لکھتا رہے ہے مجھے قلم، سیاہی جانے کس بخت سے نصیب ہے. شام کے دھندلکے میں القران سے جاری وصیت ہے .یہ کائنات کی مجھے نصیحت ہے کہ قائم رہنا ہوتا ہے جب تک کوئ خبر منشور الہی سے نشر نہ ہو. دل کے سودے ہوجائیں تو دل اپنا نہیں رہتا دل جسکا ہوتا ہے اس کے سامنے سر بہ خم ہوتا ہے. یہ وظیفہ ہے یہ صحیفہ ہے اور میں نے اپنی ذات کی قرات شروع کردی ... یہ ٹھہر ٹھہر کے پڑھا قران ہے، یہ جو عمل مجھے حکمت کی جانب لیے جارہا ہے. حکیم قران پاک ہے. مجھے قران پاک نے یہ نصیحت کی ہے کہ قران پاک محبت ہے. قران کی آیت آیت محبت سے لبریز ہے. افسوس کیا گیا حضرت انسان پر کہ وہ کیوں جاہل اور نادان ہے ... اللہ نے وقت کی سب سے برگزیدہ ہستی کو کہا
یا ایھا المدثر
اے کمبل اوڑھنے والے .... درون میں کملی کون سی ہوئی. کملی تھی حجاب کی. جب حجاب درز درز روشنی سے اقراء کا پیام لایا تو الہیات سے جسم مبارک لرزنے لگا ... اللہ کی شام بے نیازی والی ہے جبکہ بہترین عبد کو نیاز میں رہنا اسطرح کہ نیاز اللہ کے لیے بطور خیر ہدیہ تقسیم کی جائے. یہ الہیات کا نزول اپنی ذات کے لیے نہیں ہے. یہ ملحم آیت وارد ہوتی ہیں. وارد آیت نشان بن کے دل میں چمکتی ہے. جس دل میں اللہ کے نشان پڑجائے اللہ کے قدم تو نور حادث نور قدیم سے جا ملتا ہے اور مکمل ہونے لگتا ہے .... یہ نور وقت کے ساتھ ساتھ مکمل ہوتا جاتا ہے .. یہ نور جب مکمل ہوتا ہے تو کہتا ہے دل
اللہ ہے خیال، مجاز میں رحمن
اللہ ہے حق، مجاز میں رحمن
خشیت سے جسم ایسے لرزتا ہے جیسے پتے تیز ہوا سے بکھرنے لگتے ہیں. انسان خود میں سمٹنے لگتا ہے ..جب کملی بدل دی جاتی ہے، روشنی مل جاتی ہے تب انسان کے لیے منصب ہوتا ہے اور اسکو عہد نبھانا ہوتا ہے ... فرمایا جاتا ہے
قم فانذر
اللہ کریم محبت ہے محبت بانٹنے کا حکم مل جاتا ہے. حق و باطل کے معرکے ہوتے ہیں اور حق کی جیت ہوجاتی ہے. حق سچ ہے اور سچ لازوال ہے .... قلم نے لکھا ہے کہ خدا محبت ہے. خدا کی پہچان محبت سے ہے. خدا ماں کی وہ لوری ہے جو نور قدامت کی پہچان ہے ہم قدیم نور ازل سے اسکی تلاش میں ہے. یہ کھیل کھیلا جاتا ہے تاکہ کھوجی روح کھوج کرے اور جذب حق میں دھیان سے اس کی لگن قائم رکھے ... اللہ تو قائم ہے مگر عارف اللہ کو قائم رکھتا ہے. یہ پہچان ہے کہ اللہ العالی ہے مگر عارف ذات سے اسکی رفعت کو مذکور کرتا ہے توصیف کرتا ہے. جس کی رفعت کا تذکرہ ہوتا ہے وہ کون کررہا ہے یہ دیکھا جاتا ہے .. عارف اللہ کی وہ زمین ہے جس کو شمس کی سی تابناکی حاصل ہوتی ہے
سنو ... خدا قدیم ہے مگر جس کے لیے نور حادث ہے اس نے نقطے کی جانب سفر شروع کردیا ہے اس نے ع اور غ کا فرق مٹا دیا گویا نقطہ اس کی ذات ہے. یہی پہچان ہے کہ نقطے ہو جاؤ اور نقطے مٹادو ...نقطہ جس کو مل گیا اس پر الم کا نشان بطور قدم واجب ہے یہ آیات قدم ہیں جو دل پر ایسے پڑتے جیسے گرم پگھلا لوہا ہو دل ... نشان ہوتا ہی منور ہے