اس کی شہنائی گونج رہی ہے
روح مستی میں گھوم رہی ہے
جوگ پالتے کردیا اس نے روگی
اس کی بات میں خود کو میں بھولی
ضربِ عشق سے ذائقہِ موت ملا
کلُ نفس ذائقتہ الموت
یہ کون میرے سامنے ہے
میں کس کے سامنے ہوں
وہ میرے یا میں اس کے۔۔۔؟
ہجرت میں گمشدہ روح پہچانے کیسے؟
وہ جو اس جہاں کا سردار ہے جس کے اشارے سے سب کام چلتے ہیں ۔ جس نے میرے دل میں دھڑکن دی اور اس دھڑکن میں اپنے نام سے رونق دی ۔ اس کو جلوہ دل کی مٹی کو بہت نرم کردیتا ہے مگر اس کے کے ساتھ غم کی ایسی کیفیت لا حق ہوجاتی ہے جس کو میں کوئی بھی نام دینے سے قاصر ہوتی ہوں ۔یوں لگتا ہے کہ دل کو مٹھی میں بند کرکے نچوڑ دیا گیا ہے مگر ہر سانس شہادت دیتی نظر آئے اور زندگی آزار سے آزادی کی تمنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اس دل کو درد ملتا ہے مگر کون جانے کو کتنا درد ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ شاید صدیوں کا درد ملا ہے یا ایک پل میں صدی کا درد ۔۔۔۔۔۔! میرے سوا اس درد کو کون جان سکتا ہے کیونکہ اس کو سہنے والی میری اپنی ذات ہے مگر میں اپنی اوقات میں رکھی ہوئی اس سرخ پلیٹ کو دیکھتی ہوں جس میں چھپا وصل کا نقاب مجھے اپنی اوقات سے بڑھ کے دکھتا ہے ۔ بحرِ وجود سے نکلتی درد کے بے کراہ لہریں ساحل پر شور کرتی ہیں تو لفظوں کی صورت شور کی آواز میں بھی سن لیتی ہوں ۔ لہریں بحر سے علیحدہ ہوتے ہی اپنا وجود دھارتے مٹی میں مدغم ہوتی جاتی اور میں اپنی ذات کے منقسم ٹکروں کے رقص پر حیرت کناں! جونہی حیرت کے دریا میں غوطہ زنی کرتی ہوں تو اپنی حمد اپنے یار سے سن کے خراماں خراماں چلتے اس کے سامنے سر بسجود ہوجاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔
اے یار سجدہ بنتا ہے
سجدہ کے بعد جلوہ ہے
جلوہ کے بعد حیرت ہے
حیرت کے بعد کچھ نہیں ہے
میں غائب ہوں ! وہ موجود!
مقامِ شُکر کہ موت آن پُہنچی
مقامِ شُکر کہ میں چُن لی گئی
مقامِ شُکر کہ بعد موت زندہ ہوں
مقامِ شُکر کہ آبِ حیات پیا ہے !
مقامِ شُکر اس کو پہچانا ہے !
مقامِ شُکر کہ اس نے بنایا مجھے
مقامِ شُکر کہ میں اسکا جمال
مقام شکر کہ میں اس کا کمال
مقامِ شُکر کہ میں اس کے ساتھ
مقامِ شُکر کہ وہ ہے میرے پاس
مقامِ شکر کلمہ توحید میں پڑھا
مقامِ شکر کہ مرشدیت محمد کی ملی
اپنی ذات جب فنا کے سفر پر روانہ ہوئی ہے تب سے ہستی کے ذرہ ذرہ نڈھال مستی میں اپنا وجود کھوئے جارہا ہے اور بادل بنتے ابر کی شکل میں ڈھلتے برسنے کو تیار ۔۔۔۔۔۔! وہ جو شاہد ہے ، وہ جو مشہود ہے ! نور کو اسی کا طرز عمل ملا ہے جس پر وہ چلتے یار سنگ رقص کرے گی ۔ میرا نام آسمانوں میں نور کے نام سے لکھا ہے کہ لوح قلم پر میری پیدائش اسی نام پر رکھی گئی ۔ہستی تو نور بن کے بکھر جانی ہے اور باقی کچھ بھی نہیں بچنا ! اس کے ساتھ پر کچھ ایسی گمان ہوتا ہے کہ میرا وجود جبل النور کی مانند روشن ہے اور میں اپنی حمد میں خود مصروف ہوں گویا کہ میں یار کی تسبیح کرتی ہوں ۔دوست جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں اور میں نے بھی اپنے یار کو پہچان لیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تیرا نام نور ہے اور میں کہتی ہوں کہ مالک تو تو سراپا نور ہے ! نور کا کام یقین کی روشنی دینا ہے ۔ حق ! حق ! حق ! میں اس کے رکوع میں گم ہوں اور اس میں فنا ہوں ۔۔! فنا کے سفر میں پہ در پہ انکشافات نے وجود میں بھونچال بپا کردیا ہے اور حرارت بدن نے محشر کی سی گرمی بخش دی ہے ۔میری ہڈی ہڈی اس کی تسبیح میں گُم ہے ۔ اس محشر سے جسم روئی کی مانند بکھرتا جارہا ہے جیسے شمع اپنا بدن گھل گھل کے ختم کردیتی ہے بالکل اسی طرح ہڈی ہڈی سرمہ ہوتی جاتی ہے مگر کیا غم ! اس کی فنا کے حال میں کیا پروا؟ کیوں ہو پروا ؟ میں تو اس کی تسبیح میں ہوں اور مجھے لا الہ الا للہ کی تسبیح ملی ہوئی ہے ۔
اس نے نور کو آزادی دی ہے ، آزادی جو بعد موت کے ملتی ہے ! جو بعد فنا کے ملتی ہے ! جب اس سے فریاد کرتی ہوں کہ تجھے دیکھنا ہے ! اپنی دید تو کرادے نا ! تو وہ کہتا ہے کہ جاؤ ! نوریوں !
تڑپ دلِ مضطر کی بڑھ چکی ہے
ابر رحمت کی برسات ہوچکی ہے
اس کو تسلی دو کہ اس کی بات سن لی گئی ہے ۔ وہ پاس آتے ہی حمد شروع کرتے ہیں میں اپنے مالک کی تسبیح میں ان کے ساتھ ہوتی ہوں اور صدائے درود عاشقانہ مجھے مسحور کیے دیتی ہے
اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
درود کے ساتھ پیرکامل کی نظر ہوجائے تو دل میل کے دھل جاتے ہیں اور کثافتیں سب غائب ہوجاتی ہیں ۔دل توحیدی میخانہ بن جاتا ہے ۔ جام در جام پینے کے بعد میخانہ کو میخانے کی طلب ہوتی ہے کہ اب پیاس اس صحرا کی اسی در سے بجھ سکتی ہے کہ جانے کب اس در پر ملے حاضری اور کب ہو یار کی دید ، کب ہو مرشد کامل کا جلوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔! مرشد کامل کی نظر ، کرم ہے مگر اب دل دید کے سوا کچھ مانتا نہیں ہے ۔۔۔جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اسی در کی ہوجاؤں اور دل کے بجھے چراغ اسی در کی روشنی سے جلالوں ۔۔۔۔۔۔!
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں کھال اترنی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں زبان کھینچی جانی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں دار پر مستی کرنی ہے
درود کے ساتھ پیرکامل کی نظر ہوجائے تو دل میل کے دھل جاتے ہیں اور کثافتیں سب غائب ہوجاتی ہیں ۔دل توحیدی میخانہ بن جاتا ہے ۔ جام در جام پینے کے بعد میخانہ کو میخانے کی طلب ہوتی ہے کہ اب پیاس اس صحرا کی اسی در سے بجھ سکتی ہے کہ جانے کب اس در پر ملے حاضری اور کب ہو یار کی دید ، کب ہو مرشد کامل کا جلوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔! مرشد کامل کی نظر ، کرم ہے مگر اب دل دید کے سوا کچھ مانتا نہیں ہے ۔۔۔جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اسی در کی ہوجاؤں اور دل کے بجھے چراغ اسی در کی روشنی سے جلالوں ۔۔۔۔۔۔!
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں کھال اترنی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں زبان کھینچی جانی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں دار پر مستی کرنی ہے
۔۔۔۔