کنجری کا کوٹھا
اک سانولے سی رنگت، درمیانی عمر کا شخص مجھ سے ملا اور کہا کہ چل بلاوا آیا ہے. میں نے پوچھا کہ کہاں سے آیا؟
کہا: شاہ نوران و شاہِ ہادی نے بُلایا
میں نے بکل ماری اور بکل کا چور دیکھ کے چل دی. راستے میں کنجری کا کوٹھا پڑھتا ہے. میں وہاں رُک گئی تو وہ صاحب بولا: کنجری کے کوٹھے پر ترا کیا کام؟
میں نے اس صاحبِ شریعت کو بغور دیکھ کہا: آپ ٹھہرو ابھی، میں آتی ہوں ....
میں سیڑھیاں در سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو نیچے والے انسان بونے دکھنے لگے بونوں کو دیکھ کے میں نے کوٹھے میِں داخل ہوتے ساعت کسی طوائف کو درد میں گاتے سُنا
میں نے اس سے پوچھا تم کو درد کہاں سے ملا؟
اس نے کہا شاہ نوران نے درد کے پہاڑ دل میں اتار دیے ہیں.
میں نے کہا تم مجسم پاکی ہو اس گندگی میں کیا کر رہی ہو
کہنے لگی تم مجسم پاکی، گندگی تمھاری اندر کیا کر رہی ہے؟
میں تو گر گئی اس کے قدموں اس نے چور پکڑ لیا تھا میرا ...
کہنے لگی مدینے جانا ہے؟ مدینے والے نے تو ایسے بلالیا مگر خود کچھ تردد نہ کیا؟
میں نے کہا تجھ سے ملاقات بھی تو لکھی تھی نا
کہنے لگی، ٹھہر جا ذرا مرا درد سن جا. تجھ کو درد کا رسالہ دیتی ہوں وہ دے دینا شاہ نوران کو
اس تن ناچے مور
پیا بھاگوں کس اور
مورے بھاگ جاگن
جاگ گئی جوگنیا
پیا،رے! پیا، رے!
نظامی سنگ دل میں
عاصی کے کنگن ہیں
لبِ شوخ پر یہ نام؟
اللہ بنا دے مرا کام
حاضری کا ہو انتظام
درد میں جھوم ناچوں
تماشائی دیکھن لگن
کہون، حسن ڈلدا اے
رنگ سوہنے ہادی دا اے
لہر لہر خراماں مہک ہے
رگ رگ میں اک دہک ہے
مورا ساجن، پیا رے،
اکھیاں وگاندی نیراں
ہل گئی اے پتھر دی سل
یار میڈا، آ مینوں مل
سج جاندی راتی محفل
مئے مستی دی اے ہے کَل
لوں لوں ہجر دے وچ شل
اگ دی ماری شوکاں مارے
صد بلاوو،اج بلاوو،پےبلاوو
اکھ ملاؤو، بار بار ملاؤو
بہاراں دی مچ جاوے ہلچل
عشق وچ بلدی پئی سچل
دیوے بلدے تیل دی اے کل
حرفِ دل وچ سکون دی گل
یہ غم کا دیا جو اس کنجری پاکدامن دل نے مجھے تھمایا، مجھے چکر آگئے. یہ غم مجھے بیہوش کرگیا تو وہ زندہ کیسے ہے؟ غم کیسے اٹھاتی پھرتی ہے وہ؟ میں وہاں سے چل تو رہی تھی مگر بدل رہی تھی. کنول کیچڑ میں ہو سکتا ہے مگر گلاب میں گندگی کیسے ہو؟ میں سیڑھیاں سے اتر رہی تھی تو اس صاحب شریعت سے کہا
بھائی تو اب چل! میں کلی جاواں گی، اتھررواں دی اے گل. تینوں سمجھ نہ آوے گی دلاں دی اے گل. سچل سائیاں مینوں یاد دلاون گے کہ سچی بات سچیاری اے دل وچ اگاں دی لاری ہے .کَلّی جاوواں گی مدینے، ظاہر دی گل ظاہر وچ مک گئی اے دل دی گل، دل وچ چلدی پئے اے. ہن تیڈی لوڑ نئیں مینوں