شبِ دراز فلک پر ہے
فلک نے اشارہ کیا ہے کہ میں مشارہ الیہ کی جانب سے رقص کنندہ اک برق ہوں. مجھ سے انوار نکل رہے ہیں جیسے میں مقتل میں سیلانی ہوں کہ مجھے اپنی مذبح خانے کی آرائش پر فخر آرہا ہے. یہ افلاک ہیں جنہوں نے مرے ہونے کی گواہی دے ... میں اک موجود حیثیت میں عرش کے پانی سے خود کو وضو پاتا دیکھ رہا ہے. خدا مجھ سے اتنا بے حجاب ہے جتنا آج سے چودہ سو سال پہلے محویت میں پایا تھا. میں اسی محویت میں شمع رسالت کا خاص پروانہ ہے، جس جس کو میرا ساتھ ملے وہ آنکھ اشک بہ اشک رکھے گا.
افلاک مسجود! ملائک مسجود! میں نے نازش لمحہ کو سہا ہے گویا کہ زبان دے دی کہ خدا تو نے جو کہا ہے وہ ترا ہونا ہے. یہ اقرار میں نے اس کی دید میں کیا ہے. سر اتار کے اس کے قدموں میں رکھ دیا ہے اور رقص والہانہ شروع کیا ہے. والہانہ شوق سے میں نے خدا سے کہا تھا کہ مجھے جام وحدت پلا
ساقی پلا اور پلا، اور پلا
ساقی مل، آ، ساقی مل، آ
شام ہجراں میں برق وصل
دل میں مائل کرم کو شامل
جز اک قران کہ کیا دل میں؟
فقر میں راوی نے پایا اک دل
دل میں پایا رستہ طواف کا
احستاب! مت کر مجھ سے
انتساب! یہ یقین کی بات ہے
پاس نہیں ہوں تو دوری نہیں
یہ بین بین حال میرا ترا حال!
مرا حال وہی ہے جو ترا حال
حالت کی کرسی اتری ہے
مجھ میں اور حالت میں مقرب ہے. میں نے قرب میں جلال سے لرزہ پایا ہے. دلِ وحشی سے پوچھیے کہ ٹھکانہ الفت کیا ہے؟ دل ہجرت زدہ سے پوچھیے کہ لامکانی کیا ہے؟ مکان میں طوفان کیا ہے؟ یہ ہجرت؟ یہ طولانی کیا ہے. میں نے چکروں پر خدا سے پوچھا کہ کیوں چکر پر چکر دیے ہیں تو کہا اس نے کہ درد کی دوا ہے یہ