Sunday, November 22, 2020

لفظ فہم میں نہ ہوتے، تو کیا کرتے!

 لفظوں کی ہزارہا اقسام ہیں: کچھ خوشی و شادی کا بیان، کُچھ حسد، کینے کی جلن لیے، کچھ صحیفہ کی مانند دل میں اُترتے ہوئے، کچھ الہام کی مانند سینہ کھولتے ہوئے، کچھ کلیمی کی ضرب لیے ..کچھ خالق کا امر بنتے ازل کا حُکم رقم کیے ...کچھ لفظ جھوٹے ہوتے فریب دیتے ہیں تو کچھ حیات کا فلسفہ لیے،


لفظ لفظ تری آیت ہے

آیت سے آیت جڑی اک خزانہ

جوڑوں ان کو تو کبھی دیکھوں توڑ کے

سمجھ آنے لگے تو سر دھنتی رہوں میں

لفظ ترے ملحم ہوتے رہتے ہیں

نرم زمین ہوتی ہے تو روشن فلک ہوتا ہے

بارش ہوتی ہے آشیانے پر تو برق بھی گرتی ہے

موت کے بعد نیند ملتی جاتی ہے

یہ صدائے غنود، چھارہی غنود

یوں جیسے کہ مٹ رہی قیود

ذاکر کب سے ہیں محوِ سجود



آیت آیت کی مانند اک اک لفظ ہے جو لفظِ قران ہے. قران صحیفہِ الہامی ہے جب دلوں میں اُترتا ہے تب رقت سے دلِ موم کو کچھ سُوجتا نہیں مگر کہ سجدہ کیا جائے ...


اللہ کی مثال نور کی سی ہے، نور کو ہر زمین و آسمان کی ہر شے کا لازمہ قرار دیا ہے. وہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے. قران پاک کے آفاقی الفاظ ہر شے (جاندار، بے جان) پر یکساں پورا اترتے ہیں ... انسان بھی مثلِ نُور ہے کہ اس میں حجاب در حجاب نور پوشیدہ ہے.....نور کی مثال درخت کی سی ہے یہ شجر سے فلک تک اور فلک سے نور تلک ..........، فلک پر نور کا چراغ ہے .. یہ فلک ہی ہے جو اک طاق کی مانند ہے، جس کے بُلندی پر ایک روشن ستارہ ہے ...اس روشن ستارے کو شجر ِ زیتون جوڑتا ہے...گویا انجیر کا درخت توانا زیتون کے پتوں سے حاصل تیل سے ہوتا ہے. تب برق نور سے کلیمی حاصل ہوجاتی ہے ..یہی زیتون کا تیل ہے جو بنا آگ کے برقی نظام کو چلاتا ہے تو کبھی اس سے ایسی چنگاری پیدا ہوتی ہے کہ دیدِ خدا کا دعوی ہوجاتا تو کوئی کہتا ہے میں نہیں بولتا، میرا یار مجھ میں بولتا ہے ......


یہ لفظ دل پر اترے تو اک حال سے دوسرے حال کو چلے ..... یہ تجلیات جو لفظ لیے ہوتے ہیں آنکھ ان کو اچک لیتی ہے، جسم پر اختیار ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور نرمی سے ہچکیاں لگ جاتی ہے. یہی فلک ہے جہاں ستارہِ نور روشن ہے اور اس کو سیرابی زمین سے ملتی ہے، یہ زمین کسی کی بنجر تو کسی کی سخت تو کسی کی زرخیز تو کسی کی نرم ہوتی ہے ...زمین کو پانی نہ ملے تو فلک تک رسائی نہیِ ہوتی ہے ..جب زمین پانی سے تر ہوجاتی ہے تو ذکر ِحلقہ ِِ ھو سے سب کچھ فلک کی جانب گامزن ہوجاتا ہے اور نور کو نور ملنے لگتا ہے....


لفظ جو دل پر اترے، روح میں پیوست ہوجائے تو استعارات کھُلنے لگتے ہیں .... روح سنتی ہے جب ذکر میں کلام الہی ہو .... آیات کو آیات سے ملاتی ہچکیاں لیتی ہے کہ زلزے آجاتے ہیں .. ، روح کی اثر پذیری پانی کی طرح ہوتی ہے .... یہ زیتونِ مجلی جب دھیرے دھیرے پتوں کی نسوں سے ہوتا ستارہِ سحری کو پہنچتا ہے تو رات اور صبح اک مقام پر ٹھہر جاتے ہیں ...یہیں روح سجدہ کرتی ہے جب سجدہ رکوع سے شروع ہوجاتا ہے، ساجد سر اٹھاتا ہے تو سویرا ہوجاتا ہے ... یہی مقام ہے جو طلوعِ شمس کی مانند روشن آیت ہے .....


الہامی کتاب، قران پاک کے لفظ واقعات کو ظاہر کرتے ہیں گویا شاہد بھی ہیں مشہود بھی ہیں ... یہی اسرار افشاء ہونے پر باعثِ مسرت ہوتے ہیں ...



اللہ النورالسماوات و الارض

الحمد للہ رب العالمین و سلام علی المرسلین

لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ