محویت کے چودہ چاند
محویت کے چودہ دیپ دل میں روشن ہوجاتے ہیں جب سے انسان رخِ یار کے فسوں میں کھوجاتا ہے جیسے جیسے یار کا پردہ ہٹتا جاتا ہے تو انسان کی اپنی ذات استعارہ بن جاتی ہے. انسان جو مست مست ہست میں ہوتا ہے وہ جل اٹھتا ہے. جلنے کے مابعد کیا بچتا ہے؟ کاغذ جل جائے تو دودِ ہستی بکھرجاتا ہے. کاغذ جلے تو شناخت ہوجاتی ہے یہ شناخت اوج کی جانب لیجاتی ہے. اوج کیا ہے؟ گُلاب دودِ ہستی کی مہک سے ابھر آئے. گُلابوں کے لیے تو زمین بنائی جاتی ہے اور مہک افلاک تک چلی جاتی ہے فلک والے زمین کی جانب دیکھ کے خدا سے عرض کرتے ہیں کہ
یہ کون ہے جس کا درد ہمیں جان لیوا محسوس ہوتا ہے جذبات تو انسان کے ہیں، مگر درد کا دھواں کہاں سے اٹھا ہے؟
خدا کہتا ہے
جو مجھ سے، میں اس سے ہوجاؤں تو بات وہ کرے یا میں کرے، بات برابر ہوجاتی ہے
سجدہ! سجدہ! سجدہ!
یار کو سجدہ بنتا ہے کہ اس سے پہلے تسلیم کے گھڑے ہونا ضروری ہے کہ آیت دل میں محویت نے بقا کے دروازے کھول دیے ہیں.
بقا فنا میں ہے
جلتا دیا یہ ہے
خدا نے دیا یے
حرف دھواں ہے
الف سے ملا ہے
میم کا دِیا ہے
الف- میم دل
آ، مجھ سے مل
دل پتھر کی سل؟
چشمہ پھوٹ پڑا
جذبہ ابل پڑا ہے
اللہ نے صدا دی ہے
صدا نے ملا دیا ہے
محو کسی چاند میں اپنا عکس نَہیں دیکھتا ہے . وہ تو اپنا آپ آئنہ ہوجاتا ہے اور رب کو خود میں دیکھتا ہے سورج سے ملاقات اسکی طے ہوجاتی ہے اسی دوران وہ سورج کی جانب پرواز میں ہوتا ہے تو روح کو فوقیت مل جاتی ہے.
شہباز لامکانی پرندہ ہے
مکان میں سے اڑ گیا ہے
لامکان لازمان کی ہتھیلی
گلِ اطہر کی یہ ہے کملی
کملی کالی میں چھپا ہے
دل، نور کا کب گمشدہ ہے
جذبِ اطہر میں رات ہے
عنبر و عود بھی ساتھ ہے
یہ مہک آسمانی و زمانی
یہ مہک مکان میں سمانی؟
زمانے مجھ میں سمائے ہیں
میں کس جا، جا کے سماؤں.
حق اللہ ...اللہ موجود ہے
حق اللہ.... اللہ باقی،ساتھی