Friday, February 26, 2021

عارف ‏

جانے شعور کی وہ کون سی لے ہے جس میں نہ ہونا ہی میرے ہونے کا پتا ہے. جب پتا نہ ملے تو سطح آب پر آتے دیکھنا بنتا ہے شعائر اللہ کو .. نشان یہ سارے دل میں. ظاہر میں سب نشان اس لیے بنوائے گئے کہ خاکی مجاز سے خیال تک پہنچتا ہے. جب تک تصور نہ کرے گا تصویر کو تو دامن خالی رہے گا. جیسے تصویر دل میں اترتی ہے تو علم ہوتا ہے ویسی تصویر پہلے سے موجود تھی ... عارف پر یہ حقیقت کھلتی ہے تب وہ راز شناس ہوجاتا ہے.  پھر اس کا حال دل، وقت سے جڑ جاتا ہے. وقت یعنی زمانہ اسکو وہ خبر دیتا ہے جو اس وقت کا ارشاد ہوتا ہے. ارشاد ایک ذات کی جانب سے ہوتا ہے اور پہنچانے والا پیام بر ہوتا ہے. امانتوں کو اٹھائے ہوئے انسان یہ سمجھ نہیں سکتا ہے کہ جب اس کی امانت کا راز اس پر افشاء ہوتا ہے تو اس کی معرفت حقیقت کو رسا ہوجاتی ہے ... یہ حقیقت سینوں میں چھپے راز اس پر منکشف کرتی ہے. راز الست یہ امانتیں ہیں ...ہدایت دینے والا بتاتا ہے کہ تخلیق کا مقصد کیا تھا. آدم کو جاننا چاہیے کہ واسطے خدمت پیدائش نعمت ہے. نعمتیں مختلف وسائل سے بنٹ جایا کرتی ہیں. عروضی شعائر سے نقاط کھل جاتے ہیں. قدوسی سے طائر کی پرواز لاہوت کی جانب چلتی ہے. بس من نمی گویم انا لحق " نعرے لگتے ہیں. نقارے بجتے ہیں ... سیاروں سے ستارے لگتے ہیں. سیارے بکھر جاتے ہیں ستارے پھیل جاتے ہیں ..ستاروں کا کام روشنی واضح کرنا ہے