Friday, February 26, 2021

در

اک در بند  ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی.  وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ  پیغام اجل!  و وہی دے سکتا ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی.  اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا  نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا،  فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح!  آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے .... 
میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ 
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے 

بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت!  دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !.  سب خزانے ہیچ .. 

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے 
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے 
قلم!  قلم کی قسم!  قلم کی عطا 
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے 
وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں 
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی یے
وہ وہ ہے جس کے در کی  دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے 
دیکھ!  میری گالوں  میں سرخی ہونٹوں پہ لالی ہے 
میں  اس کی ہستی کی مست حالی ہوں 
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے 
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے