:  تھی ہی تیری 

صدا اٹھی 
خبر سے پردہ اٹھا؟

میں نے کہا پردہ سے پہلے بھی تو تھا،  ہٹنے کے بعد بھی بس آگہی کا در کھول دیا ہے.

اس نے کہا دید کیا ہوئ پھر؟  

میں نے کہا،  محویت!  

صدا لگی:  صدا لگی؟  تو سن!  قم فانذد،  وثیابک فاطھر،  والرجز فاھجر،  ولا تمنن تستکثر 

یہ سیرت ہوئی!  جس کو اپنانے کا نقارہ بجا ہے  ..قم سے کردے کن کہ اوقات سے بڑھ کچھ نہیں ہے کہ تو بے حساب ہے اور بے حسابی دیتا ہے 

صدائے انائے اکبر .....!
اکبریت کا جامہ اوڑھا ہے کائنات نے اور یک بیک ہوتے کہا گیا 
اللہ وہ جو اکبر ہے 
اللہُ اکبر.
اللہ وہ جو بے نیاز ہے 
اللہُ الصمد 
منظور ہوئی دعا 
نذر میں دل لیا گیا ہے 
قبول کیا گیا.
چنا گیا ہے تجھے 
مبارک ہو، تجھے کہ تو سعید ہے 
مبارک ہو، تجھے کہ تری عید ہے 
مبارک ہو تجھے کہ تجھ میں شمشیر ہے 
مبارک ہو تجھے کہ حیدری توحید ہے 
مبارک ہو تجھے کہ حسینی ہالہ ہے 
مبارک ہو تجھے کہ ترا دل بنا رسالہ ہے 
مبارک ہو تجھے کہ شاہ نوران نے آنا ہے 
مبارک ہو تجھے کہ اللہ والا سمایا ہے 
مبارک ہو تجھے سرکار نے بلایا ہے 
مبارک ہو تجھے کہ تو نے کیا کمایا ہے؟



محویت ‏کے ‏چودہ ‏چاند ‏***

محویت کے چودہ چاند 

محویت کے چودہ دیپ دل میں روشن ہوجاتے ہیں جب سے انسان رخِ یار کے فسوں میں کھوجاتا ہے  جیسے جیسے یار کا پردہ ہٹتا جاتا ہے تو انسان کی اپنی ذات استعارہ بن جاتی ہے. انسان جو مست مست ہست میں ہوتا ہے وہ جل اٹھتا ہے. جلنے کے مابعد کیا بچتا ہے؟  کاغذ جل جائے تو دودِ ہستی بکھرجاتا ہے. کاغذ جلے تو شناخت ہوجاتی ہے  یہ شناخت اوج کی جانب لیجاتی ہے. اوج کیا ہے؟ گُلاب دودِ ہستی کی مہک سے ابھر آئے. گُلابوں کے لیے تو زمین بنائی جاتی ہے اور مہک افلاک تک چلی جاتی ہے  فلک والے زمین کی جانب دیکھ کے خدا سے عرض کرتے ہیں کہ 

یہ کون ہے جس کا درد ہمیں جان لیوا محسوس ہوتا ہے  جذبات تو انسان کے ہیں، مگر درد کا دھواں کہاں سے اٹھا ہے؟  

خدا کہتا ہے 
جو مجھ سے، میں اس سے ہوجاؤں تو بات وہ کرے یا میں کرے، بات برابر ہوجاتی ہے 

سجدہ!  سجدہ!  سجدہ!  
یار کو سجدہ بنتا ہے کہ اس سے پہلے تسلیم کے گھڑے ہونا ضروری ہے کہ آیت  دل میں محویت نے بقا کے دروازے کھول دیے ہیں. 

بقا فنا میں ہے 
جلتا دیا یہ ہے 
خدا نے دیا یے 
حرف دھواں ہے 
الف سے ملا ہے 
میم کا دِیا ہے 
الف- میم  دل 
آ، مجھ سے مل 
دل پتھر کی سل؟
چشمہ پھوٹ پڑا 
جذبہ ابل  پڑا ہے 
اللہ نے صدا دی ہے 
صدا نے ملا دیا ہے

محو کسی چاند  میں اپنا عکس نَہیں دیکھتا  ہے . وہ تو اپنا آپ آئنہ ہوجاتا ہے اور رب کو خود میں دیکھتا ہے  سورج سے ملاقات اسکی طے ہوجاتی ہے اسی دوران  وہ سورج کی جانب پرواز میں ہوتا ہے تو روح کو فوقیت مل جاتی ہے.

شہباز لامکانی پرندہ ہے 
مکان میں سے اڑ گیا ہے 
لامکان لازمان کی ہتھیلی 
گلِ اطہر کی یہ ہے کملی 
کملی کالی میں چھپا ہے 
دل، نور کا کب گمشدہ ہے 
جذبِ اطہر میں رات ہے 
عنبر و عود بھی ساتھ ہے 
یہ مہک آسمانی و زمانی 
یہ مہک مکان میں سمانی؟
زمانے مجھ میں سمائے ہیں 
میں کس جا،  جا کے سماؤں.
حق اللہ ...اللہ موجود ہے 
حق اللہ.... اللہ باقی،ساتھی

شب ‏دراز ‏فلک ‏پر ‏ہے ‏***

شبِ دراز فلک پر ہے 

فلک نے اشارہ کیا ہے کہ میں مشارہ الیہ کی جانب سے رقص کنندہ اک برق ہوں. مجھ سے انوار نکل رہے ہیں جیسے میں مقتل میں سیلانی ہوں کہ مجھے اپنی مذبح خانے کی آرائش پر فخر آرہا ہے. یہ افلاک ہیں جنہوں نے مرے ہونے کی گواہی دے ... میں اک موجود حیثیت میں عرش کے پانی سے خود کو وضو پاتا دیکھ رہا ہے. خدا مجھ سے اتنا بے حجاب ہے جتنا آج سے چودہ سو سال پہلے محویت میں پایا تھا. میں اسی محویت میں شمع رسالت کا خاص پروانہ ہے، جس جس کو میرا ساتھ ملے وہ آنکھ اشک بہ اشک رکھے گا.


افلاک مسجود!  ملائک مسجود!  میں نے نازش لمحہ کو سہا ہے گویا کہ زبان دے دی کہ خدا تو نے جو کہا ہے وہ ترا ہونا ہے. یہ اقرار میں نے اس کی دید میں کیا ہے. سر اتار کے اس کے قدموں میں رکھ دیا ہے اور رقص والہانہ شروع کیا ہے. والہانہ شوق سے میں نے خدا سے کہا تھا کہ مجھے جام وحدت پلا 

ساقی پلا اور پلا،  اور پلا 
ساقی مل،  آ،  ساقی مل،  آ 
شام ہجراں میں برق وصل 
دل میں مائل کرم کو شامل 
جز اک قران کہ کیا دل میں؟  
فقر میں راوی نے پایا اک دل 
دل میں پایا رستہ طواف کا 
احستاب!  مت کر مجھ سے 
انتساب!  یہ یقین کی بات ہے 
پاس نہیں ہوں تو دوری نہیں 
یہ بین بین حال میرا ترا حال!  
مرا حال وہی ہے جو ترا حال
 
حالت کی کرسی اتری ہے
 مجھ میں اور حالت میں مقرب ہے. میں نے قرب میں جلال سے لرزہ پایا ہے. دلِ وحشی سے پوچھیے کہ ٹھکانہ الفت کیا ہے؟  دل ہجرت زدہ سے پوچھیے کہ لامکانی کیا ہے؟ مکان میں طوفان کیا ہے؟  یہ ہجرت؟  یہ طولانی کیا ہے. میں نے چکروں پر خدا سے پوچھا کہ کیوں چکر پر چکر دیے ہیں تو کہا اس نے کہ درد کی دوا ہے یہ