Friday, February 26, 2021

متلاشی ‏۳***

متلاشی نمبر ۳ 

محبوب کا در شہد سے میٹھا تو محبوب کیا ہوگا! محبوب کی میم میں سجا رنگ ہے. محبوب کی میم نقل سے اصل تلک کا سفر ہے. یہ سفر خضر ہے، فنائیت میں جس کی حذر ہے نہ خطر ہے. دل کے دیپ جلانے سے رفعت شانِ شایان ملتی ہے. یہ اوج تو ذیشان کو ملتی ہے. فاطمہ سیدہ ہیں،  محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیاری ہیں. ان کی محبت میں کائنات ساری ہے. یہ تفکر میں خالق کے چمن کی آبیاری ہیں، ان سے نسب حسب میں سرداری چلی ساری ہے ... 

باقی کچھ ہے؟ اگر ہے تو ہے شرک 
خالی دل میں حرم کی والی ہیں 
وہ مصور، جسے کی دید کی جانی 
ان کی آمد پہ دن بھی رات لگے 
وصل کی میٹھی ہر جو بات لگے

رات کے تصور میں اک یاد پیوست ہے. وہ یاد جب روزِ الست عہد کا نغمہ گایا گیا تھا. جس وقت میرے وجود کے سارے سوتے بکھر کے یکجا اک عالم میں ہوئے اور میں نے کہا 

اللہ ھو رب العالمین 
محمد رحمت العالمین 

تب مجھے اس دلاویز ہستی کی پہچان ہوئی تھی. وہ ہستی جس نے دل کو وہ نور بخشا جس کے دم بدم دھیرے دھیرے لازوال اوج میں رہنے کو حریت مر مٹے.  اس وقت سیدہ کے پیش، پیش لم یزل ہم نے دیکھیں آدم میں صورتیں!  سب سے برتر خوبرو صورت یہی تھا!  ہاں یہی تھی جس سے دل و دماغ کے آئنے کھلتے بند ہونے لگے! جس سے غیبت و جلوت کا فرق مٹنے لگا تھا  جس سے عصر غائب  عصر حاضر ہوگیا ... کیسا خسارہ؟  کیسا؟  خسارہ نہ رہا!  دل مومن تھا!  دل مومن رہا اور دل کے دلاسے کو کہا گیا "ما ودعک ربک وما قلی "  ... آنکھ کھولوں یا بند کروں اک جلوہ ... قائم حضوری میں رویت عکس جمال و کمال فاطمہ اور رویت ظاہر میں زیبائشِ جہان میں عکس پری چہرہ!  پری چہرہ کا حسن کہ امام عالی حسین!  وہ امام جن کے لیے عصر رک گیا!  ہر زمانہ ان کا ہوگیا!  ہر جا ان کا جلوہ ہوگیا .....