Thursday, November 26, 2020

ہم ‏تو ‏ڈوبے ‏صنم ‏تم ‏کو ‏بھی ‏لے ‏ڈوبے ‏

ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

زندگی میں قافلہ میرِ کارواں کے بغیر چلتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ اگر ایسا ہوتا تو انسان سالار ہوتا ۔ انسانی کی سالاری دو چیزوں پر منحصر ہے ، ایک اس کی عقل اور دوسرا اس کا وجدان ۔ وجدان کا ردھم زندگی کی روح اور عقل فطرت کا تغیر ہے ۔ دونوں میں کا ساتھ متوازن چلنا مشکل ہے ۔ آسان الفاظ میں جوش و ہوش کو متوازن کرنے سے انسانیت کی تعمیر ہوجاتی ہے ۔ اور ہر دو انتہائیں انسان کی دوسری سالاری کے جزو کو کو مقفل کر دیتی ہیں ۔

انسان اگر عقل کی انتہا کو لے کر چل پڑے تو اس کے پاس ''شک'' رہ جاتا ہے ، اور یہی ''شک'' اس کو انکار کرنے کی طرف لے جاتا ہے ۔ '' عقل '' کا کام ہر وہ بات رد کرنا ہے جو اس کے اپنے حواسِ خمسہ ماننے سے انکار کردیں گوکہ چیز موجود رہتی ہے مگر فرق عقل والے کو پڑتا ہے کہ اس کی سالاری مفلوج ہوجاتی ہے ۔ ایسا سالار انسانیت کا نائب بن سکتا ہے ؟ اگر بن جائے تو انقلاب شیطان کا ہوگا۔۔۔۔۔۔ ؟ شاید اس کا وعدہ شیطان نے کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

افسوس ! انسان کی ''انتہا ''اس کو دھوکے میں مبتلا کر دیتے ہے کہ انتہا کا دوسرا نام'' دھوکہ'' ہے ۔ گو کہ انتہا میں جانے والی بہت ذہین ہوتے ہیں مگر ان کی فطانت ان کے لیے ، ان کا ہی بنا ''جال'' ب ان کے سامنے لا کر ان کو پریشان کر دیتی ہے اور وہ اس جال میں کھو کر کہیں کہ نہیں رہتے۔۔۔۔ ۔!!! دو کشتیوں کے سوار انسان کی زندگی کیسی ہوگی ؟ اور ایک وقت آتا ہے کہ پاسبانِ عقل اپنے اختیارات خود '' شک '' کو پکڑا دیتے ہیں ۔ یہی وہی ''شک ''ہے جس کا ''بیج '' آدم کو جنت سے نکالے جانے کا باعث بنا۔ انسان کی سرشت میں یہ مادہ گوندھ دیا گیا ہے ۔ وہ اس سے کیسے بچ سکتا ہے ؟

اقبالیات : عقل گو آستاں سے دور نہیں ۔
اس کی قسمت میں حضور نہیں

اس وجہ سے اکثر احباب کو میں نے ''اقبالیات'' کا منکر دیکھا ہے یہ وہ انسان تھا کہ جس نے عقل و وجدان کی پاسداری کرتے ہوئے انسان کے نائب ہونے کے فرائض کی کمی پوری کردی ۔ اس انسان کی عقل نے بھی ''شکوہ ، یعنی شک '' کیا ، جو اس کی عاقلیت کا ثبوت ہے مگر اس کی ضرب ِ کلیم نے وجدانی کیف کا حق پورا ادا کی،ان کا لکھا شعر، شاید لاشعوری طور پر ان کی تعبیر ہے ۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس انسان کو بہت سے عاقل '' شرابی '' اور '' ملحد'' کہتے ہیں ۔ اس وقت جب میں لوگوں کے منہ سے یہ باتیں سنا کرتی تھی تو میرے دل میں شبہات جنم لیتے تھے کہ یہ انسان ''شرابی '' ہے کیا ؟ یہ انسان ملحد ہے کیا ۔۔۔۔؟ الحادِ فکر مغرب اور وجدانی شراب پینے والی شخص کی توقیر دنیا کے چند عاقل نہیں کر سکتے ہیں اور آج میرے سامنے دور ِ جدید کا اجتہادی نمونہ اقبال کی صورت میں ہے ، جس نے قران الحکیم کے حکمت کے گنجینہ اور پرا سرار الفاظ کو اپنے کلا م میں بند کر دیا اور پیغام دے دیا کہ لوگو '! ''عقل کے دروازے اور وجدان کے دروازے '' کھلے رکھنے سے پوری انسانیت کو فلاح مل جاتی ہے ۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال کی تقلید شروع کر دی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے راستے کی تقلید کی جائے کہ یہ وہی راستہ ہے جو انبیاء کا راستہ ہے ۔ اس راستے میں فکر و غور بھی ہے اور وجدان بھی ہے اور اسی راستے پر ایک اور دور ِ حاضر کی شخصیت بھی چل کر اپنا نمونہ بن گئ، جس کو دنیا قدرت اللہ شہاب کے نام سے جانتی ہے ۔اس لیے یہ سلسلہ
چلتا رہے گا ، راستہ بھی کھلا رہے گا ۔ مگر کون راستے کے اوپر آتا ہے یہ انسان کی اپنی بساط و مرضی ہے ۔

دوسری طرف وجدان کی بات کرتے ہوئے مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ انتہا ہے جس میں بقا تو ہے ، جس میں فلاح تو ہے مگر یہ فلاح و بقا صرف اور صرف انسان کی اپنی ذات کی ہے ۔ اس صورت میں غذا کی حق دار صرف اور صرف روح ہوتی ہے ۔ اور یہ وہ سلسلہ ہے جس پر بکھشو و سادھو چلتے ہیں ۔ گوکہ اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلے اس راستے پر آئے مگر ایک سلسلہ ایسا بھی ہے جس نے دین و دنیا دونوں کا ساتھ نبھایا ۔ سلسہ سہروردیہ کے برزگ حضرت بہا الدین زکریا ملتانی رح بہت بڑی اراضی کے مالک تھے ، وہ شاہ ِ وقت کی عنایات بھی رکھتے اور امراٰء سے ملنے والوں تحفوں کو وصول بھی کرتے ،اور اس کے ساتھ بادشاہوں کی محافل میں شریک بھی ہوتے مگر دنیا کا لباس پہن کر ، اس لباس کی '' لیروں '' سے دنیا والوں کو دیتے ، اور نوازتے رہے اور ساتھ میں عقل کے تمام اجزا کو مجتمع کرکے اپنے من کے گیان میں کھو کر وجدان سے روح کو لذتوں سے سرشار بھی کرتے رہے ۔ مگر ایسا ہے کہ دنیا میں روح کی انتہا پر چلنے والی مجنون بن کر بار گاہ خد میں مقبول و منظور ہوجاتے ہیں مگر وہ انسانیت کی فلاح کے لیے کم کم کر پاتے ہیں ۔

اسلام میں اس کی جانب اشارہ ہے کہ شک و شبہ میں نہ پڑو مگر اسلام نے غورو فکر کو سلاسل میں قید نہیں کیا ہے۔ اسلام متوازن سطحوں پرچلتا ہے ۔ اور جو لوگ درمیانی راہوں پر چلتے ہیں ، تاریخ ان کے ناموں کو متوازن شخصیت قرار دے کر دنیا والوں کو راستہ دکھاتی ہے کہ دنیا میں رہ کر فقیری اختیار کر ، دنیا کو دوسروں کے لیے سمجھو ، اپنے لیے نہ سمجھو ۔ اس لیے قرانِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ دین میں میانہ روی یا اعتدال اختیار کرو۔ یہی راستہ بھلائی و بہار کا ہے ، ہر دو انتہائیں زندگی میں خزاں بن کا روپ اختیار کرلیتی ہیں ۔ اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہیں ۔ پتا نہیں ! پتا نہیں ۔۔۔ ہم میں سے کتنے ڈوبیں گے اور ساتھ کتنوں کو لے ڈوبیں گے ۔

افسوس ! آج عقل نے انتہائے عقل کردی ، اور شعور ہی شعور رہ گیا ، اور اللہ کا خلیفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! شاید کہیں گم ہے ، شاید وہ موجود ہے ، شاید ہمیں اس کی سمت نہیں مل رہی ہے ، شاید ہمارے ''قطب نما ''نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، شاید مرکز سے رشتہ ریختہ ہوگیا ہے ۔اور پھر سب کی نظروں میں عاقل کا چہرہ سما جاتا ہے ۔