ہم شاہ ہیں، ہم شاہوں کے شاہ ہیں. شاہ اسے کہتے ہیں جس نے ہستی کھو دی ہو. گو کہ ہست میں رہنے میں مزہ ہے، ہستی اس کی ہونی چاہیے شرط یہی ہے. یہ شرط اقبال بلند کے لیے ہے ورنہ تاجِ ہما کون پہنے گا ـ یہ پرواز بھی نصیبہ ہے، شاہی جسے ملے اس کا چمن تو اور ہے. اسکا سرمہ کوئی اور ہے. ... شانِ بے نیازی دیکھیے کہ نیاز میں نیاز سے گئے، حال میں حال سے گئے، مسافر قیل و قال سے گئے. مست تھے سارے، وقار سے گئے! یہ تاجِ ہما کس نے پہنا ہے؟ یہ شاہی کس کے لیے ہے؟ یہ کس نے وزارت کی بات کی ہے؟ یہ کس نے صدارت کی بات ہے؟ یہ کون مہمان خصوصی ہے؟ یہ سب سامنے ہے تو کون مسافر ہے جس نے شبِ دراز کے پردے سے جھانک کے محفل پائی ہے؟ یہ کیسی دستارِ رونمائی یے اس محفل میں ہے؟
تاجِ ہما کیا ہے؟ یہ شہزادگی کا نشان ہے جو سالار کو دیا جاتا ہے. یہ سالار کون ہوتا ہے؟ وہی ہوتی ہے جس کو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے! میرے بعد یہ ہیں، یعنی کہ نشست بھی خصوصی ہے اور مخصوص بھی ہے. فیصلہ بھی کوچکا ہے، فیصلے کی تسبیح بھی مکمل ہو رہی ہے فقط گنتی کے چند حروف باقی ہیں پھر کن کی لازوال تسبیح سے سب حاصل ہوگا، تب شاہ کو سلطنت دی جائی گئی. یہ شاہی والے جانیں گے کہ شاہ کون ہے اور مسافر کون ہے؟ مسافر دیکھتا رہ جائے گا اور شاہ کے پاس تاج ہما ہوگی
فرض کیا ہوگا؟ فرض کی ادائیگی؟ ادائیگی کیا ہے؟ واجب کو جاننا، محجوب کو حجاب میں رکھنا. ردا مت اٹھائی جائی ورنہ نعرہ مستانے لگانے والے جانتے کہ ان کے ساتھ حال کیا کیا جاتا ہے.
اے کن کی لازوال تسبیح
اے فیکون کے امر
اے روز کن کے زمانے
اے الست کی مستی
اے تجدید کی کنجی
اے نفی و اثبات کی مستی
اے راز الستی! اے راز الستی
اے فقیرِ چشتی! فقیرِ چشتی
اے نور قدامت! نور دوامت
اے نور امروز! اے نور فردا
سوار کے لیے شب ہے! شب میں سواری ہے! سوار کے لیے شب ہے! شب میں سواری ہے! یہ ہادی کی تلوار ہے! یہ امام کی تلوار ہے! یہ حسینی تلوار ہے! یہ لعل یمنی، عقیقِ زمنی یے! یہ مہ چمنی ہے! یہ گلاب سیرت ہے! یہ حال مست راہ میں حائل رہنمائی کی پوشاک ہے! مبارک ہو راہ نو! مبارک ہو راہ نو! قریب کے مقرب ہو! قریب کے شادی ہو! قریب کے حج ہو! قریب کے رگ رگ میں تو ہو! جب جلوہ ہو تو سجدہ لازم! اے راکب سجدہ بنتا ہے!