Friday, February 26, 2021

درد ‏سے ‏بھیجا ‏گیا ‏درود ***

وہ درد سے بھیجا گیا درود،  وہ درد کی دوا بن گیا ـ درد تو دِیا گیا ہی اِس لیے جاتا ہے کہ رقص کرنے لگے زمانہ ـ زمانہ رقص نہیں کرتا بلکہ کائنات میں سب اشیاء کی تسبیح دکھنے لگتی ہے ـ  یہ اشیاء جن میں اس کے نشان ہیں،  زائر سیر کے دوران کہنے لگتا ہے کہ دیدار ہوگیا ہے ـ  یہ مدارج الی اللہ ہیں کہ اس کو جانے کو ذات ہی منبع ہے ـ ذات کا ستارہ، قطب ہے ـ قطب منور ہو تو ہر شفاف شے منعطف ہونے لگتی ہے ـ یہ شفاف ہونا لازم کیوں ہے؟ شفافیت "من و تو " کا جھگڑا ختم کرکے انالحق کی منزل سے گزار کے واجب الوجود بنا دیتی ہے ـ زمانہ لاکھ کہے انسان ہے مگر روپ بہروپ کو جانڑے کون ـ فرزانہ جانے گا انسان،  دیوانہ جانے گا ذات ہے 

اک فرزانہ ملا،  دیوانے سے ـ ملن کا قصور تھا فرزانگی جاتی رہی اور جذب حسن میں فرزانے کی کائنات ہوئی ـ چلو اشک بندی ختم کرو!  چلو رقص فزوں کرو کہ لٹو کا وجود نہ رہے ـ 

میری جان!  روح سے روح مل جائے گی!  میرے دِل محبت میں محبوب ہوگا ـ اے میری روح،  عشق،  عاشق اصل ہوگا معشوق کہ وجودِ عشق نے خدا کو وہ دوام بخشا کہ نہ فرق رہا،  نہ حذر رہا، نہ خطر رہا 

پری چہرہ ـ وہ بے مثال چہرہ ـ وہ پری چہرہ جس کا درون شامل کیے ہوئے تم سب کی صورتیں ـ ان صورتوں میں کہیں جلال ہے، کہیں جمال ہے، کہیں حال ہے، کہیں کمال ہے ـ یہ تسبیحاتِ درجات پکڑائی جاتی ہیں سیر الی اللہ میں اور جبل پر تجلیات اتنی پڑتی ہیں کہ جبل النور کا گمان ہونے لگتا ہے 

نظر نہ ملائی جائے گی 
نظر نہ اٹھائی جائے گی 
نظر سے ملاقات ہو گی 
نظر سے بات ہو جانی ہے 
نظر مظہر، نظر اظہار 
نظر زائر،  نظر دائرہ 
نظر حصار، نظر محصور 
نظار جبر،  نظر جبار 
نظر  مکان،  نظر لامکان 
نظر زمن،  نظر لازمان 
نظر محب، نظر محبوب 
نظر چنر،  نظر منظر 
نظر حاشیہ، نظر قافیہ 
نظر غزل،  نظر غزال 
نظر مجاز، نظر حقیقت 
نظر مجذوب، نظر جذاب 
نظر حسن، نظر حسین 
نظر قطرہ،  نظر قلزم 
نظر حرف، نظر کتاب 
نظر شاہد،  نظر مشہود 
نظر والی،  نظر ولایت 
نظر جمال، نظر جلال 
نظر حال،  نظر کمال 
نظر انتساب، نظر اختتام 
نظر محور،  نظر شمس 

نظر ملے،  حیا سے جھکا سر ـ جھکا سر نہ اٹھا اور محبوب کو دیکھا کیسے جائے؟  احباب بس دو سے اک ہوگئے اور مل گئی نظر ـ وحدت کا پیالہ ٹوٹے نہ ٹوٹے کہ جام الوہی ہے ـ شام سلونی ہے کسی دیوانے نے فرزانے پر نظر کی، جسم نہ رہا، لباس نہ رہا، بس خیال رہا ـ خیال خیال سے مل گیا   ـ 

یار مل گیا،  یار جانم، یار ہجر میں نمناک، یار جلن سے منتشر، یار خوشی سے مرکب، یار تحفہ، یار سائل، نفی کچھ نہیں اثبات کچھ نہیں ـ جہاں سارا اثبات ہے، کس کی نفی کریں؟  عالم ھو میں ثباتیت دیکھو،  دل پر ہاتھ رکھ کے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے؟  اللہ واجب الشہود ہے   اللہ واجب الوجود ہے، اللہ ظاہر ہے،  اللہ شاہد ہے،  اللہ مشہود ہے،  وہ خود شہید ہے