من تکڑی اور تول دی گئی نیت!
ویل للمطففین
نیت کا تول بھاری اور من کی لاگی ایسی کہ خدا سے ہم کہتے رہتے اس کو اس کے کیے جزا کم دے اور میرے کیے کی نیت کا بھرم رکھ ـ جب بھرم کی بات آتی ہے تو مطاف سے صدا لگاتی ہے کہ یہ تو دیدار کا وقت ہے ـ نہیں انتظار کا وقت ہے. یہ التفات کا وقت ہے ـ وقت کاذب ہے اور اس نے کہا
والمرسلت عرفا
یہ صبا جس کو وقت کاذب میں چلاتا ہے تاکہ جان کنی کا حال کم ہے. تخلیق کے مراحل جان لیوا ہوتے ہیں اور لفظ مولود کی گھڑیوں میں جنم لیتے ہیں، درد اتنا ہوتا، نسیان اتنا ہوتا ہے کہ خبر نہیں رہتی کہ وصال تھا. جب وصال ہو تو دن و رات سے پرے اک مقام پر وہ ملتا ہے جس کو شب قدر سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ الرحمن کے بندے ہیں وہ جو والکاظمین الغیظ کی مثال درد کو جذب کرنے والے ہیں. یہ کرسی والے کا مقام ہے وہ اک میں جذب ہو جائے اور واویلا چھوڑ دے. کرسی والے کو ملتا ہے وہ مقام جس کے لیے فرمایا جاتا ہے والشمس. یہ قسمین وہ کھاتا ہے اور بڑے پیار سے نوازتا ہے مگر اس سے پہلے شرح صدر ضروری ہوتا ہے، بوجھ سہنا ضروری ہوتا ہے. یہی تو حق موج یے جس نے میرے لیے اسم لامثال سے بے مثال موتی کشید کیے. چشم نمی کی کہانی اتنی پرانی ہے جتنا یعقوب کا گریہ ـ وہ عشق معشوق کے لیے رویا. بات بہت آسان سی ہے کہ خدا، خود اپنے لیے رویا ـ خدا نے کتنے آئنے بنائے، کتنا حسن بانٹا اور پھر جس جس کو حسن دیا گیا اس بے دیکھنے کی نوبت نہ کی بلکہ صم بکم عم کی مثال ہوگیا. دل شر البریہ ہو جائے تو شرالدواب ہوجاتا ہے اور ایسے پر کنکری جب پھینکی جاتی تو کہا جاتا ہے "وما کن اللہ رمی. بس یہ پھینکی کس نے، یہ کون جانے
اک بازی تھی صیاد کی اور ہوا تو زور کی جب جھکڑ چلا تو کہا گیا کون ہے دل کے قریب؟ کس نے خبر دی " والنشرت نشرا " بس یہ کائنات کا اخبار خبر دے رہا سچے سمیع العلیم کی. وہی تعلیم یہی دیتا ہے کہ ھو اللہ الواحد! واحد کو کوئ دیکھتا نہیں تو اس کے نشان روح پر کیسے پڑیں؟ وجہ اللہ پھر کیسے ہوں؟ اپنا چہرہ ہی وجہ اللہ ہے. اپنی رویت آسان نہیں اس کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے. پھر ہر سمت اس کا جلوہ ہوتا ہے. فثمہ وجہ اللہ. تب قبلہ بنتا ہے، تب نماز قائم ہوتی ہے. یہ نماز ایسی ہے جس میں دل صامت ہوتا ہے، اشجار ساجد ہوتے ہیں