وہ نور جس نے مجھے پرنور کردیا .... وہ نور جس نے بصیرت کو بڑھا دیا ... وہ نور جس کی تجلی طور کو سرمہ کردیتی ہے ... وہ نور جس کی انتہا کوئی نہیں ہے کسی زیرِ زمین سرنگ سے داخل ہوتا ہے، واصل ہوتا ہے ....... پانی ہماری ذات ہے، قطرے کی کیا بساط ہے ... روشنی ہمارے سینے میں ....محفلِ نوری کے خزینے ہیں .... یہ ماہ و سال یہ انجم یہ کواکب ......سب ہیچ !
یہ کیسا دھواں ہے؟ یہ.کیسی مدھانی ہے جو مجھے دھن رہی ہے ... یہ نیل ہے یا سیلاب ہے ...کیا ہے یہ؟ تن کے جابجا آئنوں پہ. تجلی کا گمان ہوتا ہے ...جیسے کسی بڑے مقناطیس نے بہت زور سے کشش کی ہو ....
جھکے. سلام کیے دیتے ہیں. .یہ سنگ درِ جاناں کی تسبیح ہے عاصی. ... جس کو مل جائے خاک اس در کو اسکو وہی کافی ہے. .. روئی بدن اڑ رہا ہے جیون محشر بنا ہے. ... تن سے ہائے رے اللہ. کی صدائیں ہیں. ..
یہ بے نیازی جو برہنگی کا لباس ہے ...... ہم اسکی چاہت میں ہے .... لیلیٰ فکر محو ہوگئ ہے ... رات کی بانہوں نے بارش کا طوفان سہا ہے ...زمین ساری سرخ ہے .... اس سرخی پہ لا الہ الا اللہ. لکھا ہوا .... کوئی شہید ہوا ہے ....جانے کون اسکے لیے شہادت کے جام نوش کیا جاتا ہے ... ابھی کچھ ایسی بندش نہیں رہی کہ دل کی آوازیں سنائی دیتی ہے ...منظر. دکھائی دیتے ہیں. .. رہائی. ..کیسے ملے رہائی کہ شیر پنجرے میں قید ہے. ... پرندے کی مانند روح پھڑپھڑاتی نہیں، رہائی کو ترسی روح کہ پتا ہے خاکی پتلا اسکو سونے نہیں دے گا. ..یہ کیسی. قید ہے جسکی سلاخیں ساری سرخ ہیں. ..جسکی سلاخی پہ چاندی چمک رہی ہے. ..رہائی ملے نہ ملے اب کہ وہ ملے
اجمالی ہو جلالی ہو ...تجلی ہوتی تجلی ہے ... دل کیا پورا تن ہی مجلی ہے ..دل کملی بن جاتا ہے ...ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ. ہوتے جب سب سے نچلی زمین پہ پہنچتے ہیں ... تب. کعبہ کے گرد طوف ہوتا ہے ...اس کے بعد جلوہ