انسان کسی بات کے لیے اپنی سی کوشش کرتا ہے میں نے بھی کوشش کی ۔۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ دل کو چھڑاؤں، ضبط کا دامن تار تار نہ ہو، میں نے کوشش کی شیشہ دل پر لگی ٹھیس عیاں نہ ہو مگر افسوس ! میں نے کوشش ہستی کا دھواں رواں رواں نہ دے، میں نے کوشش کی وحشت کو پنجرے میں ڈال دوں، میں نے کوشش کی خود کو خود سے نکال دوں، میں نے کوشش کی درد کی چادر اوڑھ لوں، میں نے کوشش کی آگاہوں کو آگاہی دوں، میں نے کوشش کی جسم کے سیال کو ابال دوں، میری ہر کوشش رائیگاں ہوئی.
میرے دعا، مجسم دعا بنا وجود نہ سنا گیا، نہ دیکھا گیا، نہ محسوس کیا گیا، میری جبین نے سر ٹیک دیا اور در محبوب کا تھام لیا۔۔۔! اس کو جائے نماز کی طرح سنبھال کے نماز عشق کے سجدے کیے مگر جواب ندارد! کیا کیا ہے میرے دل میں، میں برس ہا برس سے پُکار رہی ہوں، کیوں ایسا ہے دعا کو ٹال دیا جاتا ہے؟ کیوں رستہ بھی جمود کا شکار ہوتا ہے کیوں ایسا ہے بارش نہیں ہوتی، کیوں ایسا گھٹن کا سامنا ہوتا ہے کیوں ایسا آسمان کی جانب حیرت بھی خاموش ہے! کیوں ایسا ہے کہ قرب کا جاواداں شربت پلایا نہیں جاتا! وہ دل. میں بھی ،سینے میں بھی، قلب میں بھی! زمین سورج.چاند سب ادھر! مگر سنتا کیوں نہیں! کون تڑپ دیکھتا ہے؟ جو پیارا ہوتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے... وہ مجھے پاس نہیں بلاتا نہ کہیں سے اذن میرے رنگوں کو نور ذات کو سرور دیتا ہے!
یہ دنیا ہماری ٹھوکر پہ پلی ہے ہمیں دنیا نہیں.چاہیے ہمیں اپنا پیارا درکار ہے! پیارا جو ہمیں نہال ایسا کر دے کہ سالوں سرر نہ بھولے سالوں کیف کی منازل ہوں...ہمیں اس سے غرض ... وہ جانتا ہے وجود سارا مجسم دعا ہے دل میں اس کی وفا ہے .... یہ یونہی درد سے نوازا نہیں جاتا جب بڑھتا ہے دوا مل جاتی! اک درد وہ ہوتا ہے جو وصل کا تحفہ ہوتا ہے وجود ہچکی بن جاتا ہے، دل طوفان کا مسکن، آنکھ ولایت کی شناخت ہوجاتی ہے مگر اک درد وہ ہے جس سے شمع نہ گھلتی ہے نہ جلتی ہے اس کا وجود فضا میں معلق ہوجاتا یے. .....
نہ رکوع، نہ سجود، نہ شہود ... ذات میں ہوتا وقوف ..اس پہ کیا موقوف کائنات جھولی ہوجائے ہر آنکھ سوالی رہے... اس پر کیا موقوف دل جلتا رہے، خاکستر ہوجائے مگر مزید آگ جلا دی جائے ...
.
جب آگ جلائ جاتی ہے تو وہ سرزمین طور ہوتی ہے تب نہ عصا حرکت کرتا ہے نہ شجر موجود ہوتا ہے! عصا بھی وہ خود ہے اور شجر بھی وہ خود ہے! یہ شجر انسان کا پھل و ثمر ہے جسے ہم عنایت کرتے ہیں ...زمین جب کھکھکناتی مٹی کی مانند ہوجاتی ہے تب اس کی سختی نور َالہی برداشت کر سکتی ہے ... یہ ہجرت کا شور مچاتی رہتی ہے مگر علم کا تحفہ پاتی ہے ... اس کا اسلوب نمایاں شان لیے ہوتا ہے... مٹی! مٹی کے پتے ڈھلتی کتِاب ہیں ..
یہ.پانی کی موجوں کا.ابال ...یہ رحمت کی شیریں مثال ...یہ.بے حال.ہوتا ہوا حال ...کیا.ہو مست کی مثال.
.یہ کملی.شانے پہ ڈال ...اٹھے زمانے کے سوال ..چلے گی رحمت کی برسات ... مٹے گا پانی.در بحر جلال ... طغیانی سے موج کو ملے گا کمال ..یہ ترجمانی، یہ احساس، تیرا قفس، تیرا نفس، تیری چال، تیرا حال ... سب میری عنایات ...تو کون؟ تیری ذات کیا؟ تیرا سب کچھ میرا ہے! یہ حسن و جمال کی.باتیں، وہم.و گمان سے بعید.رہیں ...یہ داستان حیرت ... اے نفس! تیری مثال اس شمع کی سی ہے جس کے گرد پروانے جلتے ہیں جب ان کے پر جلا دیے جاتے ہیں تب ان کو طاقتِ پرواز دی جاتی! اٹھو دیوانو! تاب ہے تو جلوہ کرو! مرنے کے بعد ہمت والے کون؟ جو ہمت والے سر زمین طوی پہ چلتے ہیں، وہ من و سلوی کے منتظر نہیں ہوتے ہیں وہ نشانی سے پہلے آیت بن جاتے ہیں ..آیتوں کو آیتوں سے ملانے کی دیر ہوتی ہے ساری ذات کھل جاتی ہے! سارے بھرم حجاب سے ہیں یہی حجاب اضطراب ہے! نشان ڈھونڈو! غور و فکر سے ڈھونڈو! تاکہ نشانیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچتے تم اک تمثیل بن جاؤ! " لا " کی عملی.تفسیر جا میں الا الہ کہ تار سے کھینچے جاؤں گا ... یہ تیری دوڑ جتنا مضبوط یوگی اتنی حدبندیاں کھلیں گے، اتنے ہی مشاہدات ہوں گے، سر زمین طوی بھی اک ایسے جا ہے جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں... یہ جو سر سبز پہاڑ کے جلوے ہیں ان میں عیان کون ہے؟ جو کھول کھول میری آیتوں کو پڑھیں، ان.پہ کرم.کی دیر کیسی، یہ تسلسل کے وقفے ضروری ہیں ...یہ محبت کے سر چمشے پھوڑتے ہیں...جتنی حبس ہوگی اتنا ہی پہاڑ ٹوٹتے ہیں! زمین سے چشمے نکلتے ہیں ... زمینیں سیراب ہوتی ہیں .. درد کو نعمت جان کر احسان مان کر پہچان کر نعمتوں کے ذکر میں مشغول دہ ....
خاک کی قسمت! کیا ہے؟ دھول.ہونا! یہ پاؤں میں رولی جاتی ہے ... جبھی اس کے اصل عکس نکلتا.ہے!
اس نے جانا نہیں یہ درد کا تحفہ کس کس کو دیا جاتا ہے! جو نور عزیز ہے، جو کرم کی چادر سے رحمت کے نور میں چھپایا گیا ہے! تیرا ساتھ کملی والے کے ساتھ ہے، کمال ہم نے درِ حسین علیہ سلام پہ لکھا ہے، حال فاطمہ علیہ سلام کے در پر ....
ہوا سے کہو سنے! سنے میرا حال! اتنی جلدی نہ جائے! کہیں اس کے جانے سے پہلے سانس نہ تھم جائے! سنو صبا! سنو اے جھونکوں ..سنو! اے پیکر ایزدی کا نورِ مثال ... سنو ... کچا گھڑا تو ٹوٹ جاتا ہے، کچے گھڑے سے نہ ملایو ہمیں، ہم نے نہریں کھودیں ہیں، محبوب کی تلاش میں، ہمارا وجود ندی ہی رہا تب سے ِاب تک! نہ وسعت، نہ رحمت کا ابر نہ کشادگی کا سامان، لینے کو بیقرار زمین کو کئ بادل چاہیے .... تشنگی سوا کردے! تاکہ راکھ کی راکھ ہوا کے ساتھ ضم ہوجائے، وصالِ صنم حقیقت یے دنیا فسانہ ہے! ہم تیرے پیچھے پیچھے چلتے خود پیغام دیتے ہیں ... ہمارا سندیسہ پہنچ جائے بس ... قاصد کے قصد میں عشق، عاشق کے قلب میں عشق، زاہد نے کیا پانا عشق، میخانے کے مئے میں ہے عشق .... اسرار، حیرت کی بات میں الجھ کے بات نہ ضائع کر جبکہ اسرار خود اک حقیقت ہے ... ستم نے کیا کہنا تجھے، ستم تو کرم یے، بس سوچ، سوچ، سوچ کے بتا کہ بن دیکھے جاننے والا کون ہے؟ اسماء الحسنی کو اپنانے والا کون ہے؟ صدائے ھو کو اٹھانے والا کون .. شمع حزن در نبی ہے! یہ وہاں کہیں پڑی ہے، دل کی حالت کڑی یے ..
حق ھو ! حق ھو! حق ھو! یہ حسن کے پھیلاؤ کی ترکیب جان، راز ہیئت سے جان پہچان کر، جاننے والے در حقیقت پہچان جاتے ہیں منازل عشق کی منتہی کیا ہے کہ ابتدا کو قرار کن کی صدا دیتی ہے، موت کو قرار اک اور صدائے کن دیتی ہے ..یہ بین بین وقت ہے، ہماری حکمت ہے! یہ زمانہ ہے، یہ وقت ہے جب پہچان کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے، یہ خسارہ جو زمانے نے اوڑھ رکھا ہے اس کی اوڑھنی پہ قربانی کے ستارے جب چمکتے ہیں تو ماہتاب جنم لیتے ہیں ..انہی ماہِ تاباں میں سے کوئ اک آفتاب ہوتے ہیں! حق موجود! تو موجود! حق موجود! وہ موجود! حق اللہ! حق باقی! حق، کافی، حق، شافی ...حق ھو حق ھو