Sunday, November 22, 2020

خُدا نے میرے قلب میں صدا یہی لگائی ہے

 


خُدا نے میرے قلب میں صدا یہی لگائی ہے
سَدا یہ دُنیا اُس کے ہونے کی بَڑی گَواہی ہے

نمازی جب وَفورِ شوق سے ہو گر قَیام میں
وہ مُنہَمک ہو کے خُدا سے ہوتا ہے کلام میں

رُتوں کو بَدل دے یار کے حُضور ایک سجدہ
وِصال میں کمالِ حرفِ دل سے ہو گیا ہے بندہ

یہ اَجنبی ہے کون؟ رقص میں یہی ہے جھومَتا
دُھواں یہ کیسا نعش کے چَہار سو ہے گھومتا

حُسینی لعل نے جواہِرات سب لُٹا دیے
سَخا کے دریا کربلا کی ریت میں بَہا دِیے


یہ اقتَباسِ زندَگی مِلا جو کربَلا سے ہے
لٹا دو سارا مال جو خدا سے پایا تم نے ہے


سکوت میں وہ نغمہِ بہاراں تو سُنا کرو
ثَبات کی نہی میں یُوں ہی جستجو کیا کرو


دُعا کو ہاتھ جب اُٹھے، وہ کام پورا تب ہوا
خدا سے مانگنا تو ربط کا بہانہ ہے بنا


قَضا کا عہدہ دے فَرشتوں کو،یہ اس کی بات ہے
خلیفہ انس کو بنایا ہے، یہ اس کی ذات ہے


وہ عالی، وہ خبیر، وہ جلیل، وہ شہید ہے
صفات میں نہاں وہی، خیال عین دید ہے


شبیر نے جو رسمِ حج اَدا کی تھی سجود میں
حُسینی رنگ کیوں رَہے جَہاں میں پھر حدود میں