Friday, February 26, 2021

مابعد ‏حجاب

ما بعدِ حجاب طواف ضروری تھا اور تو نے نَہ کیا،  ہائے!  یہ کِیا کیا؟  طواف کیسے کروں؟ کیسے فرق جانوِں؟ فرصت ملے گی تو دیکھیں گے کہ مطاف کو چومنا کیسے ہے ـ ابھی تو محو ہیں دوست اور رقابت کا سوال نَہیں ـ اجتناب نہ کرو، حساب کرو مگر سراب نہ کہو ـ جواد وہ ہے جس نے سخاوت کی حد کردی ہو ـ رقیب نہیں کہ ہر جا،  دوست ہے ـ میرے دِل میں تری یاد کے ہزار پُل اور ان سے گھٹتا فاصلہ محض سوچ کا تھا ـ سوچ نے ہٹایا فاصلہ تو حائل صدیوں نے بتایا کہ نورِ قدیم سے فاصلے نہ تھے ـ وہ قدامت میں، کسی نے خود کو عرش کے پانی میں دیکھا،  عرش کے زیرسایہ رہنے والے نے پھر بھی قربت کی انتہا مانگی ـ انتہا کیا ہوتی؟  لذت نے بھلادی انتہا بھی اور سوالِ منتہی بھی ـ فلک پر حطیم ہے، مطاف بھی ـ وہیں اک جاذب، نظر خاتون کو بیٹھے دیکھا ـ وہ حسین تھی اتنی کہ اس کے حسن میں میں کھوگئی ـ میں نے اس سے سوال کیا 
تم اتنی حسین کیسے بنی؟
اس نے کہا:  یہی سوال تم سے بنتا ہے 
پھر اس سے آگے سوال نہ رہا،  اس سے آگے کا جواب لفظ کا محتاج نہ تھا کہ حروف نے اس حسین پری وش کے گرد چکر لگائے اور اتنے چکر لگائے کہ پری چہرہ غائب ہوگئی جبکہ وہ حرف سامنے تھے ـ پری چہرہ کہاں گئی مگر حروف نے یکتائی کی قسم کھائی اور یکتا ہوتے سب منظر ہوتے گئے دل میں ـ یہ کس کا دل تھا جس میں صورتِ مریم نے قدم رنجہ کیا ـ یہ عیسوی قندیل میں لگے شجر میں کیسا نور ہے؟ یہ موسویت کی چادر کا رنگ گہرا کیوں ہوتا جارہا ہے؟  شجر زیتون نے برق سے کلیمی کی صورت دی اور صورت صورت میں صورت اس کی جھلکنے لگی. اس کی غزل کے جا بجا قافیے ہیں اور میں اس کے شعر کا ایسا قافیہ ہوں جس کو بڑی محبت سے، بڑی چاہ سے، بڑی الفت سے لگایا شعر پر کہ یہ شعر رحمت بن گیا ـ رحمت میں رحیمی کا نگینہ لگا پڑا ہے،  کسی پیارے نے پیار سے کہا:  سو جا،  رات ہے ـ ہم نے پیار سے جواب دیا کہ پیار میں نیند نہیں آتی،  پیار میں پیار قائم ہوجاتا ہے ـخواب میں پیار ہے،  جاگ لگن کی دیر ہے جاگ جاتی ہے روح، راگ نے آگ لگائی ہے اور بابا جان نے بلایا ہے ـ بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان گنت درود  یہ ہم تو قابل نہیں نا کہ خیال سجائیں مگر خیال سجے تو کہنا لازم:  سلام قول من رب رحیم ٌ رب کا سلام پہلے کہ بندگی کا طریقہ یہی ہے کہ عجز میں رہا جائے. راستہ بہت کھٹن ہے جی جناب کٹھن ہے مگر ساتھ سجن ہے اور رات اس میں مگن ہے ـ لعل گگن ہے،  دل میں شراب کہن ہے، یہ صحنِ ارم ہے کہ جانبِ حسن ہے ـ امام حسن رضی تعالی عنہ نے کیسی نرمی پائی شباہت بھی کیسی پیاری ہے اور نورانی ایسی کہ یزدان نے جمالیات کے سبھی نقوش قلب معطر کے حوالے کیے ـ ہم کہاں دیکھیں رے ان کو، وہ ہمیں دیکھتے ہیں اور لگتا ہے ہم ان کو دیکھ رہے. وہ اک قبر جس کی لعلی نے میرے دل کی زمین کو گاہِ کربل بنادیا،  سجدہ شبیری یہی ہے کہ  گم رہ مگر غائب نہ رہ