دُھواں دھُواں میری ذات ہے ۔ اس سے نکلتا دھواں کبھی ختم نہیں ہونا جیسے کہ اس میں ایسا سسٹم نصب ہے جس کو بقاء ہے جو خرچ کرنے کے باوجود جلتا ہے ۔ جس کی روشنی جگنو کی جیسے ہوتی ہے اور جس کے دھواں میں خُوشبو گلاب کے پھول جیسے ہوتی ہے ۔ ہیر کی مانند رانجھے کو ڈھونڈنے نکلی میری روح صحرا میں کھڑی ہے اس کے پاس کوئی سواری نہیں ۔زاد راہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔پاؤں کی آبلہ پائی میرے شوق کا نشان ہے اور ان سے بہتا خون میری رفاقت ۔۔۔اس دوری میں ۔۔۔ اس ہجرت میں ۔۔۔ اس درد میں اور سوز میں بھی ایسا مزہ اور سرور ہے جس کو مل جائے وہ دنیاؤی آسائشات کو لات مارے ۔ کیا ہے دنیا ؟ مٹی کا پیالہ ۔۔۔ جس کو گھونٹ نہ پی سکی اور تشنہ رہے جبکہ وصل کی شراب میں پیمانہ بھر بھی جائے تو پیمانہ بے قرار رہتا ہے ۔۔
مرض مجھے ملا یے اور میں مریض عشق ہوں..جس کو عشق میں جلنا ہو تو خود کو آگ پہ جلتا محسوس کرے. وہ آگ ٹھنڈی ہو جائے گی جبکہ اندر کی آگ تو بھڑک اٹھے گی ..اے دل والو! اندر کی آگ بھڑک رہی اور وہ جو دور ہے وہی قریب ہے. وہی جو قریب ہے وہی نصیب ہے اور جو نصیب ہے وہی حبیب ہے جو حبیب ہے وہ میرا جلیل ہے وہی جو جلیل ہے وہ خلیل ہے. جو خلیل ہے وہ اسماعیل ہے. جو اسماعیل ہے وہی کلیم ہے جو کلیم ہے