Friday, February 26, 2021

بابا ‏آتش ‏دین ‏***

بابا آتش دین کے گرد ہُجوم تھا. بابا آتش دین اک ماہر طبیب اور کیمیا دان تھا. وہ اکثر آگ سے مختلف قسم کے تجربات کرتا رہتا تھا ... وہ روح کا طبیب تھا. 

 طبیب کے گرد دوائیوں کا مسکن .اس کے پاس کچھ وجدانی صلاحیتیں تھیں اور ان کی کچھ نسخہ جات تحریر کیے جا رہا تھا  .... روح کی کیمیا گری کے نسخہ جات،   خودی میں ڈوب جانے کے مصحف ...

. اک دن مریض عشق اسکے سامنے آیا ، نور سے کامل مگر حیا کی چادر اوڑھے کسی مصحف کلمے کی مانند 

طبیب عشق: دیجیے کوئ نسخہ کہ روگ لگ گیا ہے،  عشق ہوگیا ہے .. 

مریض عشق کو حضرت عشق کہیے کہ وہ مسیحاؤں کے پاس جاتا رہتا تھا .."حضرت عشق "گویا خضر راہ بن کے جانے کتنے بہروپیوں کے سینے کھنگال چکا تھا 

طبیب عشق نے کچھ غور سے دیکھنا چاہا کہ چیخ مار دی ...

یہ وجد تھا    
یہ حق تھا
یہ  قران تھا 
یہ شاہ  ء کیمیا کا اکمل نسخہ 
یہ حادثہ ء عشق کی بربادی کی جینے بعد کا قرینہ 

طبیب عشق نے چادر بدل دی 
یہ روح کی چادر تھی 

"حضرت عشق "نے چادر دی ہی تھی،  طبیب عشق کی روح پرواز کر گئ ...  اب طبیب عشق تو اپنی روح کی تلاش میں گم جبکہ حضرت عشق کی چیخیں .. 
گم تھا رند میخانے میں،  نظر کے تصادم .. ہوئ ملاقات اس سے.   کس سے؟  وہی جو حضرت عشق ...وہی جو طبیب عشق میں ..  
عشق نے دیو مالائ کہانیاں سنیں تھیں کیا؟  گھوم رہا تھا "کسی "کی روح کے بل اور کہے جا رہا تھا 
قلندر کی زیست میں چکر بہت 
ابدیت کے جام بہت،  کام بہت 
شام ہو،  دن ہو،  رات ہو،  دوپہر 
پا بہ زنجیر رقص میں ہے قلندر

طبیب عشق نے حضرت عشق کے ہاتھ کو لگایا ہاتھ کہ جل گیا اسکا اپنا ہاتھ ..... طبیب عشق کا ہاتھ جل رہا تھا اور جلتے ہاتھ سے طبیب عشق نے آگ اٹھائی اور پورے تن من میں اُس کے لگا دی جس نے چنگاری سی دکھادی  .

.    یہی بابا آتش دین کا کام تھا     ....بابا آتش دین تماشا دیکھ رہا تھا جبکہ حضرت عشق جل رہا تھا.. اس لیے طبیب عشق، بابا آتش دین بھی کہلاتا تھا ..  کیونکہ وہ آگ سے کھیلا کرتا تھا ..جلنے کے بعد کیا دیکھا گیا ..

علی کا نقش تھا،  نور میں مخمور تھا.   ع سے عین نور،  ع سے عارف کی معرفت،  ع سے عکس جلی،  ع سے علی ولی اللہ ع....کو دیکھنے میں مصروف تھا حضرت عشق کہ طبیب عشق نے خاموشی سے اسکو دیکھنا تھا کہ تماشائے ہست دیکھتے.   اچانک سے ع عکس جلی نے محمد کی میم کی شکل اختیار کیا .. محمد کے نقش پر دودھ گر رہا تھا گویا کہ نور کی پھوار ہو

    آتش بابا نے آتش بازی کے نسخے اٹھائے اور نقش محمد کے طواف میں وقت  گزار رہا تھا کہ حضرت عشق نے طبیب عشق کو پکڑ لیا،  آگ ساری اسکو دے دی. اب سوچیے کہ  آتش بابا کون؟

یہ عکس تھے،  ارواح ضم ہوگئیں    ...نہ حضرت عشق، نا طبیب عشق ...بس کوئ بابا رقص کرتا رہا ..  
بابائے عشق میں مجلی آیات بھی 
بابائے عشق میں گلاب سے بھرپور ہار بھی 
موتیے کے مہک،  اشکوں کے ہار بھی. 
حسن کی کامل سیرت کے مصحف بھی

یہ آمیزش کیوں ہوئی؟  یہ نا انصافی تھی؟  نہیں ... اک نے ایک کے دو ٹکرے کیے اور دو ٹکرے روگی،  ہجر کی آگ میں جلتے رہے...ابھی تو باری تھی ..ابھی تو ملنا تھا ..ابھی تو جذب ہونا تھا ..ابھی تو ضم ہونا ..دونوں نے اک دوسرے کو حصہ دینا تھا ...

کمال کیسے پاتے ہین؟ اوج کیسے ملتا؟  حادثے کے بعد جیے جانا،  جینے کے بعد جینا سکھائے جانا .... 

آج کوئ کسی خضر راہ سے پوچھے کہ موسویت کی چادر میں عیسویت کیسے نبھاتے، عیسویت کے گل دان میں موسوی کلیاں کیسے کھلاتے تو قدرت کی آتش بازی دیکھے اور بتائے بابا آتش کون؟

بابا آتش دین ۲۰۱۹