ابھی کل پرسوں کی بات ہے کسی ادیب کی تحریر پڑھی ''خدا کہاں ہے '' جس میں یہ لکھا ہوا تھا خدا پاؤں کی ٹھوکر میں ہے . میں نے جھٹ سے نتیجہ اخذ کیا وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انسان جب جب گرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ مل جاتے ہیں . آئینے میں خود کو کھڑا کیا پوچھا کہ خدا کہاں ہے . ٹھک سے جواب آیا نور ہے اور نور دل میں ہوتا ہے ، پھر سوال کیا کیا دل کے پاؤں ہوتے ہیں جو خدا پاؤں میں ملتا ہے '' . پھر ہنسی آگئی ...
من نے پوچھا کیوں ہنس رہی ہوں . جواب دیا خدا اور اللہ میں بڑا فرق ہے . شکر ہے اس نے لفظی طور پر لکھا تھا ایسے... اس کو خدا اور اللہ لکھنے میں اللہ کی کبریائی کا لائیسنس مل گیا ہوگا ۔۔ مجھے دو باتیں یاد آگئیں جب میں نے کسی ابن آدم کو چندا اکٹھا کرتے دیکھا تاکہ وہ اپنے باپ کی سسکتی زندگی کو بچا لے . .. چندا کل 20 لاکھ کے قریب تھا وہ تو اکٹھا ہو گیا
اور اس سے پہلے وہ اپنا جگر اپنے باپ کے جگر میں اتارتا اس کے باپ کو اجل نے آ تھاما ... اس نے سوال کیا خدا کہاں ہے ، تم دنیا میں تباہی کے لئے آیے ہو . کسی نے اس کو سمجھایا بجھایا اور توبہ کروالی . کفر کر لیا چل کلمہ بھی پڑھ .... اس نے اللہ کو واحد مانا اس کو وہ مل جائے گا اس کا دل جب تھم جائے گا .. ایک اور قصہ یاد آتا ہے جب کسی دوست نے یہ سٹیٹس شئیر کیا ہوا تھا اے خدا تو کہاں ہے اگر تو نے اس کو دنیا میں ٹھوکروں کے لیے بلایا یا اس دنیا کا کوڑا بنانے کو لیے تو اس کو اٹھا لے ... اس پر بھی کفر کا فتوٰی لگ گیا۔۔۔لگنا بھی تھا ۔۔ خدا سے سوال وہ بھی گستاخانہ ۔۔ ...
ہمارا معاشرہ فتوٰی دینے میں آگے ہے . مگر دلوں میں نہیں نظر ڈالتا کہتا ہے فلاں ملحد ہے ۔دلوں سے نور کیوں جا رہا ہے .... لوگوں میں ایمان کم ہو گیا ہے ... حمزہ نام رکھنے سے کوئی حمزہ سید الشہدا تو نہیں بن جائے گا .۔ فاروق نام رکھنے سے کوئی فرق کرنا تو نہیں سیکھ سکتا ۔۔ اور فاطمہ نام رکھنے سے کوئی ویسا پاکیزہ ہو سکتا ہے
میں سوچ رہی ہوں.میں نے خدا تک پہنچنے کا سفر شروع کیا ہوا ہے۔ ۔۔. زادِ راہ نہیں ہے ورنہ جم کر کہتی دیکھو کیا خوب تیاری کی اس ذات سے ملنے کی ...میں نے بھی حسرتوں کا انبار دل میں مدفن کر لیا ہے ، کس منہ اس کے سامنے جاؤں گی ۔۔شرم تو آئے گی مگر ڈھٹائی پر رونا آتا ہے اسکے دینے پر اور اپنے ندیدے پن پر ۔۔
یہ دنیا تو ٹھکانہ ہے اور عارضی ٹھکانے پر حسرتوں کی قبر بن جاتی ہے ... پھر جب بے شمار قبریں بن جاتی ہیں دل میں اندھیرا چھا جاتا ہے ہم پوچھتے ہیں خدا کہاں ہے ... نور تمہیں ان مردہ نعشوں میں ملے گا کیا...؟ یا اس اندھیرے میں پاؤں مارتے رہو گے تو مل جائے گا ... نور تب ملے گا ان حسرتوں کی قبر نہ بناؤ اگر یہ قبر بن بھی جائیں تو سوگ تین دن کا مناؤ...اور حسرتوں کو حتی الاامکاں مرنے نہ دے .. جب یہ حسرتیں ناسور بن جائے ان زخموں پر پھائے رکھنے والا کوئی نہ ہو تو ہمیں اس کا وجود لایعنی سا لگتا ہے ..
دل سے ایک صدا آئی ہے ۔۔ مجھے لگا یہ نور کی آواز ہے ۔۔۔ پاک ذات کی جو دل کی میل کو دھو ڈالنا چاہتا ہے مجھ پر ایک سوال داغ ڈالا ۔۔
''اے خاک تو نے کبھی مجھے دیکھا ہے کیا ؟ کبھی میرا جلوہ کیا ہے ؟ کبھی میرے دیدار کی خواہش کی ہے ... تو دنیا میں خداؤں کے پیچھے بھاگتاہے جب وہ خدا تجھے چھوڑ جاتے ہیں تو میرے پاس آتا ہے پوچھتا ہے میں کہاں ہے ... جب تو نے مجھے اس پاک جگہ سے ہٹا کر کسی اور کوصنم بنایا تھا میں نے پوچھا تھا میں کہاں ہوں؟