Friday, February 26, 2021

نہ ‏سایہ ‏ہے ‏اور ‏شجر ‏ہے

نَہ سایہ ہے اور شَجر ہے
حسیں علی کا پسر ہے 
یَزیدیوں سے یہ لڑا ہے 
کَفن کو باندھے کھڑا ہے 
دلاوری میں پر غَضب 
کمال اس کا ہے نَسب 
وَفا کی خوب ہے مِثال 
خُدا کا عین یہ جلال  
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بَڑا یہ با کمال ہے 

 
قَمر کا یہ ہے رشک بھی.
ہے آنکھ اشک اشک بھی 
سِتارہ وہ فَلک پے ہے 
مکان جس کا زمیں ہے
خدا کا مظہرِ جلی ہے 
علی کے گھر کی کلی ہے 
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بَڑا  یہ باکمال ہے

وہ اوج پہ قمر کا رشک 
یہ آنکھیں اشک اشک 
اسی کی بات کا اثر 
ستارہ وہ فلک پر 
جلال کی نمود ہے 
مثالِ عیں شہود ہے
لہو لہو وجود ہے 
وہ تیر یہ کمان ہے
خدا کو اس پہ مان ہے 
یہ زیست اسکی.شان ہے
عجب یہ داستان ہے 
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بڑا یہ باکمال ہے

نور ایمان