Thursday, November 19, 2020

میں ‏ترے ‏شوق ‏کا ‏آئنہ ‏ہوں

میں تیرے شوق کا آئنہ ہوں

انسانی فکر کی شمع جب بلندی کی جانب پرواز کرتی ہے تب اسے اپنی ذات کا آئنہ دکھنا شُروع ہوجاتا ہے ۔کبھی حسن مجسم بنتے ذات کا ساجد بن جاتا ہے تو کبھی من سے '' اللہ ھو '' کے ذکر کے سرمدی نغمے پھوٹنے شروع ہوجاتے ہیں ۔ عالمِ ذات میں اس کا وجود منقسم ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ ایک سے دو اور دو سے چار کرتے متعدد ذاتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ عاشق مرکز میں بیٹھا رہتا ہے اور اس کے منقسم متعدد آئنے ' اللہ ھو '' کے ضرب سے ضُو پاتے جاتے ہیں ، جیسے جیسے شمع  کی توجہ ان کی جانب ہوتی جاتی ہے تو وہ اٹھ کھڑے قلندی دھمال میں رقص کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ذات کے کچھ پنچھی آسمان کی جانب پرواز ہوجاتے  ہیں تو کچھ زمانوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں تو کچھ '' عالم ھو '' میں مست رہتے ہیں تو کچھ انوار و تجلیاں سمیٹنے کے لیے رواں دواں ہوتے تاکہ حاجی کہلا سکیں !  ایک ذات کے اتنے آئنے وجود میں تب آتے ہیں جب عاشق اس کی ذات میں مست ہوجاتا ہے ، اس کا نظارہ --- اس کا جلوہ مستی و سرور پیدا کرتا ہے اور تقسیم ذات ہستی کی طرف لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ 

تخلیق کی وجہ تب سمجھ میں آنے لگتے ہیں کہ رب نے اتنے لاتعداد آئنے بنائے ہیں جو زمانوں و مکان کے دائروں پر محیط ہیں ---- کچھ انبیاء کرام ہیں تو کچھ رسول ہیں تو کچھ ولیاء اللہ ہیں ۔۔۔۔۔۔خالق نے اپنی پہچان کو محمد صلی علیہ والہ وسلم کا نور بنایا ۔۔۔۔تمام ارواح خالق کے شوق کے آئنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جہاں ، مٹی ، پہاڑ ، سبزہ ، درخت کی وجہ تخلیق کی سمجھ آنے لگتی ہے ۔۔۔ارض و سماء کو نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کے لیے سجایا گیا ۔ زمانوں ، نبیوں کا نظام آپ کی ہستی کی خاطر بنایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔''نور'' ان مشاہدات میں بھی ہے اور ''نور ''خلیفہ الارض میں بھی ہے ، مشرف ذات انسان کی ہوئی کہ اس کو ''علم اور سوچ ''عطا کی جس کی وجہ سے فرق کرسکے کہ وہ کون ہے ؟ اس کی وجہِ تخلیق کیا ہے ؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شوق اور محبت کے عالم میں انسان کی تخلیق فرمائی ۔۔۔۔۔ انسان خود کو پہچان سکے گا تو رب کو پہچانے گا ۔۔۔

تخلیق آدم کی وجہ کیا ہے ؟ جب آدم علیہ سلام کو تخلیق کیا گیا تو سبھی ارواح کا اس وقت ظہور فرمادیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ انسان کی تخلیق ذات خدا وندی کی شوق کی خاطر ہوئی ۔۔۔۔۔۔ انسان اپنی پہچان کیسے کرے ؟ وہ کیسے جانے کہ رب کون ہے ؟ جب تک انسان کے اندر سوال پیدا نہیں ہوگا تب تک اس کے جاننے کی سعی بے کار جائے گی ۔ علم جو بنا سوال و احتیاج کے حاصل کیا گیا اس سے کوئی کامل فائدہ نہیں پہنچے گا ۔۔۔۔ سوچ کا سفر جب تک سوال سے شروع نہیں ہوتا تب تک پہچان کا راستہ ملتا نہیں ہے اور اس کی سمت کا تعین ہو نہیں پاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔سوال کرنے کے بعد اس پر غور و فکر کر تے، اس تفکر سے سبھی جوابات وجدان کی صورت دل میں اترنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔ کائنات کی تسخیر علم کے ذریعے ممکن ہے اور ذات کی تسخیر بنا کسی بھی شے  کو مسخر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذات کی تسخیر سوال سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔وجدان کی صورت جو علم دل میں اترتا ہے وہ اتنا  قوی ہوتا ہے کہ دنیا کا سارا علم اس علم کے آگے ہیچ ہے ۔۔۔۔۔۔