Saturday, February 27, 2021

تشنہ ‏کامی ***‏

روح تو سیراب نہیں ہے، جسم کو جتنا شاداب کرلیں. یہ پرندہ تو پھڑپھڑاتا ہے گویا قفس پہ اپنے نشان ڈھونڈتا ہے. یہ تو اپنی چیخ سنانے کے قابل نہیں ہے مگر وہ شدت غم جو دل پے طاری ہے وہ شاید اسی سے مچتا اضطراب ہے. آنکھ جو نم ہو جائے تو یہ غم کم ہوجائے اور اشکوں میں دم آجاٰئے. یہ سنائیں حال دل روتے ہوئے ہیں. عمل سیہ کا کیا حساب؟  کون بچے گا؟ ہر اک ہے مجرم زمانہ ہے. اللہ اگر وقت ہے تو وقت کہتا ہے وقت کی رفتار میں اللہ کی آواز سن. سن نہیں رہا کوئی بھی نقارہ حق اور حق فرمارہا ہے 

والعصر 

اور خسارے اس آواز سن کے اور بڑھ جاتا ہے. یہ خسارہ ہے کہ صبر نہ کیا گیا ہے. مالک زمانہ اور حاکم ہے. کہیں پہ وزیر ہے تو کہیں مزدور، کہیں پہ طوفان ہے تو کہیں پہ ریت ہے اور کہیں پہ پھلتا پھولتا درخت ہے. یہ انعامِ ظاہری تو سب پارہے.پھل کھارہے،  سبزی ..گوشت سب کا سب مگر روح کے انعامات کیا ہیں کسی نے کبھی غور نہیں کیا. غور کیسا ہو کہ غور صرف ظاہر پے ہے درون کو کیا چاہیے اس کے لیے صبر چاہیے. صبر کریں پالنہار جس حال میں رکھے. اس نے سانس گن رکھی یے یعنی وہ مختاد کل چھپا ہے. وہ جہاں قہار ہے تو ہمیں بندگی و تسلیم سے کام لینا چاہیے. جہاں بندگی ہے وہاں انعامات یت. غلام حق کی بات کرتا ہے کہ اکر بالمعروف نہی عن المنکر پے ثابت قدم چل رہا ہوتا ہے