مطاف میں جاذب نظر بیٹھی ہے، جس کے ہالہِ نُور سے اردگرد کے حرکت سکتے میں ہے. جب بندے خدا کے محبوب ہوجاتے ہیں تو طواف یونہی ہوتا ہے. مکان میں نوران شاہ رہتے ہیں. شاہِ نوران، شاہ ولایت کے ساتھ رہتے ہیں. کعبے کے اندر جو نور ہے، کالا رنگ اتر جانے سے وہی باہر ہے. جاذب نظر اسی نور سے بانٹ رہی ہے. کعبے کی چادر اک حجاب ہے اور وہ حجاب تو نہیں رہا ہے. مطاف میں نماز ادا کی جارہی ہے. یہ کیسی نماز ہے جس میں گم صم رہ کے بات کی جائے. جس میں جو تماشائی ہو، وہی آواز ہے.
میزان میں آواز اتری ہے، آواز ایسی کہ شاہ نوران نے بلایا ہے ـ شاہ نوران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رونقِ دو عالم ہیں. ایسا محسوس تو کیجیے گلی گلی میں سب انسان ہیں، کسی میں یا علی یا علی کی صدا لگ رہی ہے، کسی میں یا محمد کی، کوئی غوث پاک کا دیوانہ ہے. انسان نہیں ہیں اس جہاں میں عالم ذات میں ہم سارے آئنے ہیں. وہ جب جھلک دکھلاتے ہیں ہم میں صدا ابھرنے لگتی ہے. وہی صدائے غنود ہی صدائے شہود ہے کہ شاہد ہی مشہود ہے. اب کون پوچھے گا تم کون ہو؟ ہم کہیں گے ہم شاہ نوران کے سوالی ہے. ہم ان کے در پر رہتے ہیں یہ راز کسی کو معلوم نہیں ہے شاہ نوران نے ہم سے محبت کی ہے. یہ لعلی اسی نورانیت کی میراث ہے.
آدم ہو کہ حوا، سب نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوتا. کسی نے کہنا ہوتا ہے تو کسی نے کچھ کرنا ہوتا ہے. کسی کو آگ لگنی ہوتی تو کسی کو آگ لگانی ہوتی ہے، کس کو آگ چاہیے؟ یہ پاک وادی ہے، جوتے اتار دو، تاکہ آگ مل جائے ورنہ انسان تو بیچارہ ہاتھ ملتا رہ جائے گا