درد سے ہلالِ نو کی تخلیق
حسن سے گل رو کی تخلیقصاحبو! دل تھام کے رکھو. تھام کے دل دھک دھک کی صدا میں یارِ من کی پُکار سُنو! حسرت ہے یارِ من کی سنی نَہیں. خلوت جلوت میں یار من نے سنایا اک قصہ. اک درویش روٹی کھا کے اللہ اللہ کی ضرب لگاتا ۔۔۔ اللہ اللہ جاری ہوا کھانے سے ۔۔۔ درویش نے پوچھا ۔۔۔ مرے پیٹ میں پُکار کیسی
اس نے کہا
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
درویش نے کہا: تجھے خدا نے محفوظ رکھا تو آہ و بکا کیسی؟
جوابا وہ گویا ہوئی ۔۔۔ وادی ء من کے سیپ جب خیال میں ڈھلیں تو آنکھ حیرت زدہ، دل پگھل جائے. اگر میں محفوظ رہی تو تری معرفت مجھے جلا دے گی ... تب و تاب کو سہنے کا حوصلہ تو پہاڑ میں نہیں ... اسکے بعد درویش نے روٹی کو خود سے الگ کرلیا اور یکسو ہو کے متوجہ ہوگیا ...توجہ کے بعد نہ خرد رہی نہ جنون رہا ۔۔۔ نہ فراق کا نوحہ ۔۔۔۔۔ نہ وصال کا قصیدہ ..اک موسم چھا گیا
الحی القیوم
لا تاخذہ سنتہ ولا نوم
بس مرگیا ۔۔۔ وہ مرا نہیں تھا
دردِ زہ کے بعد تخلیق ۔۔۔ یہ میرے حرفِ نو ۔۔۔ جن کے خمیر میں تری چاہت کے رنگ
مرے کوزہ گر!
تو کَہاں ہے؟
میں نے ویسے زمین کو درد دیا، جیسا پاؤں سے بہتا لَہو عیاں ہے
دردِ زہ!
تخلیق!
اک منجمد پانی سے نئی روشنی
اک برق سے نئے اشجار
اشجار سے برقِ نو
درد زہ!
پتھر صم عم بکم
درد زہ!
وجلت قلوبھم کی مثالیں کھالیں نرم
دردِ زہ!
شر البریہ سے شیطان ۔۔
خیر البریہ سے انسان ۔۔۔
درد کے چہرے میں رحمان
تخلیق کا رنگ صبغتہ اللہ
سنو چارہ گر
اک بار ملو
حرف سے بات کرو
لفظوں کی سازش پکڑو
سانس کی مالا میں روشنی ہے
حریص ہو جاؤ ایسی مثال
رحمت کے لیے حریص
کرم کے لیے، فضل کے لیے
درد زہ!
زمین ہلا دی گئی
نکل رہا زمین سے شر و خیر کا تناسب ...نکل رہا ہے،نکل رہا ہے ...
ستارے سے ملو!
روشنی ہو گی
آبشار کے طریق بہے گا وہ لافانی چشمہ ..جس میں پربت والجبال اوتاد سے والجبال نسفت کی مثال ہوں گے
تری کیا مثال ہوگی!
ماں صنف سے بے نیاز رہی ۔۔۔۔
ماں بے نیاز یے ۔۔۔
ماں لا محیط یے
تخلیق سے نیلگوں مادہ وجود!
اے عینِ ظہور بتا!
درد کتنا سہا؟
بتا ترے آنگن کے سیپ کس کو ملیں
ملن واجب ...ملن واجب ...ملن واجب
.لاشریک لہ ۔۔ خود کی نفی ... جہل کی نفی ...علم میں اضافہ ہوگا ۔۔ تسلیم کا اثبات