Thursday, October 29, 2020

محبت

محبت کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ میری زندگی میں  نظریات کے تغیر نے محبت کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ نظریہ محبت روحوں کے تعلقات سے منبطق ہے. روح کے کششی سرے قربت اور مخالف سرے مخالفت میں جاتے ہیں. بنیادی طور پر درجہ بندی کشش اور مخالفت کی ہوتی ہے. اِن روحوں سے نکلتی ''نورانی شعاعیں'' ایک سپیکڑیم بناتی ہیں. ارواح کی کشش کا  دائرہ بڑا یا   چھوٹا ہوسکتا ہے.اور ان کی دوسری درجہ بندی دائروی وسعت کرتی ہے اور یوں انواع و اقسام کی ارواح تغیر کے ساتھ مرکز کے ساتھ مخالفت یا کشش کرتی ہیں. جن کا حلقہِ کشش بڑا ہوتا ہے وہی مرکز سے قریب ہوتی ہیں.

لوگ کہتے ہیں محبت کا سرچشمہ بدن ہے. انصال سے انتقال ہوتا ہے  اور انتقال حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی محبت اصل محبت ہے کہ محبت روپ بدلتی ہے یا کہ لیں لباس بدلتی ہے. محبت پھر خود ملبوس ہے جس کو میں اوڑھ لوں اور زمانے کے رواج کے مطابق اوڑھنی اتار پھینک دوں . دوسری صورت میں انصال کے بعد اتصال اور انتقال میں اس قدر موافقت ہو کہ یہ روح اور خاک دونوں کا ملزوم ٹھہرتی ہیں. محبت ملبوس کی طرح نہیں ہوتی مگر اس میں خاک ایک ملاوٹ کی طرح ہوتی ہے. دل نہ ہو میلا، بدن میلا اور رنگ کچیلا ..۔۔۔

محبت کی پہلی سیڑھی خاک سے چلتی روح کو بھنگ پلاتی ہے اور افیون کے دھونی میں 'من نشیلا ' تن بھلا ' بیٹھے لوگ ''دائروی رقص'' شروع کرتے نظر آتے ہیں اس رقص میں روح کے ساتھ ساتھ  جسم بھی  گھومتا ہے ۔اس پہیے  (جسم)کو روح تحریک دیتی رہتی ہے یہاں تک کا تن اور من کا ہوش جاتا رہتا ہے. تب ایک روح تقسیم در تقسیم کے بعد تن کی نفی کا کلمہ پڑھ لیتی ہے اور مقام عین پالیتی ہے.

روحانی انتقال بجسمانی کے فوقیت رکھتا ہے. یہ درجہ آگہی کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے. آگہی جنون بھی ہے اور عذاب بھی۔۔۔۔.  یہ فہم بھی ہے اور ادراک بھی ۔۔۔۔۔ یہ راز بھی ہے اور انکشاف بھی ۔۔۔۔!!!

دروازے تک پہنچنے کے لیے لمحوں کی تپسا بھی اہمیت رکھتی ہے کہ پل بھر میں صدی بھر کا درد دے دیا جاتا ہے.اور پل پل درد کا انجیکشن ہوش سے ماورا کیے رکھتا ہے اور عاشق عین دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے. ''

کیا دروازے کھٹکھٹاؤ گے؟ شرم و آداب کے تمام التزامات کو بھول جاؤ گے؟''

یہاں روح سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے.۔۔  موسیقی کی تال پر ناچنے والے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک پہنچا دیے جاتے ہیں کہ اس جہاں میں ہوش و عقل ناکام و نامراد پلٹتے ہیں ۔ یہ سرشاری و مستی ، یہ عالمِ بے خبری انکشاف کے  دروازے ہی  نہاں کو عیاں کرتی ہے ۔ کہنے کو  مد ہوشی بھی ایک نعمت ہے

Saturday, October 24, 2020

یقین

خدا سے تعلق یقین کا ہے ـ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد  ہے ـ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت!  درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ـــ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ـ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ـ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ـ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ـ یار کی آمد کی شادیانے ـ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ــ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ـ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ـ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ــ پیکر در پیکر اور میں مسحور ــــ خدا تو ایک ہی ہے ـ دوئی تو دھوکا ہے ـ ہجرت پاگل پن ہے ـ وصل خواب ہے ـ مبدا سے جدا کب تھے؟  اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ـ کن سے نفخ کیے گئے ــ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ـ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہےـــ  ساکن ساکن ہے وجود ــ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ـ جا بجا نور ـ جابجا نوری پوشاکیں ـــ نہ خوف ـ نہ اندیشہ،  یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ـ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے،  جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ـ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ـ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ـ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ـ بچا نہ کچھ فقط اک آس ـ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟  یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ـ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا،  تن کے آئنوں میں دیکھا،  نقش میں روئے یار ـ مل گیا وہی ـ سہاگن باگ لگی ـ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ـ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ـ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ـاس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ـ من و تو ــ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت،  وہی باطن کی آیت ـ وہی مشہد،  وہ مشہود،  وہی شاہد،  وہ شہید ــ وہی اعلی،  وہی برتر ـــ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں

Tuesday, October 20, 2020

کعبہ ‏تو ‏دیکھ ‏چکے ‏ہو ‏

کعبہ تو دیکھ چکے ہو، مجھے دیکھنے والے کم کم ہیں!  مجھے دیکھو گے؟  تجھے  نہ دیکھیں تو کسے دیکھیں ـــــ دکھ جائے گا تو، مٹ جائیں گے ہم. مستقبل کے مصدر حال میں ضم ہوں گے،  ماضی کے صیغہ مٹ جائیں گے اور سرر میں رقص کرے گا عالم. عالم میں معلوم تو میرا خدا ہے. میں کچھ نہیں،  میرا عشق معلوم ہے! میں کچھ نہیں،  مرشد معلوم ہے!  فنا کچھ نہیں، بقا کچھ نہیں.ـ اول حرف،  حرف بقا سے ملا ہے!  اک دھاگا دوجے میں پیوست ہے. وصال ہے!  حال ہے!  کمال ہے!  دل جاناں کے لیے بیحال ہے!  رت لگن کی ہے!  جلن نہیں ہے!  چاندنی والی رات ہے!  شامِ حنا کے سورج کو کہو کہ چاند کی بینائی لوٹ آئی ہے. چاند یک ٹک سو تجھے دیکھی جائے ہے. چہار سو ترا جلوہ ہے. عالم عالم میں تو ہمراز ہے. اک محفل میں وجی تار اللہ کی!  بس تار وجدی رووے گی اور سیر کرتا رہے گا جہاں جہاں میں یہ مکان. مکان بھلا سیر کیسے کرے گا؟  لامکان کی بلندی والا پرندہ ہے جو میرے ساتھ ہے!  میں حلقہ ء کامرانی میں ہوں!  گویا وجدان قرطاس بن چکا ہے اور قلم لفظ کو بکھیر رہا ہے


کون جانے حقیقت اس کی جس نے راز بشریت کو پالیا ہو!  دعائیں کے زیر سایہ جانے کتنے دل فیض یاب ہوئے ہوں جس کے. اے حقیقت سن!  وہ تو تری زمین کی کوکھ سے نکلا ہیرا،  تجھ میں آبسا. تو نے خیال کیا یکجائی سے پیچھے کچھ نہیں!  یکجائی بعید نہیں!  سن کے اللہ اکیلا ہے،  اللہ واحد ہے!  اللہ تنہا ہے!  اللہ کی گواہی کون دیتا ہے؟  انبیاء کرام،  ایسے جو احسن الخالقین ــ
بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی

مجھے ‏خدا ‏نہیں ‏ملتا ‏

مجھے خدا نہیں ملتا! اس کو مجسم جلوے کو پانا دور کی بات، مجھے اُسکا عکس نہیں ملتا!  اس کی جانب لُو کی تو وجود دُھواں ہوگیا مگر اسکا احساس تک نہیں ملتا. مجھ میں ملوہیت کو مٹی میں گوندھا گیا ہے.  یہ ملمع کاری کے رشتے مجھ سے نبھیں گے کیسے جب اصل سے تعلق نہیں جڑتا.  قران پاک کے ورق ورق میں آیت آیت نشانی.  اس نشانی کا مجھ پر عکس نہیں پڑھتا کیونکہ اندھا دل سنے گا کیا!  دیکھے گا کیا؟  جہالت میں مجھ سے آگے نکلتا نہیں کوئی مجھے علم دیتا نہیں کہ مرا نفس شیطان سے ساز باز کرلیتا ہے. 

خُدا کیسے ملے گا.  ہم سُنتے ہیں خدا جستجو سے ملتا ہے اور عکس محِبوب بندوں میں ملتا ہے. محبوبیت کے اعلی درجہ پر فائز ہستی سے کون مجھے ملائے گا؟  میرا نفس؟  یہ بُہت کمینہ ہے، بُہت جاہل ہے، اس کو کیا آداب محافل کے ...

مگر وہ تو کہتا ہے وہ جو کرم کرے تو دِل میں سَما جاتا ہے. دل سے دنیا تک اسی کی صدا لگتی ہے. وہی انسان کا بُوجھ اٹھالیتا ہے اس کو صدا دیتے کہ میں ہوں اس بندے کے پاس جو صدائیں لگائے

بندہ یہ صدا سنتا نہیں کیونکہ سماعت سے دور اپنی دُنیا کی اندھیر نگری میں گُم رب سے بے نیاز ہوجاتا ہے. رب سے بڑا بے نیاز کون ہے؟  بندہ کیسے کیسے الزام رب پر دھر جاتا ہے مگر وہ لازوال مامتا کا حامل بار بار اپنی جناب میں لیتا ہے "آجا، تُجھے سنبھال لوں، تو میری امید کے جُگنو سے پروان چڑھا، تجھے شمع کی ضوفشانی دکھادوں، تجھے اصل شمع سے ملا دوں ...

بندہ ڈرتا رہتا ہے کہ وہ تو دل کو منور کردے گا مگر اپنی ملوہیت کو الوہیت سے منسوب کردے گا اور منصور کیطرح نعرہ انالحق کا سزوار ٹھہرے گا. وہ تو ہر ہر شے میں مُجلی ہے. اشجار میں،  پہاڑ میں، پانی میں، ہوا میں، ریت میں، مٹی میں، زمین کی کھیتی میں،  آسمان میں، ستاروں میں، ابحار میں، طیور میں.... اسکی تجلی کی صفت ہر اک شے میں معکوس ہے مگر معکوس کا اصل کہاں ہے؟  وہ کہاں ہے؟  تجلی صفاتی کہاں ذات سے ملتی ہے؟  تلاش کے تمام پارے جب اک قران کی صورت بنیں گے تب وحدہ لاشریک ظاہر ہوگا

Friday, October 16, 2020

یاد ‏کی ‏گلی

آج یاد کی بے نام گلی میں سڑکیں بڑی صاف ستھری ہیں. موسم  مگر اُداس ہے جیسے سکون میں حزن ہے . اس سنگم کو بہار و خزاں کے اوائل میں محسوس کیا جاتا ہے کہ بھیگتا دسمبر،  بکھرتی چاندنی، مہکتے پھول،  لہلپاتے کھیت،  تان کے کھڑے درخت،  آبشاروں کی موسیقیت سب کچھ کتنا پیارا ہے!  دستک!  اک دستک سنائی دی ... یہ کیسی دستک ہے؟  یہ  تو صدیوں پرانی آواز ہے،  نیلا آکاش میرے آئنوں کے بکھرے ٹوٹے کی شبیہ ہے ..اے سفید رنگت  والے ملیح چہرے کے حامل آبشار،  یہ رنگت تم نے کہاں سے چرائی؟  کیا پہاڑ جو بھورے رنگ کا ہے اس کے پیٹ سے نکلے ہو، اس لیے نور سے چمک رہے ہو ... کیا تم فضا کو جانتے ہو؟  مجھے علم ہے تم نے اس کی گود میں خود کے لیے بہت سا سکون اکٹھا کیا .. یہ ہلچل ... یہ بے نیازی کہ شانِ بے نیازی ....  یہ احساسِ بےخودی کی ضُو،  یہ کہسار جو جھکا شان توصیف کے لفظوں کی تسبیح میں ہے کہ گوجنتے ہیں کو ہسار، بکھرتے ہیں آبشار اور ملتا ہے آوازہ 

ورفعنا لک ذکرک 
یہ تو کن کی صدا ئے کہ الست کا نغمہ جانے کس صدی کی گود میں سورہا ہے تخلیق کا سوتا جاگ اٹھا ہے،  نیند کی وادی سے کہو جاگ جائے ... تو سجدوں میں آذانِ احدیت کی باتیں ....
فاذکرونی اذکرکم

19Dec, 2017 
بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی

Thursday, October 15, 2020

حرف ‏مدعا

کبھی کَبھی  حَرف مدعا سے دُعا بن کے لبوں کو بن چھوئے اَدا ہوتے ہیں، حرفِ تسکین باوُضو دل کا مسکن ہوتے ہیں ۔ سجدہِ نشاط ہست کھوجانے کے بعد میسرِ قلب کو سامانِ تسکین بہم پُہنچاتا ہے ۔ یہ جو لفظِ اشارتاً بولے بَیاں میں نہاں ہوتے ہیں ، حجاب میں ملبوس ،استعاروں کے باسی ہوتے ہیں ، ان کو سَمجھنے کے لیے گہرائی میں اُترنا پَڑتا ہے ۔ گہرائی ، سیپ سمندر ،  دل دریا ،راوی قلندر ۔۔۔۔ اس  گہرائی سے گیرائی میں ملبوس لفظ اپنے معانی عیاں نہیں ہونے دیتے مگر اس دل تک پہنچتے ہیں جو اتنا ہی گہرا ہوتا ہے

لکھنا ‏حل ‏نہ ‏تھا ‏: خط

میں نے خَط لکھا اور لکھ کے اسکو بَہا دیا.  یہ خطوط تو عدم سے وجود اور وجود سے عدم تک پہنچتے رہے. میں بھی تو اسکا خط تھی مگر میرا چہرہ کس سورہ میں لکھا تھا،  حم کہتے کہتے نگاہ رک جاتی ہے اور نگاہ یٰسین پر ٹِک جاتی ہے.  حم کے انتظار میں ہجرت نے کتنے اژدہام میرے وجود میں اتارے دیے. لباسِ تار تار کو رفوگری سے ہو کیا کام،  اس کو چارہ گری سے ہو کیا کام. مگر پھر نقطہ یاد آتا ہے میں اک نقطہ تھا اس نے خط کھینچ کے مجھے بھیجا. میں نے سمجھا کہ میں دور ہوِ وہ خط گھٹ رہا ہے جیسے میں نے زمانی نور کو پالیا ہو جیسا وہ حم کی منزل پر مستقیم ہو اور حبِ حسینی جس نے خمیر کو جکڑ رکھا ہے اس کے بنا یہ کام ناتمام تھا. کسی نے کہا چلو قافلہِ عشاق میں اک سواری تمھاری تو کب سے خالی تھی مگر تم نے آنے میں دیر کی اور میں نے کہا کہ میں کس جگہ ہوں کہ میں نے نقطے کو نقطے جیسا پایا نہیں ابھی میرا خط ابھی میرے سامنے ہے. زمانی نور مکانی نور سے ملا نہیں. جب ملا نہیں سب جھوٹ ہے سب مایا. زمانے کو مکان میں آنا تھا یا مکان کو زمان میں جانا تھا. ہالہ ء نور ہے نہیں. بیساکھیوں کے ساتھ چل نہیں سکتا دل اڑان کیسی؟  اے دل تو اڑ جا!  غائب ہو جا!  تو مت پروا کر،  ترا ہونا ترا نہ ہونا ہے.  تو جسم موجود میں نہیں بلکہ زمانے کے ساتھ ہے


لکھنا  حل نہ تھا مگر حل تو ملا نہیں. اس لیے مدعا کہنے کو کہہ دیا جائے تو غم کو حوصلہ مل جاتا ہے یہ کس دل میں ٹھہرا ہے بولو تو سب دل اک جیسے   .بولو تو دل میں ذات اک جیسی. بولو تو رنگ بھی اک. بولو تو قزح بوند سے بنتی ہے اور رنگ خوشی دے دیتے بولو کہ نہی کے امر میں کن کا نقارہ وجا ہے اور وج جاوے اللہ کی تار ہوجاوے دل دیون درود دی پکار. جے کہوے سرکار سرکار،  ویکھاں میں اونہاں نے بار بار .... شام لٹ گئی میری تے رات وچ شمس دی لالی سی.

سر ‏دست ‏میرے ‏لفظ ‏خالی.ہیں

سر دست میرے میرے لفظ ہیں. خالی لفظ ہیں نہیں یہ خالی نہیں. ان میں اشک ہیں. یہ حرف دل ہیں.  ظاہر سے رنگ ان کا گہرا نہیں مگر اندر سرسبز ہے. ہدیہ اک ہے یعنی دل اک ہے جو نذر میں جاچکا ہے تو باقی بچتا ہے خالی دل. نَذر مانو تو پوری کرو 
نَذر کیسے پوری ہو؟
میرا دھیان بدل گیا 
میرا گیان بدل گیا 
حرف ترجمان میرا 
حرف نگہبان میرا 
میں نے لکھا صنم کو خط 
خالی تھے لفظ، حروف کے جام لیے 
لوگ سمجھے خالی کاغذ ہے 
دل سے جس جس نے دیکھا تو جذبات سے سینہ منور پایا 
گویا روئے احمر کو پایا 
تم کو پتا روئے احمر کیا ہے؟
وہ جس کے یاقوتی لب ہیں 
کس کے لب ہیں یاقوت جیسے
وہ جن کی زلف کے صبا ناز اٹھائے 
وہ جن کے کاندھے پر جھلکتی نور کی پوشاک کسی بیان میں نہ ہو 
وہ روئے یار امام حسین!  جن کی غایت نظر سے چاند چھپ جاتا ہے! بھلا اک سینے میں دو دل کیسے ہوں؟  سو زمانہ سمجھتا ہے زمین نے لکھا ہے جبکہ حرف بتاتے ہیں مطلعِ انوار بدلا ہے!  کسو سمجھاؤ کہ ہم نے جانے یہ انداز کس سے سیکھا ہے کہ نہ جانے ہم کو کونسی زمین میں جائے پناہ ملے یا ہم کسی فلک سے معلق زیست گزارن گے مگر دیکھیو صبا!  ہم راہ تکا کریں گے اس راہ کی جس راہ پر خونِ بہ لعل بہ جواہر گرا اور زمین نے جذب کیا تو حسرت دل کو ملے کہ زمین ہماری کس کام کی!  کاش دل پر گرا ہوتا!  کاش کہ یہ رقص سر بازار نہ ہوتا ہے کاش دینے والا ہاتھ میرا ہوتا، کاش کبھی لیا نہ ہوتا کاش دعا میری عرش سے ٹکرا جاتی،  کاش خدا کا جلال،  جمال مجھے باکمال کردیتا، کاش رویت کا عکس مجھے آئنہ کر.دیتا کاش میں! یہ کاش سے نکلے لفظ کانچ ہوئے!  ٹوٹ گئے اور پھر بھی رہا ترا وجود. تری ہست!  تری نمود! میں رہا سنگ اور قرار پایا ترا وجود 

چلیں اشک بندی کریں! محفل سجے گی!  چلو نعت کہیں محفل ہوگی. چلو خدمت کریں محفل ہوگی چلو پیار تقسیم کریں محفل ہوگی چلو کہ محبوب بلائے گا! چلو چلو ورنہ چلا نہ جائے رحمت افلاک سے برسے گی اور جواب نہ ہوگا!  چلو اظہار میں نہ پڑو!  چلو رنگ سے بچو!  چلو اک رنگ میں ڈھل جاؤ چلو اک چاہت والی کی چاہت اپنا لو 

چلو درود پڑھیں!  چلو آشنا سے آشنائی کو بہ آواز بلند پڑھیں!  چلو دل کے مالک کو تعریف کہنے دیں یا محمد کہتے اور نکل جائیں نفس کے حجابات سے!  چلو مالک جانے اس کا محبوب جانے مگر غافل تو نے مانا نہیں مجھے!  ارے غافل تو نے پہچانا نہیں مجھے!  ارے غافل تونے چال پہ نظر کی،  حال پہ دھیان کر!  غافل کو غفلت نہ لے ڈوبے!  غافل کا خیال خیال الوہی سے ملا جائے گا!  غافل پھر نہ غافل ہوگا اور عقل کا چولا ساتھ نہ ہوگا 

چلیں ہم چلے!  ناز بہ ندا اس کے پاس. اس کے ہاتھوں میں شہنائی ہے اور شہنائی محبت والی ہے اس نے کنگن پہنا ہے اور وہ کنگن محبت والا ہے. بجے گی شہنائی اندھیرا مٹے گا اور سویرا ہوگا. کیوں ہے تجھے مہجوری کہ تری مری کیا دوری. ترا مرا ساتھ ضروری اور خودی میں جانا ضروری!  تو چل!  تو چل دل میں جھانک!  اندر تو نور ہے اور رولا ڈالا ہے کہ اندھیرا ہے!  ارے غافل اٹھ!  اٹھ   اسکا ذکر پکڑ لے!  اس نے تجھے تھاما ہے تو بھی تھام لے اسکو. تو رہ کے رینا سیکھ لے.
احساس!  احساس نے دلاسہ دیا!  محبت کا کاسہ دیا!

درد ‏سے ‏کہو ‏مجھ ‏سے ‏ملے

درد سے کہو مجھ سے ملے. اسکو تازگی ملے ... درد سے کہو آئے مجھ میں سمائے،  اسے روح ملے،  درد سے کہو، مجھ سے لمحہ لے اسے صدیاں ملیں درد سے کہو ستارے سے ملے اور روشنی دے. تلاش ہے. جی تلاش ہے  تلاش ہے اس کی جس کی مکھ چن نے دیوانہ کیا. وہ سوہنا چھپ گیا اور جان ہماری بن آئی. درد مل گیا... اے دل میں پڑی آرزو ..تو پرواز کر جا،  تجھے تو آشیانہ ملے میں تو ازل سے بے ٹھکانہ ہوں. مجھے ہجرت کا روگ ملا ہے اور وصلت کی لاگ لگی ہے. نہ جیا جائے جائے نہ مرا جائے. وہ آئیں تو مرجائیں گے اور مر کے جی جائیں گے ...کوئی تو مارے من کی میں کو .کوئ تو چلائے آرزو کو نیَّا میں .کوئ سفینہ دے دے. کوئ پیار کا اظہار لاگ دے کوئ جیون کو پیار دے کوئ تو دکھ کو اظہار دے کوئ تو شان میں سنوار دے کوئ تو چلمن ہٹا دے کوئ تو ایسے ہو. نہ ملے تو کوئ تو کا کریں گے بس مانگتے رہیں گے جلوہ ملے گا جلوہ اور کام ہوگا اپنا. ملے گا وہ سپنا جس میں اوج بشریت کو دکھایا گیا ملی گی رات میں رات. ملے گی کہانی کی مثال ملے گی جنون کو کبھی منزل. عشاق کا قافلہ ہے چلو سید! چلو سید!  چلو سید


یہ سب کہنے کہنے میں کہا نہیں جاتا ہے اور بات ایسے کہ رہا نہیں جاتا . کوئی خالی پن کی دیوار کو محبت کے گارے بھر دے تو عمارت شاندار ہو . کھنڈر سے کیا کہا جائے گا. کھنڈر کیا سنے گا؟  اے دل!  تو دل بن جا محبوب کا. محبوب کا دل ہونے کے لیے دل ہونا ضروری ہے . دل نہیں پاس اور سنے کون؟  دل دے کون؟ خون نہیں دیتا کون تو دل کون دے . اے ابتلا،  انتہا سے ملا!  اے ابتلا،  ابتدا میں نہ رکھ!  اے ابتلا!  چل در محبوب بن کے ہوا کے دوش اڑا،  کوئے جاناں کی خاک بنا. سنگ در جاناں بنا.  ان سے بات بنے اور دل چراغ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جائے. ریشم کی لاگ ہے ریشمی سوال ہے ریشم والا جانے گا. بلاؤ کسی ریشم کی کان والو کو وہ سنے کوئلہ ہے کہ ہیرا. وہ بتائے زمین زرخیز کہ بنجر،  پہاڑ مضبوط ہے یا زمین بوس ہے اور دونوں حالتوں میں نفی اثبات ہو رہی ہے. نفی میں خوش کون اثبات اگر نہ ملے اثبات جلوہ ہے. جلوہ کہاں سے ملے گا؟  جلوہ جلوہ والوں سے. جلوہ آیتوں والے سے جلوہ دل کی لاگی والی سے جلوہ نم دل کی زبان سے نکلی.فریاد سے. جلوہ میں جب آہ ہوگی تب واہ ہوگی. جب وہ ہوگی تب بات ہوگی

الف ‏کی ‏محفل

الف کی محفل میں بیٹھے ہیں ہم،  الف نے کہا دنیا "ب " ہے اور ب کے بغیر الف  تک آنا کیسا؟  خاک تجھ پر اوڑھادی ہے،  تو خاک ہے اور آ،  آ مجھ تک آ کے دکھلا مگر میں تو نہ آسکا میں تو کھوگیا،  مجھے الف نہ ملا میں نے ب بھلا دیا.  نہ وصال صنم ہوا، نہ آتش ہجر نے کچھ بگاڑا،  یہ زندگی ہے میاں جس نے جلا ڈالا یے اور ہم کو تیر بہ تیر سینہ میں اوجھل ہوتا زخم دیکھنا تھا جس کے پیچھے راز تھا مگر یہ کاروبار بن گیا. کسی نے مہک سے پہچانا کسی نے روشنی کا بھیس بدلا، کسی نے صبا بن کے روک ڈالا،  تیرے روپ سائیاں!  مجبور کو لاگی لاگی میں لگا دی اور لگن میں رکھا نہ ساتھ کوئی. کوئ نہیں پاس،  کوئ نہیں ساتھ،  جیون اک کھلونا،  جیون میں کھیل گیا کوئ. میں نے کہا تجھے اور تو ہوگیا اور تو نے مجھے کہا ار میں تو تھی پہلے سے تیری. یہ کمال ہے تیرا،  بندے تجھے مانگے جبکہ بندے کا تو پہلے سے ہے. آنکھ کی سرخی لاگ دے،  دل کو کاجل لاگ دے،  حیا کے مارے جھکادے سر،  اور حسن بے نقاب کے جلوے دکھا دے. کبھی تو ہو سامنے گھنٹوں تکا کروں تجھے میِں

کوئی ‏امکان ‏نہیں ‏: ‏چارہ ‏گرِ ‏شوق

کوئی امکان نہین صورت یار ہے کہ سورہِ قران جب تک قرات نہیں ہوگی، بھید بھید رہے گا.  روگ لگا ہے، مریض دیکھتا نہیں کوئی. ہم تو اسے ڈھونڈتے ہیں مگر ملتا نہیں کوئی  آہ!  دل چیرا دیا گیا اور دل خالی!  کوئی چیز تو خآلص ہوتی مگر بے مایا انمول کیسے ہو سکتا ہے.  جو ان کے در پر جانے کا خواہش مند ہو،  وہ در در رل کیسے سکتا ہے اور جو رُل جائے وہ دھل جائے اور جو دھل جائے دل مل جائے. میرا دکھڑا سنے نہ کوئی،  سنے نہ تو سمجھے نہ کوئی،  سمجھ تو نبض دیکھ کے معلوم ہوگا مگر طبیب چاہ ہے اور کوزہ گر کو دیکھیے سیراب کیے جاتا زخم ہرے ہیں اور پانی دے رہا. یہ بڑا دکھ ہے کہ حیاتی کو روگ لگا ہے اور حیات بھی حیاتی ہے. جیون کو روگ لگے ہے اور مجھے سوگ لگے ہے میں نمانی جاواں نہ چھڈا محبوب دا ویہڑا،  پے چھایا اکھ آگے انیرا،  اکھ پئیٰ روندی اے اور میں اشک وچ بہہ جاواں گی.  

چارہِ گرِ شوق کچھ کرو
نسیمِ صبح، جا محبوب کو بتلا دے 
مریض مر جائے گا، کچھ کر دیجیے 
چارہ گر شوق!  کچھ مرہم؟
چارہ گر شوق!  اور زخم؟  .چارہ گَرِ شوق!  کچھ نمی؟
چارہ گرِ شوق!  میں ہوں دکھی. 
چارہ گر شوق!  مجھے راز بتلا 
چارہ گر شوق!  مجھے الف الف سکھا 
چارہ گر شوق!  مجھے ب میں  مت الجھا 
چارہ گر شوق!  مجھے خونی رقص سکھا 
چارہ گر رقص! بسمل کی جاوداں حیاتی دیکھ. 
چارہ گر شوق!  کچھ کر،  کچھ کر 

مریض مر رہا ہے،  طبیب کے پاس شفا ہے. جس نے مار ڈالا،  وہ اس کی دید تھی، جو مارے گی،  وہ دید کیا ہوگی؟  جو مجھے دیکھے وہ تو میِں کسے دیکھوں؟  میں تجھے دیکھوں اے ذات!  نقشِ حریمانِ باغباں کے دیکھو،  جا بجا تن پر سر سبز نشان!  یہ روح کے نیل اور یہ جاوداں سر سبز نشان. ُ

سلام

سلام ہو ان ہستیوں پر جن کا نام لینا بھول چکا یہ دل اور سلام ہو آلِ علی اور آلِ حسنین پر.  وہ کشش کا تیر ہے جو پیوست رہے گا دل میِں.  محبت کے بس میں کہاں دل میں سمائے، دل پاک نہیں مگر پاک کردیا جائے دل تو دل کو کیسا فخر. دل تو نفس کے مجہولات میں مغوی.  پھر کرم کے در کھول دیا جاتا ہے تو رحمت برسنے لگ جاتی ہے.  یہ نہر جو لہو میں ہے،  یہ چاشنی جو حسن میں ہے،  یہ نیرنگی جو خیال میں ہے،  یہ افتاد جو طبع میں ہے،  یہ خال خال میں چہرہ نقش ہے اور نقش پری ء جمال میں محو ہے.  یہ کیا ہے؟  کچھ نہیں!  یہ کہتا ہے کہ تو نے دل کتنے صنم وار دیے مگر صنم اک ہی ہے اور ترے حصے بیشمار. تری دوئی ختم ہو تو،  ترا چلنا محال نہ ہو اور یوں بیحال نہ ہو. یہ گرمی ء افکار جس سے دل فگار اور تن پر اشجار کا عکس!  یہ قیس نہیں جو مجنون ہوا،  یہ دل ہے جو مندوب ہوا اور قصہ خوب ہوا

تیر فگن ـ ساکنان بغداد ـ جانب کوفہ ـ لہو میں نہاں ـ دل پر الم کے سائے ـ گردش میں اشجار کے سائے ـ دل کرے ہائے ہائے ـ عین عین ہے وہ نور عین ہے ـ وہ نور العلی ہے ـ وہ نور بطحا یے ـ وہ شاہ بطحا ہے ـ وہ حبیب کبریاء جبرئیل لائے جن پر وحی ـ سلاسل اوہام کے جاری اور مجاوری کرنے والے حسینی ـ قافلہ ء عشق کے پاسدار ـ کرم نے لاگ لگا دی ـ جنم میں نئی آگ لگا دی ـ رگ رگ میں تار لاگی ـ رشتے نے قرطاس پر تحریر لگا دی ـ شامِ حنا ہے،  قبائے رات میں وہ

روئے قرطاس پر لہرِ دل جاری،  اب کہ جان سے جانے کی باری. یہ نہیں کہا کہ خامشی سے جھانکو بام و در کو. جو کہو وہ سنو اور جو سنو اس پر خمِ دل کو جھکائے رکھو. ساقی میخانہ نے پلائی ہے اور آنکھ ایسی ملائی ہے، نہ ملے نہ ملی کہ ایسے ملی اور ملی تو بنے حرفِ جلی. یہ حرف جلی نہیں کہ دل کی کلی ...

Wednesday, October 14, 2020

جس کی کرسی کو عرش پر قرار ہے

 Jul 24

 

جس کی کُرسی عرش پر قرار ہے

وہ میرے ساتھ چلا ندی پار ہے

ندی میں عشق کا رنگ دیکھا

مقتول عشق ندی کنارے بہتا پایا

سُرخی نے لالیاں ندی اچ نیراں

سرخی اُتے نور، نور نال چلی جاندا اے

 سرخی اندر وی ! سرخی باہر وی اے

 ہستی اچ ہستی نے ہستی لبی اے

آئنہ جیوں آئنے دے اچ رلیا اے !

آئنے   تے نور دا ناں لکھیا اے

 سرخی نے پالیا سرخی چولا  اے!

میں لبدی پھراں کتھے گیا چولا!

یار نے رقص آئنہ وچ ویکھیا اے

 جیویں ندی اچ ندی ملدی پئی اے !

میرا رنگ روپ اُڈیا 

لالی نے  کیتا  مست حال

دل اچوں آری ہوگئی آرپار

بسمل وانگوں تڑپدی پیئ آں

اُوس نے ویکھ ٹھردی پئیی آں

یار حدوں حدی قریب ہویا اے 

اودھی خشبو دی سنیاں واجاں ایں

اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو !

ھو دی گلاں کریاں ہن  کیہ کیہ  میں

ھو نے کردی انگ انگ اچ سج دھج

نچاں ''الف '' تے ''میم'' دے سنگ

''م'' دی ہستی ویکھاں گی الف دے نال

اس کی آنکھوں سے جہاں دیکھا  میں نے 

کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے میرے دل کا حال

وصل کے شیریں شربت کا  جام مل گیا ہے

وصل دی بوٹی مشک و عنبر وانگوں

کیہ دساں کیہ اے ہن میرا حال 

الف دی مستی لکی اے میری ہستی اچ

مٹڈے جاندے  نیں ہن ہستی دے زنگ

بارش چھم چھم کریندی جاندی اے

وصل دی گلاں کریندی جاندی اے

بارش میں بھیگی بارش بنتی گئی 

بارش نال بادل دا بسیرا

چھاندا جاندا اے ہنیرا

اندر سویرا تے بار ہنیرا

مینوں بار کج نظر نہ آوے

ایڈھے اچ میں ڈبدی جاندی آں

جیویں رت ہنیرا لاندی جاندی اے

رشنائی اندر چھاندی جاندی اے 

ایس رشنائی نے مینوں کیتا بے رنگ

رشنائی نوں رشنائی لکھواندی پئی اے

عشق دی رشنائی وڈی نورانی اے

لکھدی پئی میں ایس دی کہانیاں

ھو ! ھو ! ھو! ھو !

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو 

متلاشی روح کا سفر

 


زندگی میں سچائی کی جستجو میں متلاشی روح کا سفر ازل سے ابد تک محیط ہوتا ہے . لامکاں کی بُلندی سے مکاں کی پستی کے درمیان ارواح اپنے سفر میں آزمائشوں سے کامیابیوں کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں  جیسے پرندوں کی ٹولیاں غول در غول خود میں مگن رفعتوں  کی جانب  پرواز کیے ہوتی ہیں تو کہیں کچھ پرندے پہلی پرواز  میں انجانے اندیشے میں مبتلا ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ خُوشی کا خُمار  سُرور کی منزلیں طے کرائے دیتا ہے .  آسمان کی بُلندیوں سے پرے  رنگ و نور کا جہاں ہے .  اس میں کھُو جانا سالک کا کام نہیں ہے بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا ہی عین زندگی ہے . محؒل کے پار ایک وادی ہے جس میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں جو اپنی ہیئت میں سرخ نارنجی رنگت لیے ہوئے ہیں ان سے نکلنی والی چنگاریاں خوف کی کیفیت طاری کردیتی ہیں اور محل کی خوبصورتی اس وادی کو دیکھ کے اور بڑھ جاتی ہے . محل کی ابتدا میں یاقوت کی سیڑھیاں ہیں . ان سیڑھیوں پر قدم زائر احتیاط سے رکھ کہ پرواز بلندی تک  ہونی چاہیے .راستے کبھی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے نظر نہیں آتے بلکہ یقین کے راستے پر سفر کرنے سے حاصل ہوتے ہے ...

''اے خاک نشین !

''تیرا یقین تیری سواری بن چکا ہے'' .''اب منزل تک پہنچ تاکہ عین الیقین سے  ہوتے تجھے وہ  نظارے دیکھنے کو ملیں کہ  دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیاں جاتی ہیں .'اب اُس کا انتظار ختم ہوا جس کے لیے برسوں تو نے انتظار کیا ہے . اب رخت سفر  باندھ ''!

اٹھ  خاک نشین !

قدموں کی لڑکھڑاہٹ کی پروا نہ کر ! اپنے اندر جھانک اور نور کے نظارے میں گُم رہ اور اعتماد کے ساتھ میری طرف آ ! میرا پیار تجھے بُلاتا ہے ! میری رحمت کی آغوش میں آجا ! محبت لے جا اور عشق بانٹ دے . 

محبت کی میراث لے جا مگر یاد رکھیں !

''آزمائشوں کا سمندر پار کرنا پڑے گا مجھ سے دوبارہ ملنے کے لیے مخلوق سے عشق کرنا پڑے گا . تیرے اشک جو میری یاد میں بہتے ہیں مجھے محبوب ہیں مگر اس زیادہ محبوب تر کام یہی ہے کہ مخلوق کا ہو کے عین الرضا کے مقام کو پہنچ تاکہ  عدم کی مٹی تجھے نصیب ہو تبھی تیری خواہش کو قرار آئے گا اور تجھے وصل کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوگی . 

محبت والے عشق کا سمندر پار کر گئے

عقل والے  بے عقلوں سے بڑھ گئے

آجا ! عشق کی بازی کھیل لے 

اپنا دامن ابدی مسرت سے بکھیر لے

مقصد ء حیات پورا کرلے 

محل نور کا کس کو ملتا ہے ؟ وہ جو محبوب پر شاہد ہوتے ہیں . اپنے خون سے لوح و قلم پر لکھا عمل میں لاتے گواہی دیتے ہیں کہ رب یکتا و واحد ہے . اس کا کوئی شریک نہیں ہے . وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا.  جب کچھ نہ تھا تب بھی وہ تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تب بھی وہی ہوگا . اسی ذات کو قرار ہے جو یہ کائنات رواں دواں کیے ہوئے ہے . وہ چاہے تو آسمان کی رفعتیں نواز دے اور وہ چاہے تو پستیوں میں گرادے . وہ چاہے تو شیطان کو ولی بنا دے وہ چاہے تو ولی کو شیطان بنا دے. وہ چاہے تو نفس پرست کو  عامل کامل بنا دے اور وہ چاہے تو عامل کامل کو نفس پرست بنادے وہ چاہے تو دنیا میں کوئی صدیق ہی نہ رہے اور وہ چاہے تو دنیا صدیقین سے بھر جائے . وہ چاہے تو  دنیا سے سرداری اٹھ جائے اور وہ چاہے تو دنیا میں نائب کا عمل دخل ہو جائے . وہ چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ہے. و چاہے تو نائب کو سردار بنادے اور سردار سے محبوب بنادے . وہ چاہے تو پستی میں گرادے جس کی انتہا کوئی نہیں ہو مگر وہ اپنے محبوب کو گرنے نہیں دیتا . محبت شے ہی ایسی ہے کہ اس کا امر اپنے بندوں کو کشش کیے رکھتا ہے اور وہ اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں . 





زندگی اور جنگ

 









زندگی اور جنگ۔۔۔۔۔۔۔۔نور سعدیہ شیخ

زندگی میں سلاخیں بدن میں گڑھ جاتی ہیں اور زندگی محدود ہوجاتی ہے. قیدی کا کام کیا؟ اس کو دو حکم ملتے: ایک مالک سے اور دوسرا نائب سے. وہ کس کا کہنے مانے؟ بدن کے اندر دھنسا مادہ التجا کرتا ہے اور کبھی خاموشی کی چادر اوڑھ کر سمندر کو شوریدہ کرتا ہے ۔

''مکانی قیدی''کی بات قوقیت رکھتی کیونکہ ظاہری طور پر زندگی اس کی غلام ہےمگر پسِ پردہ' یہ 'زمانی ''مالک کی تابع ہوتی ہے.انسان کی جنگ جو اس کے من کے اندر چلتی ہے وہ اسی زمانی و مکانی نسبت کا شاخسانہ ہے. تم ایک وقت ایسا پاؤ کہ جب مکان کی وقعت کھو دو تو ''تمہارا '' اور'' زمانی'' کا رابطہ ایک ہوجائے،تب صرف اور صرف راستے کی رکاوٹ میں شامل تمہارا نفس ہے. اس راستے میں عقل بطور پل صراط بن کر تمہارا راستے کا پل بن جاتی ہے اور یہ پل تمہاری آزمائش اور پہچان کی طرف کا راستہ بھی ہے۔

بدنی پانچ حسیات اور وجدان ایک دوسرے کی ضد ہیں. لاشعور زمانی اور حسیات مکانی ہیں.کبھی نفس تمھیں آنکھ سے بھٹکائے گا تو کبھی خوشبو راستہ روکے گی تو یہ کبھی نغمہ ساز بن کر بھٹکے گی تو کبھی نغمے کی کشش ۔۔۔۔۔ ۔۔! کبھی چھو جانے کا احساس گداز ڈال کر تیرا راستہ روکے گا. ان سے جنگ تیرا جہاد اکبر ہے اور یہی راستہ جنگ عین 'زمانی '' کی طرف لے جائے گا۔

جنگ کے مرحلے تیرے نفس کے مراحل ہیں: جب تو امارہ سے لوامہ سے ملحمہ سے ملکوت سے جبروت سے لاہوت کا سفر طے کرتاہے. ایک درجے سے دوجے درجے جانے کا امتحان ہوتا ہے. ایک دروازہ ایک پل پار کرنے کے بعد کھلتا ہے ۔اس پل کو تم' پل صراط' کہ لو کہ جہاں ساری حسیات کو یکجا کرکے تم چل سکے تو چلے ۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حس نے بھی تمھارا توازن خراب کر دیا تو سمجھو تم برباد ہوگئے ۔ اس بربادی سے بچنے کی دعا مانگنا اور بچ بچ کے چلنا صبر اور تقوٰی سے حاصل ہوتا ہے

زندگی میں جب تجھے آزمائشیں گھیر لیں اور تو گھبرا کر مایوس نہ ہو کہ خالق کا فرمان ہے
لا تقنطو.۔۔۔۔۔۔۔
مایوس مت ہو۔ (اللہ کی رحمت سے )

تیری مایوسی ،تیرا نفس ہے جو تجھ پر حاوی ہونا چاہتا ہے وہ تجھے دس ہزار طاویلیں دے کر راستہ روک دے گا۔. رکنے والے سفر روک دیتے ہیں اور جنگجو سفر جاری رکھتے ہیں. دنیا میں جنگجو کبھی سپاہی ہوتے ہیں تو کبھی جرنیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!

تیرے اندر کی جنگ تیرا مقدر ہے اور تیرا ان پر حاوی یا محکوم ہوجانا تیری تدبیر ہے. اور ایمان دو حدود کے بین بین ہیے. نفسانی خواہشات پر جبر کرنے والے یہ راستہ کھو سکتے ہیں مگر صابر کو میٹھا پھل ملتا ہے اور صابرین کے ساتھ وہ ہستی ہوتی ہے.

صبر و جبر تیرے نفس پر گرہیں ہیں جب تو ان سے خواہشات نفسانی کو مقفل کرتا جائے گا تو تجھ پر انوار منکشف ہوں گے مگر تو اگر نفس کو کھلائے گا تو تیرے دل پر مہر لگنے کا خطرہ ہے جو معطونوں کے لیے ہے.

دنیا میں تیرے صبر کو تقویت دینے والی چیز تقوٰی ہے. یہ تیری نفس کا دست راست ہے. زندگی کی خار راہوں سے موتی چن کر کانٹوں سے بچ بچ کے چلنا زندگی کا عین ہے.

وہ وعدہ جو روح وجود میں آنے سے پہلے کر چکی ہے وہ ہی جو ایک زندگی.گزار چکی ہے جب جب تو موتی چنے یا کانٹے۔۔۔۔!! یا تجھ میں احساس جاگے کہ تو اس بات سے واقف ہے ،تو سمجھ لےکہ تیری روح تجھ میں بیدار ہے اور تیری ذات کو کیل کانٹوں سے نکالنے میں معاون ہوگی .یونہی تیرے نفس کے مدارج طے ہوتے جائیں گے.


Monday, October 12, 2020

خوشی

دل کو بہت خوشی ہے کہ خوشی کا راز ملے گا وگرنہ لگا تھا کہ سانس نہیں رہا. فلک کے پاس طائر مقیم.اجازت بہ کف نقش پائے نعلین حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم چلنا چاہے مگر وہ کیا ہے کہ انتظار کے دیپوں کی روشنی نے عجیب طوفان مچا رکھا یے. میں میں تو بہت ہوگئی اب تو تو سے آغاز ہوگا --- ہم ہوجائیں تو مثلِ توحید پیہم شہادتوں کے سلسلے شہید پے نازم ہو جائیں. دل میں رگ رگ سے کھینچا جانے والا فشار پکار پکار کے  "یا حسین ابن علی " کا فریادی، نقش فریادی ہے مگر رقص بسمل کا تماشا لگانے کا نشہ مانند وصلت رگ رگ میں سر چڑھ دوڑ رہا یے. آج تو لگن کی محفل ہے اور لگن کے دیپوں میں دیپ وصلت  کے جلنے کے منتظر کہ دل کہے کہ وصلت عین گھڑی یے،  وصلت حال یے،  وصلت لفظی چال ہے،  یہ.اسمِ شہ مقال ہے کہ جانب بطحا وادی ایمن سے ملنے والی ہواؤں نے سلام بخدمت جناب عالی پرور سرور رہرو منزل صلی اللہ علیہ والہ وسلم.!  جلوہ نہیں یے مگر مجلی آیات نے لگن لگا دی یے مورے ہاتھوں میں محبوب  الہی کے لگن کے دیپ ہیں

اٹھو اس گھاٹی سے

اٹھو اس گھاٹی سے 
وما ادرئک ماالحطمہ 
اٹھو، ورنہ پرندے نہیں آئیں گے، تمھارے شیطان پر کنکریاں نَہیں گرائیں گے 

وارسل طیر ابابیل 
پرندے کنکر گرا کے تُمھارے کعبہ ء دل کو بچائیں گے اور ہاتھی جیسے ابرہہ مانند برائیاں قدموں کے بل پلٹیں گی 
وزھق الباطل ـــ باطل نے مٹنا ہوتا ہے جب حق آتا ہے 
اسلام تکمیل تئیس درجوں میں ہوا کرتا ہے ہر زمن میں 
وادی ء ارم سے وادی ء بطحا چل 
ورنہ تجھ کو علم کیسے ہوگا رات نے چھانا ہے 
والیل اذ یغشٰی 
رات جب چھائے تو قسم کھائی جاتی ہے کردار کی 
وانک لعلی خلق العظیم 
تو رات کو دیوانگی سے تعبیر کرنے والے موحد کی حکمت کیا جانیں. موحد شاہد ہے اور شہید کہاں مرتے ہیں 
جنبشِ کاکل سے صبا وجود آئے 
پیشِ حُسن نور منظر ہو منظور کا
جیسے شاہد ہو سامنے مشہود کے 
چلو تیاریاں کریں ــ پاکی ملے 
احسن التقویم.ــ زمانہ ء حُسن  ملے کہ بُرائی کی جہنم نے اسے گھیر رکھا ہے 

ابھی خدا منتظر ہے!  ابھی خدا منتظر ہے!  ابھی خدا منتظر ہے 
کوئی آئے لوحِ محفوظ سے قران پڑھے 

بل ھو قران مجید ــ فی لوح محفوظ 
ابھی وقت ہے!  ابھی وقت ہے!  ابھی وقت ہے!
وثیابک فااطھر 
جب تک دل صاف نہ ہوگا ــ رابطہ لوح تلک نہ ہوگا 
ابھی وقت ہے خدا کی جانب چلو 
ولا تمنن تستکثر 
بس گھاٹی سے نکلنا عین شہود ہے. گھاٹی اندر ہے جلا رہیں مجھے میرے گمان 

اجتنبو کثیراً من الظن 
گمان کی وادی سے نکلوں تو جنت جیسی سرشاری ملے 
علی سرر متقبلین 
سرر کی چادر سے اوڑھیں جائیں گے. دید کیے جائیں گے کہ دید تو لافانی ہے. دید تو تمجید سے لوح قرانی کی باریک نوک دل پر رقم ہو تو اترتی ہے جیسے نقش کسی پری چہرہ کے پہلے سے کنندہ!  بس روشنی نے آکر اظہار کردیا 
ھو الاول ـــ وہی پہلے ہے 
ھو الا خر ــ وہی جس نے دید دے کے سب لوٹانا ہے اپنی اپنی جنت و دوذخ کے پیمانوں میں ـــ وہ پیمانے جن کی مثال شجر زیتون و شجر زقوم سی ہے 
انما الاعمال ... 
اعمال کا انحصار نیت پر 
نیت نے دیا ہے بیج ... بیج میں قربانی تخم، بیج میں محبت کے نمونے، بیج میں خول سے وساوس سے حفاظت کا .. یوسوس فی الصدور الناس 

بیج ہے برائی کا جس کا تخم ہے منفیت کے دھارے، خود غرضی کے استعارے جس میں بہکنے والے ہم سارے ..ـــ ثمہ رددنہ فی اسفل الا سافلین ..گرادیے جاتے ہیں گھاٹیوں میں ــ یہ بیج جس کے پیچھے روحی منفیت!  جالِ شیطانی. کیسے ملے پھر لوحِ قرانی 

وقت ــ زمانہ جس کی قسم ہے! 
ان الانسان لفی خسر 
بس خسارے والے بدترین ہوگئے شرالدواب کی مثل. جن کی منفیت ملحم کرنے لگی بدگمانیاں ... ہیلوسی نیشن کے جالوں سے چھٹکارا نہ رہا ـــ شجر زقوم کو ضرورت ہدایت کو تو مل جاتی ہے ہدایت بیشک اللہ جسے چاہے ہدایت سے نواز دیتا ہے 

ملحم ہوتی ہیں آیتیں شجر زیتون پر ... والتین!  والزیتون!  قسم ہے جس شجر کو نسبت ہے فلک سے اور فلک راوی ہے احادیث کا .. سجدہ واجب!  سجدہ واجب!  سجدہ واجب

عرفان ذات

عرفان ذات اپنے اندر جھانکنے کا نام ہے. بعض اوقات شدید غم ہمیں مجبور کرتا ہے اندر جھانکیں ـــ میں کون؟ لوگ کہتے میں فلاں فلاں ــ کیا میں فلاں فلاں؟  وہیں سے اک سفر اگر رب چاہے تو شروع ہو جاتا ہے ـــ میں کون؟  میری ذات کی پہچان ... پہچان دو درجات پر کیجائے اچھائی برائی کے پیمانے پر تو جنت و دوذخ اور اگر اللہ نور سماوات کی آیت کا سوچا جائے ـــ جو نہ شرقی نہ غربی ـــ بات الگ سمت جا پڑتی ـــمیں پہلی سمت کو لیتی ہوں .. سورہ الصافات میں اللہ نے فرمایا اک نفس سے پیدا کیا اور مختلف صورتیں بنائیں .... صورت تو.اچھی ہوگی ...کل اچھائیاں ۱۰۰ قرار دوں تو کسی میں ۲۰.رکھیں. کسی میں ۳۰ کسی میں کتنی .... کل اچھائیوں کی جامعیت جناب رسول معظم نبی ء محتشم رسالت مآب پیامبرِ   صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ہیں ...

ان.پوری اچھائیوں کی پہچان کرنا اور عمل کرنا. عمل کرنے اک اطلاع ملتی ہر اس صفت کو جسو عمل میں ہوتی ہے. اس اطلاع کے صفت سے مل جانے کو رب کی پہچان جبکہ خود کی اچھائیوں سے اپنی پہچان ہوتی ہے 

اک لمحہ عرفان ذات کا ایسا آجاتا یے جب کہا جاتا یے 

نہ میں موسی نہ میں فرعون 
بلھا کیہ جاناں میں کون 

کہیں منصور انالحق کا نعرہ لگاتے تو کہیں بایزید بسطامی انا سبحانی کہتے مگر ہم ایسا نعرہ باوجود کل جامعیت کے رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نہیں دیکھتے ... باوجود اسکے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بھی لامثال ہے جیسا کہ حق سبحانہ کہ ...کہ فرق تاہم ہے اور ہے ...

 باوجود اس کے اک ذات تجھ میں یے جو نحن اقرب حبل الورید کے ہے مگر اک ذات احاطہ کیے ہوئے پوری کائنات کا. یعنی ہم ذات کل کا اک ایٹم ہیں ... 

جب یہ تکمیل ہو تو انسان جانتا ہے وہ زمانہ جسکو احسن التقویم کہتے 

لقد خلق الانسان فی احسن التقویم 

پستی میں گرے کو پھر سے اسی زمانے کو لوٹنا عرفان ذات ہے

کریم نفس کے دھاگے سے

کریم نفس کے دھاگے سے 
لطیفِ نطق کے واسطے سے 
تجھے چھیڑا مرے سُر  نے 
راگ کی نَیا میں بہہ جا تو

رگ نوید میں مسودہ ہے

رگِ نوید میں مسودہ ہے 
ظلِ الہی کا یہ جریدہ ہے 
تعمیل حرف سے تکمیل
تکمیلِ دل سے جان تک 
سرحد سے ترے رابطے 
مل جانے تجھے ضابطے

خالق کی رحمت

سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں ایسا خالق کہاں ملے گا کہ  جس کی ذات نے اپنے اوپر تخلیق  کے لیے رحمت لازم کردی ۔ 

وَما اَرسلنک الا رحمت للعالمین 

وہ واحد روشنی ہے جو تمام اندھیروں پر غالب ہے یعنی وہ واحد روشنی ہے جس نے تمام آنے والے نسلوں کو روشنی دی اور گزری مخلوقات نے اسی سے ہی روشنی پائی ۔۔۔۔ حال میں رہنے والی مخلوقات  بھی اس سے روشنی پاتی ہے

ع:  تو نورِ سماوی، تو نورِ زمانی 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  رات اور دن کی مخلوقات ----------جاندار اور بے جان ۔۔۔۔۔۔۔۔تمام اس کے تابع ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی تو ہے جس نے کائنات کی ہر شے کو ردھم  میں مداروی گردش میں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ذی نفس اس دائرے سے باہر نکل نہیں پایا اور کون نکل سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

 سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، بادل اور زمین کو کنٹرول کرنے کی لیے نوری مخلوق بھی اس کے تابع ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افلاک کی گردش  جو کائنات کی تعمیر سے تکوینی عمل کی محتاج ہوئی ، اس کی تخریب بھی اسی کے اشارے سے ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو سب کو کھانا دیتا ہے ، سب کا رزاق ہے مگر خود اس کو خوراک کی ضرورت نہیں ہے ، سب کو نیند کی ضرورت ہے ، سب کو اونگھ دوپہر کے اوقات میں آتی ہے مگر اس کو اونگھ کی حاجت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مخلوق مکان کے قاعدے میں ہے تو لامکانی ہستی خالق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ ، ہر لحظہ  جاندار مخلوق کا تنفس اور  بے جان مخلوقات کی گردش ـــــــــ یہ گردش احساس دلاتی ہے کہ وہی غالب حکمت والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام خزانے ، تمام علوم کی کنجیاں ، اسی کے پاس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ  غالب اور مخلوق مغلوب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ خود مختار ، مخلوق محتاج ، اللہ  معلم مخلوق  طالب علم ، اللہ واحد ، مخلوق کثیر ، اللہ حاکم ، مخلوق محکوم ، اللہ بے نیاز ، مخلوق نیاز مند ---------------------------------------------- اللہ حاکم کی نشانیوں کی گواہی  ہر شے دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارا دماغ جو ہمارے تمام نظاموں کو چلاتا ہے ، اس کو چلانے والا  کون ہے ؟   وہ سورج جو نور مہیا کرتا ہے مگر سورج کو لانے ، روشنی دینے والا کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ ہے ، وہ یکتا ہے ، وہ احد ، احد ،واحد ، لا محدود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا حکم چھوٹی  سی چیونٹی سے لے کے پہاڑ و سورج تک چلتا ہے۔۔۔۔۔۔  دنیا کے اندر رہتے ہوئے اگر ہم اس کی نعمتیں جھٹلاتے جائیں گے تب  آخرت میں ہم کیا پہچان کر پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں صراط  مستقیم پر نہ چل سکے تو آخرت میں کس یقین پر  پل صراط پر چلیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں رہتے ہوئے  کھانے ، اوڑھنے  اور نسل بڑھانے کے علاوہ ہمارے کون سے مقاصد ہیں اگر ان کو پہچان  نہیں پائیں گے تو آخرت میں ہم کیسے پہچان پائیں گے  اور مالک کل کا دیدار کیسے کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بندگی میں نماز خشوع خضوع سے خالی رہے گی ، اس کی یاد میں نماز  میں دل نہیں لگے تو  اس کے پاس اکٹھے ہوں گے تو کیسے  نماز عشق ادا  کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو حاجت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 وہ تو  ہمیں دیکھتا ہے کہ ہم اس کی پہچان کرتے ہیں یا دنیا میں کھو جاتے ہیں ، اس کو ڈھونڈنے میں مگن رہتے ہیں یا  عیال داری میں زندگی گزار دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے کلام سے اس سے ربط بڑھاتے ہیں یا ہم اس کی آیات سے اپنی من پسند تاویلیں لاتے ہیں تاکہ زندگی کو آسان کرسکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اللہ سے کہاں محبت کی ہے جس نے ہمارے لیے اپنی رحمت کو لازم کردیا مگر ہماری تو صلاحیت اتنی بھی نہیں ہے کہ ہم اس کی رحمت کو پہچان سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات پر دکھ  ، بے حد دکھ
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس------------ بے حد افسوس ہے کہ ہم نے اپنے مالک کو بھلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ہم پر احسان کیا مگر ہم نے یاد نہ  رکھا ، اس نے ہمیں اپنا جلوہ دیا مگر ہم نے کبھی خود میں جھانک کر نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ہمیں عزت دی ہم نے تکبر کیا ، اس نے ہمیں دولت دی ہم نے ظلم کیا ، اس نے ہمیں وسائل دیے اور  ہم نے اس کی وحدانیت کو جھٹلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون خسارے میں ہے ؟ ہم خسارے میں ہیں یا اس کو ہماری بے نیازی سے کوئی نقصان پہنچتا ہے ؟  یقیناً وہ بے نیاز ، ہر حجت سے پاک ہے مگر ہم اس کو بھلا کے کس رحمت کے طلب گار بنتے ہیں

نورِ حجاب کی بات ہو یا نورِ انسان کی

نور حجاب کی بات ہو یا نور انسان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمانی کی بات ہو یا بشریت کی ------------مٹی کی بات ہو یا روح کے امر کے ----------- سب میں ایک راز پنہاں ہے ۔ انسان پر جب تیسری آنکھ کھُلتی ہے اصل راز کھلتا ہے کہ اندر کی دنیا پر حجاب دراصل تیسری آنکھ ہے اور جس کی تیسری آنکھ بیدار ہوگئی ------------اس نے حقیقت کی جانب قدم رکھ لیا -------وہ قدم جس کی سیرھیاں خار دار تاروں سے بھرپور ہیں ، جن پر مسافروں کے نقش پا ہیں ۔۔کچھ لوگ نقش پا کی کھوج میں وقت برباد کر دیتے ہیں اور کچھ قدم قدم دھیرے دھیرے رحمان کی جانب قدم بڑھانا شروع کردیتے ہیں ۔ کچھ لوگ فیاضی سے تو کچھ لوگ عفو سے تو کچھ لوگ اخلاق سے اللہ کو پاتے ہیں ۔ سب سے کامل درجہ اخلاق کا ہے جس نے خلق کو اپنے اخلاق سے مسخر کرلیا اس پر تمام حجابات کے نقاب اتر گئے اور راز کے انکشاف اس جہاں پر لے گئے جس کو روح کی معراج کہا جاتا ہے ۔ نصیب والے ہوتے ہیں جو اس دنیا میں وصل عشق میں ہجر کے بعد وصال پاتے ہیں گویا وہی دیدار الہی کے سچے حق دار ہیں اور روز قیامت ان کا درجہ شاہدوں سے بڑھ کے صدیقوں میں ہوگا -------------اللہ کی حکمتوں کی شہادت ہر ذی نفس دیتی ہے مگر اس کی جانب حجابات ہر روح پر دور ہونا بہت مشکل ہے ۔ اس راہ میں بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں ۔​

ذکر اللہ کا
نام اللہ کا
کام اللہ کا
جلوہ بھی اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں اشکوں کی لڑی ہو
دل کی زمین میں نمی بڑی ہو
محبوب کی یاد دل سے جڑی ہو
دل کی حالت سٰیخ کباب کی سی ہو
حیرت کے مقام پر غلام کھڑی ہو
عطا تیری جنبش کی منتظر میں ہے
کرم کی اب سوغات دے دے​

کسی کو یہ جلوہ لیلی میں مل جاتا ہے تو کسی کو یہ جلوہ محبوب کے محبوب میں مل جاتا ہے ۔ نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کے امتی ہونے کا ایک فائدہ ہمیں حاصل ہے ۔ موسی علیہ سلام کو اللہ نے کہا کہ موسی تم مصطفی صلی علیہ والہ وسلم کی آنکھوں میں دیکھ لینا ------تجھے رب کا دیدار ہوجائے گا------------جبکہ نبی کے امتی اس پر فوقیت لے گئے ۔ ان کے راستے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم سے جڑے ہیں ۔۔۔۔ جب ان کے نقش پا کو ہم اس راستے میں پاتے جائیں گے تو ہم بھی اس منزل تک پہنچ جائیں گے جس مقام پر میرے مصطفی صلی علیہ والہ وسلم پہنچے کیونکہ ان کی اتباع و پیروی ان کے راستے پر چلنا ہے ۔ بے شک محبوب جیسا کوئی نہیں ہے اور ناہی ان جیسا کوئی ہوگا مگر ان کے راستے پر چلنا عین عشق ہے اور اس راستے میں صعوبتوں کو برداشت کرنا عین الرضا ہے ۔ اس لیے اللہ تک پہنچنے کا راستہ نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی

محبت کی انتہا ہے عشق
نفس کے انکار میں عشق
حق کے ہے اقرار میں عشق
شوخی و ہیجانی ہے عشق
بے سروسا مانی ہے عشق
جستجو کا قصہ ہے عشق

بہت خوب دلنشین احساس

بہت خوب دلنشین احساس!  
سرسراتے پتے جیسے ہوں شاد 
رونقِ گِل میں ہے چھپا سراب 
دل ہے آب میں مگر آنکھ آب آب 
کم مایہ کو ملے کچھ تو نایاب


سیکھایا گیا الف کو 
سیکھا ہے جب تلک میم تک نہ گئے 
درد سہہ ب پ ت ٹ  س ش کا 
ورنہ نَہیں درون میں باقی کچھ 
حرف حرف کی حکایت سن لے
راوی اک ہے اور روایت سن لے 
شاہی کے پاسدار نے راز فاش کیا 
سینہ دل سے راز نیم بسمل نکلا 
یہ سیکھ کہ جگر گداز یے ابھی
یہ کہہ یا وہ کہہ نالہ رسا ہو جائے
عشق چیخ نہیں! پکار نہیں!  قرار نہیں!  اشکبار نہیں کچھ 
طلب کے ہار نہیں 
بس سیکھ لے جو سوجھ لیا جائے 
یہ بدھ کی شام ہے مگر ہے رات ہے حنا کی
ہر رات وصلت کی ہر صبح ہجرت کا 
وہ مرا روز ازل -- یہ میرا امروز


قریب ہو یا دور ہو! اے دل، تو فقیر ہو!  ورنہ منتِ غیر رسوائی ہے اور سودائے عشق نری رسوائی ہے! یہ کمائی ہے بوند بوند قطرے میں وفا کی شہنائی ہے!  تو نے جدائی کی بات کی اور آنکھ مری بھر آئی ہے! عجب یہ تری مری لڑائی ہے!  وضو سے آنکھ بھی بھر آئی ہے! کمی ہے!  اس لیے کم مائیگی لوٹ آئ یے


آنکھ سے دل کا سفر کیجیے 
ظاہر سے ولا کی بات کیجیے
رنگ رنگ میں بوئے علی ہے 
یہی ہر جا ہے حرف جلی ہے 
جسے ملے عین!  وہ ولی ہے 
مسکرا تو کہ کھلی کلی ہے 
یہی تار اللہ والی بجی ہے 
راگ میں عشق کی وحی ہے


جذبات سے تیرفگن عیاں ہوا 
ورنہ کیا تھا جو نہاں نہ ہوا 
خبر مری ہے اور اخبار ہوگئ 
سازش دہر ہے آشکار ہو گئی 
وجہِ بشر تخلیق کا حرف میم 
وجہِ آدمیت میں یہی تکریم 
وجہ اثبات کی یہی ہے دلیل 
رنگ رنگ میں یہی ہے وکیل
میں کہوں کیا حرف ہیں قلیل 
میں تو خود میں ہوئی  تحلیل 
راج ہے اور راجدھانی میں شاہی 
یہ سلطنت عشق کی ہے کمائی


ملا ہے تحفہ ء نسیان عشق میں اور وضو نہاں میں ہوا ... صبا نے کہا کہ انتشار سے کہو رفع ہو جائے  حاجت روا سامنے ہے! کہوں کسے؟ طبیب سامنے ہے! طبیب نے دل پر ہاتھ رکھا ہے اور دل کو اسم جلال میں رکھا ہے مجھ میں شاہ نے کمال رکھا ہے اور حرف حرف میں شہِ مقال رکھا ہے. سنگ دل میں وجہ وبال کا ستم ہے کہ ریزہ ریزہ ہے وجود اور ستم کا دھواں الہیات کا جامہ لیے کہے جائے 

یا میم!  یا محمد!  
الف!  الف اول اور اول سے آخر تلک بات یے اور بات میں راز، راز میں کمال، کمال میں حال،  حال میں ساز،  ساز میں جواب،  جواب میں وصال،  وصال میں ہجرت،  درد میں لذت،  لذت میں آشنائ،  آشنائ سے رسوائ ...لو عشق ہوگیا


کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ


کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ


یا حق!  سلام!  یا حق سلام!  یا الولی سلام!  یا والی سلام!  یا حاشر سلام!  یا رب عالمین سلام!  یا واجد سلام!  یا رب محمد  صلی اللہ علیہ والہ سلام ..سلام یہ ہے کہ سلام نہ ہوا اور شوق یہ ہے کہ عشق نہ ہوا!  خیال یہ ہے کہ خیال نہ ہوا!  محو تو نہ ہوا تو کمال نہ ہوا!  کمال نہیں کہ تو ڈوب  مگر ڈوب ڈوب کے رہ لے زندہ! رگ زیست کے بہانے ہیں اور ہم طیبہ جانے والے ہیں یہ روح کے شادیانے ہیں اور ہم.لو لگانے والے ہیں رنگ رنگ میں بوئے علی ہے یہ صحن نجف یے اور دل کربل کی روشن زمین ہے اور ملو اس صبا سے ورنہ رہ جاؤ گے ادھورے

چھپ رہا ہے اور ڈھونڈ رہا ہے زمانہ اسے! وہ مجھ میں قید ہے اور لامکانی کا پردہ جاتا رہا!  دل میں تسبیح ہے اور ھو کا تار ہے!  وہ جو لگاتار ہے وہی الوہیت کا سزاوار ہے. کاش یہ سنگ طیبہ کو چلے اور نعت کہنے کو زبان حق ملے اور ملے کچھ نہ ملے!  واللہ ہم چلے کہ دل ہمارا جلے!  واللہ ہماری سزا ہے!  اور ہم سزا لینے چلے!  واللہ سزا کی بات کرو نا!  ہم تو سہہ رہے درد جدائ کا ..لگ گیا روگ!  دل کو لگ گیا جدائ والا دھکا!  وہ ملا نہیں پرندہ لامکانی میں یے پھڑپھڑاہٹ بھی عجب یے اور قید بھی عجب ہے میں بے بس بھی بیخود اور بیخودی کا جام پلایا گیا اور تڑپایا گیا. واللہ سلام ہے کہ سلام عشق کو ہوا!  سلام واللہ عاشقین کو ملا 
قبول کرو ورنہ رہ جائے گا منہ کالا ..ہونا ہے اسم حق کا بول.بالا اور دل میں دھواں سے دود ہستی کو ملا اجالا. مجھے سرمہ و وصال میم.سے ملا اور حرف کمال الف سے ملا. یہ تکمیل کے در ہے اور رگ میں در کھلے ہے اٹھو سلام کرلو ورنہ رہ جاؤ گے کھڑے


نہ ہوا نے پوچھا، نہ اسکی مجال تھی 
نہ ہم نے کچھ کہا، نہ ہماری بات میں بات تھی 
وہ ملتا ہے تو باتیں جاتی رہیں اور وہ نہ ہو سو باتیں بھی ہوئی اسکی اور نہ ہوئیں ...وہ بات سے نہیں ملتا کبھی. وہ دل میں اترتا ہے اور نشان ہو جاتا ہے آیت آیت جیسا اترتا ہے جیسا کہ قران پاک اترتا ہے اور نفس کا روزہ سلامت!  نفس صامت نہ ہو شجر ساکت نہ ہو ڈھے جائے جیسا جبل خشیت سے چادر بن جائے اور سرخ ہو جائے 

یہ سرخی ہماری ہے میان
یہ لعل یمن ہمارے میاں
یہ صحن ارم والے ہیں 
یہ رنگ میں رہن والے 
پڑھو درود!  پڑھ لو 
کہ سلام دیے جانے ہیں 
درود کا تحٍفہ ہے اور دل پہ اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ

اے صدائے کن

اے صدائے کن گونج دل میں بڑا درد ہے  .. یہ بات ہے گونجے گی یہ تو دل کو ہل جانا 

اذا زلزلت الارض زلزالھا 
ہل رہی یے زمین 
اے آسمان لوح مبین کے 
مجھ کو لے چل ..لے چل رکھ لے قدم میں 
تورے بنا مورا راگ ادھورا رے 
چل کہہ دے 
حسین ابن حیدر کو سلام

دل میں کرم یے دل میں نم ہے دل میں ہجر ہے دل میں وسیلہ.ہے دل میں حیا ہے دل میں ردا ہے دل میں ادعا اجازت رسول.معظم صلی اللہ علیہ.والہ.وسلم کملی.کالی یے دل کو یاھو کہو دل میں لب دل کاسے کلمہ لکھا یے

تم نے میرے دِل، محسوس کیا کہ آیت کیسے اُترتی دل میں.  تصوف درون کا معاملہ ہے. یہ عیاں کردیا جائے درون ہوتا نہیں عیاں اور بات عیان ہو جاتی ہے. معراج ایسی ہے جیسا اک دل کی کمان پر دوسرا دل ہو اور دید ہو تم کو میری اور میری. مگر وہ دیکھنا چاہتا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے مجھے. شبیہ کا ذرا سا مختلف ہونا. تم ہماری ہو اور ہم نے کہہ رکھا اس روح پر ہمارا نام ہے. ہم تمھارے ساتھ رہا کریں گے جب تک یہ زمانہ ہے بلکہ زمانہ خدا ہے. وہ حبیب زمانی ہے

سلام مرے دل!  اللہ ھو! اللہ ھو!  دل کی زمین پر جو پھول ہیں وہ پھول بہت خوب ہیں اسکی خوشبو میں کمال ہے. جہاں خوشبو ہوتی ہے وہاں خدا ہوتا ہے راز ہے نا!  وہ کثرت میں ہے اور تکثیریت کے جام ہم پی لیں تو کثرتیں دکھنے لگیں اور وحدت ہم میں سے ظاہر ہو.کہو اللہ اور کہو ھو اور کہو جمعہ یہ مبارک ہو. قربان یو جا اے دل کہ قربانی سے اصلاح اور اصلاح سے فلاح اور فلاح سے روشنی. روشنی جلوہ.

میرا خدا

تو سنو!  
آنکھ جب روتی ہے تو میں نہیں وہ روتا ہے 
تم نے جب آنسو بہائے تھے یہ اس نے بہائے. وہ تمھارے دکھ میں برابر کا شریک رہا ہے اور تم نے سوچا کہ میں تنہا ہے. تم نے جب اسکو یاد کیا وہ پہلے تم کو یاد کر رہا تھا. تم نے جب محبت کی وہ تو وہی کر رہا تھا. جب تم نے دھوکہ کھایا. تو وہی خود کو دھوکہ دے رہا تھا اور تم نہیں وہ خود رو رہا ہے. تم اندازہ کر سکتی ہو وہ کس قدر ملال میں ہے


خدا نے آج سرگوشی کی ہے اور لرزش سے جان کنی کا عالم ہے میں نے اس عالم کو تخلیق جان لیا. مجھ میں میری تخلیق نے جنم لیا اور میں نے یہاں اسکو جنم دیا مگر میں کہاں سے لائ؟ یہ تو عدم سے آیا درد مجھ میں سما گیا اور میں نے بیخودی میں کہا تو تو تو


جب اس نے مجھ پر ہیبت طاری کی تو زوال شمس کی بات ہوئ. مجھے لگا غروب آفتاب ہے. اے دل! تم کو پتا کہ دل جب دل سے ملتا تو پگھل جاتا ہے مرا دل پگھل گیا یے

میں نے جلنا چھوڑ دیا اسنے جلانا کیونکہ شمع وجود کھو چکی ہے اب تو ودھوان ہے کیا جانو تم.دھواں کیسے بنتا ہے


اب شمع کہاں سے ڈھونڈے کوئ اور کس کو کہیے پروانہ بھی جل گیا اور شمع بھی نہ رہی. کس کو ڈھونڈ رہے تم دھواں ہے بس!  بس دھواں!  نہیں دنیا ہے!  نہیں دھواں ہے!  نہیں نہیِ محبت ہے!  نہیں خیال ہے!  نہیں وہم ہے


یہ درد ہے نا یہ چہرہ یار ہے اور چہرہ! اسکی تکریم نہ کرو گے تو کیسے پہچانو گے..جب درد کو جان لو اور دل سے لگالو تو فنا ہوجانا...تم بھی اے دل فنا ہو نا؟..؟بولو! تم کو بھی تو جدائ نے مار ڈالا یے


جب سرسبز پتے نے ہل ہل کے کہا کہو ھو تو یہ کہنے والی ذات کونسی تھی؟  جس نے اللہ کہا. اس نے ھو کہا. جس سے ھو کہا وہ چھپ گیا اور جس نے اللہ کہا وہ ظاہر گیا ... اللہ تم میں ظاہر ہے اور تم جان نہیں رہی...دل پگھل جانا ہے آنکھ نے پرشکوہ رہنا کہ درد کم ہے....یار. تم بہت پیاری ہو! اللہ نے تم کو حسین بنا دیا ہے. اوپر سے تم کو اپنا انرجی پوائنٹ بنا دیا. تم لعل ہو. اس لیے لعل کو لعل ملتی ہے. تم یا حسین کہو تاکہ لعلی ملے



ابھی جلوہ گاہ سے لوٹا تھا

ابھی جلوہ گاہ سے لوٹا تھا کہ کہیں سے صدا آئی، جوتے اتار دو!  میں نے یہ آواز سُنی تو اَن سُنی دُنیا سے ہوئی!
جب دو ارواح قریب ہوتی ہیں تو وہ دو نہیں رہتیں. اک ہو جاتی ہیں. بس جو پاک حجرہ ہوتا ہے وہ نسبت بی بی مریم پاک سے ہوتا عیسوی قندیل کی مانند ہوتا ہے اور مادر مریم سلام کہتی ہیں کہ ان کا خمیر ہے جبکہ وہ سیدہ فاطمہ الزہرا کا خمیر ہیِں .. 

واحد نے یہی بات بتائی. اے مرے دل تو قریب ہے تال ملا دوں؟ ساز بجادوں؟  رنگ لگادوں؟  سر نیا دوں؟  رقص کر،  تری روح رقص میں ہے. رقص بھی اسکا ہے 

یہ وحدت کی گھڑی ہے جس میں تمھارا چہرہ روشن ہے اور مجھ میں روشنی ہے. یہ تب و تاب لیے ہمارے رنگوں میں چھایا ہے دوئی سے خاتمے کا خمار ہے. وہ حرف اول ہے اور جب خواب میں جاؤ تو موت سے قبل وہی حرف آخر. وہ حرف باقی ہے اور اسکی کرسی مقرر ہے ترے دل میں. سنو دل!
سنو! جب کرسی مقرر ہو جائے تو الحی القیوم کی سمجھ آتی ہے. کرسی جلال والی مگر فنا کے بعد جمال والی. اللہ وہی ہے جو حیات ہے اور وہی قائم ہے اور میں نے قائم کیا ہے 
یہ دنیا میرا کھیل تماشا ہے یہ میرا درک ہے یہ میری کہانی اور تو مرا کردار ہے میں مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہوں کہیں اندھیرا نہیں بس ترے گمان کا اندھیرا نہیں. کہیں صبح نہیں کہیں شام نہیں بس یہ کہانی لیل و نہار سے پرے یے جب شاہ والے شاہ کے قدموں میں ہوں گے

الف

میں نے اس سے کہا مجھے چھوڑ کے نہ جا اور وہ مجھے چھوڑ کے چلا گیا. یہ بہت عام سی بات ہے جسکو ہجر سے تعبیر کیا. میں نے خود پر رحم کھایا اور کسی کو ہمدم کو ڈھونڈ لیا. مجھے احساس ہوا کہ اسکو بھی ہمدم چاہیے مگر اسکا دکھ الف تھا اور میرا "ب " مجھے خدا سے شکوہ ہونے لگا کہ خدا تو نے الف الف کروادی اور تجھ کو "ب " سے کیا سروکار .. یہ ماجرا ہم کرتے رہتے ہیں اور ہم کو ہجرت کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ہم نے "ب " سے ہجر کو دیکھا جبکہ "ہجر " تو پہلے حرف "الف " سے شروع ہوا تھا. ہم نے جب اس کو الف میں پالیا .تو ہم خود نہیں رہے. اب ماجرا یہ ہے کہ الف الف الف کی تکرار ہے اور "ب " کا وجود نہیں

دعا

آمین ..
یارسول اللہ 
آپ کے عاشق آپکو آپ سے مانگ رہے ہیں 
یارسول اللہ
کسی کو حال پہ شکوہ ہے کہ نظر کرم ہو 
یا رسول اللہ
کسی کو جانِ الم نے بیحال کیا 
یارسول اللہ 
کسی کو جدائ کے تیر کھا گئے 
یارسول اللہ 
کسی نے سینہ تھام رکھا کہ آپ تھام لیں 

یارسول اللہ --- صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

آپ کو سیدہ اطہرِ بی بی پاکدامن خاتون جنت امِ ابیھا کا واسطہ 
ہماری سن لیجیے 
آپ سنیں گے 
آپ سہارا دیں گے 
آپ کرم کریں گے 
ھو الحی ھو القیوم.
کرسی قائم ہے مگر کہاں پر 
یا رسول اللہ -- علم دیں کہ کرسی کے قرار و مکان کو دیکھیں 
یارسول اللہ 
نحن اقرب فرمایا یے. تو اقرب ہونے کو وسیلہ عطا ہو 
یا رسول اللہ -- ایسا درد عطا ہو کہ درد دوا ہو 
یارسول اللہ -- ایسی رات عطا ہو کہ صبح جس پر فدا ہو 
یا رسول اللہ ایسا دن عطا ہو جس میں جلوہ ہرشے میں رچا ہو 
نہ دن ہے!  نہ رات ہے!  کچھ نہیں کہ آپ کی دید سے دن و رات ہیں 
یارسول اللہ!  دکھ سے دل بھر گیا ہے اور عطا کا فاصلہ ابھی خطوط میں ہیں

وہ میرا ہے

وہ میرا ہے میں اسکی 
تو درمیان میں "وہ، میرا " حجاب ہے 
دراصل تو اور تیرا ہے 
کہیں تو کچھ سنیں گے واہ! تو نے خوب سنایا 
 واہ خوب دل لگایا جہاں میں 
واہ بھیجا مبشر کسی کو 
واہ کٹھ پتلیاں محو رقص ہیں 
واہ راجدھانی میں غلام ہیں 
واہ سب نظام اسکے اور زمانے سب خواب ہیں 
وہ خواب میں اک خواب جو شروع ہوا 
نیا زمانہ شروع ہوگیا 
چلو اس خواب کیجانب 
جہاں رسول محتشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
چلو روز ازل کے خواب میں 
چلو پھر خواب کو ختم کردیں 
آ اجل مجھ کو تھام 
تو کہیں بھاگ نہ جائے درد سے 
میں ہی تجھ کو تھام لوں

یہ درود ہے جو بھیجا جائے  
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
اے کاش کہ وہ دل میں ہے جو ہے وہ رواں کرے ایسا درود 
سب کہیں وہ درود 
بات مکمل ہو ورفعنا لک ذکرک 
اے کاش وہ سینہ میں اپنی شرح کرے 
الم نشرح لک صدرک 
اے کاش صدر مل جائے صدرِ ہاشمی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
اے کاش وہ بوجھ نازل ہو جس کے لیے کہا 
پیارے محبوب نے زملونی زملونی 
اور پھر وہ کہے سب سینوں کو 
ووضعنا لک وزرک 
یہ تو ہم نے سمجھی تفریق 
مگر فرق تو نہی ہے


شمش کی تب وتاب

شمس کی تب و تاب کی تاب نہ لا سکو گے اور حرف کی بندش کھل نہ سکے گی!  رنجش ہی رہے گی اور رنج سے جائے گا سراب. یہ حرف جو درد کا عذاب ہے اور یہی عشق کا جواب ہے اور عشق میں رکھا اک گلاب یے. گلاب میں خوشبو یے 
یہ خوشبو ہے کہ حرف آرزو ہے اور حرف ولا میں رکھا سوال یے جس کو ملے وہ چلے شاہا کے پاس

وہ مجھے لکھ رہا ہے

جو اسکی میں ہے وہ میں ہوں. جو اسکا علم ہے وہ میں ہوں  جو اسکی تختی ہوں وہ فقط میں ہوں  اسکی سیاہی مجھے لکھ رہی ہے. اسکا علم معلوم ہو رہا ہے. اسکی شہنائی بے صدا سے صدا ہو رہی یے. مجھے اسکی کیفیت منکشف ہوئی ہے. وہ صاحبِ حال کسی شخص میں لکا چھپی کا کھیل رہا تھا .... اسطرح سے وہ گمارہا تھا بندے کو اپنے حال میں. وہ اسکا یار تھا اسکو قال سے دور کردیا تھا. یوں اک مٹی کے پتلے میں صدا اٹھ رہی تھی جو اسکی شبیہ تھی اسکا آئنہ تھا. وہ دیکھتا تھا تو دکھنے لگا. وہ سنا رہا تھا تو سننے لگے کان وہ کہہ  رہا تھا کچھ علم نہ ہوا کس نے کیا کہہ دیا ...


بھٹ شاہ سے اک سوغات دنیا کو ملی ہے. وہ عشق کا ایسا سوز ہے جسکے درد سے کھوٹ نکل کے رقص کرتا ہے کہ کھوٹ بھی مسلمان ہے. گویا ضد نہ رہی ہو گویا اندھیرا نہ رہا ہو. گویا سویرے والے چھپ گئے ہو ...وہ بزرگ جو ہمیشہ کڑی دھوپ میں وقت گزارا کرتے تھے اور ہوا سے سرگوشی ان کا دین تھا ... لطیف شاہ سچ ہوگئے. سچ ہوئے لطیف شاہ اور پھر عصا لیے وہ یدبیضا لیے جا بجا پھرتے رہا کرتے رہے ..  تلاش کیسا گھماتی ہے جو آواز ہے اٹھتی اندر سے اور کرلایا بولایا انسان جابجا سرگرداں رہتا ہے. یہی ہوا پھر جو اک دن وہ حق کی آواز میں ڈوبے تو ماہ صیام شروع ہوگیا. یہ مہینہ ان پر ساری زندگی دائم ہوگیا اور ان پر قران اترتا رہنے لگا ..وہ قران والے بابا ...وہ صحیفے والے شاہ ہیں اس لیے بھٹ میں رہنے لگے تھے ... یہ جگہ جہاں سے یہ آواز سچل سائیں میں چلی گئی. یہ آواز منتقل ہے. اسکا انتقال کیسے ہوا ہے کبھی نہ جانا یے. انسان خود کچھ نہیں ہے یہ صدائیں ہیں جو اس کو مجھ سے ملاتی ہیں. یہ پریم کی نیا ہے ...یہ پریمی کی نیا جس میں لال سرخ بخاری نے سرخی بانٹی. ہوش کی زبان میں کمال کا بیہوشی سے غالب لہجہ تھا انکا. وہ آواز گفتار میں ہو تو باقی صامت جو صامت و ساکت ہو تو اسکے قفل ہو جائیں کھل ... وہ کھلے دروازے جن پر سرخ بخاری کی ھو پہرا دے اسکا کیا ہوگا. اس کے لیے شیطان بھی ڈر کے بھاگ جاتا یے جب نام حیدر لیا جاتا یے. نام حیدر کرار ثانی کی بات ہے. بس اوقات نہیں ہے


وہ کہنے کو لامثال ہے

درد کا واسطہ ہوں میں،  درد ہوں میں ..... محوِ درد ہوں ــــ بسمل ہوں میں ــــ رنجور ہوں میں ــــ اسی میں مخمور ہُوں میں ـــــ 

دل میں درد نے مجھکو اختیار میں لے لیا ہے ـــ میں نے درد سے کلام شروع کردیا 
کتنے دل، دل کے بنے؟ کتنی کائناتیں بنیں 
بیش قیمت! بے مثل!  لاجواب!  
عرضی سنی گئی کسی دل کی؟
جواب موجود کی صورت ــ  اللہ ھو 
ماں نے ساتھ لگالیا 
دوری نے درد بہت لایا 
درد نے ماں، مار مکایا
ہن دور نہ جائیں مٹھ سجن 
میری لاگ کو مل جاوے سجن 
حبیبی! حبیبی!  حبیبی 
مرا مولا میڈا حبیب ہویا 
دنیا ساڈی ہن ہوئ رقیب 
جڈ ساکوں مل گیا شکیب 
وجی تار اللہ دی 
وجی تار میم دی
واج لگدی یاحسین 
میں چراغ حسینی 
میں نورِ حُسینی

جلوے ہیں بہت ــــ رعنا شبیہیں ہیں ــــ قریشی قبائیں ـــ ہاشمی ردائیں ـــ آشنا ہوائیں  رنگ ہیں ـــ رنگ ڈیو!  رنگ ڈیو 

دل منگدا رنگ اے، مٹ جاون سب زنگ! رنگ ڈیو!  رنگ ملدا اے تے سانوں جلوہ بلیندا  اے 
جذب ہو جائیں گے ـــ درد میں کھو جائیں گے ـــ وہ لہر جس کو جانا ہے ڈوبنے اپنے سمندر میں ـــمرا  سمندر بلا رہا ـــ میں قیدی ـــ وہ بلا رہا ــــ اڑان ڈیو ــ سرکار اڑان ڈیو!  سرکار منت دل سے کردی! کچھ کریو ورنہ مرن جاون گے دل والے

وہ کہنے کے لامثل ہے مگر مثال ہے مجھ میں،  کہنے کو میں اک پیدوار ہوں علق سے، مگر نورِ حقیقی مجھ میں جل رہا ہے! میں جل رہی ہوں ـــ تشنگی ہے اور تشنہ کامی میں اسکے منگتے نے ہاتھ پھیلائے ہیں کہ دعا کو مانگے کیا؟  دعا تو دستِ دعا ہے فقط ترے لیے ہاتھ اٹھا ہے ... تو نے دل جو دیا ہے تو سب لے لیا ہے ــــ نواز دیے گئے ہم اسکی بندگی میں رہنے کو بندہ ہم ہیں ـ   ہم رہنے کے لیے یہاں نہیں آئے بلکہ اسکی یاد کے دیپ جلانے آئے ہیں!  گونج لگی .... ھو!  واج آئی؟  ھو ـــ راگ میں ہے ـــ ھو،  ساز میں ہے ـــ ھو ـ ـ کان بھی ہے ھو ــــ ساز میں لگی صدا ہے ــ ھو ـ   
جب ہوش ہو تو ہوش نہیں ہوتا ہے ـــ قسم اسکے سامنے جو منظر ہوتے ہیں وہ منظر سارے ادھورے ہوتے ہیں ماسوا حرکت کے وہ حرکت جو اسکا ارادہ ہوتا ہے ـــ اسکا ہاتھ اک نقطہ بن کے آواز لگاتا ہے ـــ وہ صدا جو چہرہ بن کے سامنے آتا ہے تو میں کہتی ہوں وہ جوگن کے پاس آیا  ــ جوگی نے جوگ دے دیا ـــ

کیفیت

اُسے یاد ہے وہ ذرا سی بات جس پر لکھا گیا ہے ریت سے کہ وقت پھسل گیا ہے رات میں مقام دل پر حرف اترتے رہتے ہیں. یہ حرف تیغ بہ کف جو دل کی حفاظت کرتے ہیں. تو سن راہی!  حرفوں کی حفاظت کر یہ عطیہ منجانب خدا ہوتے ہیں!  حرف لوح سے اترتے ہیں عرش دل ان کا ٹھکانہ ہوتا ہے!  تو "ن " اترا آ!  یہ حرف قلم بندش جذبات نہیں بلکہ تلاطم خیزی ہے!  یہ مل جائے جسے تو خدا کی جانب سے یہ بشارت ہے کہ عطیہ تقسیم کردیا گیا --- یہ مل گیا تو سب مل گیا اور سب ملا تو رب مل گیا --- کل کے مالک کے پاس عطائیں ہیں اور جو درود کے توشے اوپر سے اترتے ہیں تو طائر ان کو.سنبھال لے!  یہ کامرانی کی گھڑیاں ہیں یہ دعا جوقبول ہوئی یے اس کا نذرانہ ملا ہے!  یہ کاش صنم تراش سے پوچھے کوئ کتنا درد سہا جاتا کسی شے کو سنوارنے میں تجھے علم.ہو کہ خود سے خود کو نکالنے میں کتنا درر سہنا ہڑتا ہے تو جان لے اے دل کہ دردبھی تحفہ یے یہ حیات کا عندیہ ہے اور سجدہ ریز رہ کہ سجدے ردائیں ہیں جو بنٹ جاتی ہیں اور الغفار سے مل جاتی ہیں اپنے تن ڈھانپنے کی ردائیں ..افلاک میں رکھا دل سماوات میں رکھا ہے ..میم کی مثال نہیں کوئ اور حرف کمال میں رکھا یے. سوغات کو چاہیے کیا کہ دل سوٍغات میں رکھا یے. نباتات تو سلاسل ہیں اس کے یہ خوشا اسی بات میں رکھا ہے. سنو پت پت کی بولی. سنو بوٹے بوٹے کی داستان ..سنو موج رواِں کے فسانے یہ تیر جو لاگے نشانے ہر ہیں یہ خاص ہیں!  یہ  خاص ہیں

کیفیت ہے یا میں ہوں!  نہیں کوئی نَہیں -- خبر مجھے تک رہی ہے اور مخبری ہوئی -- چوری ہوا ہے کچھ مگر کچھ نہیں بچا -- تیر پیوست ہے جبکہ تیروں کی خیر نہیں! دل میں پیوست سہا بہت درد انہوں نے --- اک صدائے غیب ہے، اک صدائے کیف ہے!  اک مشہود ہے اور شاہد شہید ہے!  اکبر ہے وہ!  اکبر ہے وہ!  وہ کبریاء ہے جبکہ غلام اسی کا ہے. یہ غلامی ہے کہ بندگی میں کٹا سر ہے! دل کربل کی زمین ہے!  دل میں اجل نے تھام رکھا یے شاید کالا رنگ کہیں لیجائے گا. کالک والے سائیں نے اترنا تھا اس لیے اتر گئی ہے.... دیوار اسکا نشان یے جبکہ دیوار حائل یے ..

کسی کیفیت ہے کہ کیفیت میں سمجھ نہیں ہے کہ ہوتا کیا ہے یا ہوا چاہتا کیا ہے. یہ عروج آدمیت ہے؟  کیا حــــم سے کچھ ملا ہے؟ کیا عندیہ ہے؟  عند ما یشعرون کی بات ہے تو شعور کہاں سے آئے گا؟  فشرب بہِ!  پیا؟  کیا پیا جی؟  جو اس نے دیا ہے!  وہ دیتا ہے بتاتا نہیں ہے، ہم کیوں بتائے رے ... قریب ہیں ـــ کس کے؟  جس کے لفظ نکلے ـــ روح ہیں ہم ـــ خیال ہیں ہم ـــ کہانی ہوئی زندگانی ــــ منجدھار میں یٰسین لکھا یے اس یٰسین کی دھار بہ دھار پہ نوری شال!  لہریے در لہریے نور ہیں!  وہ نور جس سے اک اجلا ہیولا نکلا ...کہا الم میں نے ـــ وہ صاحب الم ہستی ہیں ـــ مجھے موج الستی یے ـــ


درد ترا مجھ میں بول رہا ہے

                                     
 درد ترا مجھ میں بول رہا ہے مجھ میں شور ہو رہا ہے --- لہر لہر کہانی ہے میاں ---- زندگی برموج زبانی ہے میاں --- کنارا ملتا نَہیں ہے اور آنکھ میں اشک رسانی ہے میاں -- ''کیف ھذا ''سے ''تکملو تعدلو'' کی بات سنا کریں ---- ''وتعدو وثبت والحق ''سے ''والجُملَ ''کی کہانی ہے ۔۔ میں نے حرف ہائے جملہ بقا کہا، بات ہے! سزا کی بات ہے-- انتہا کی بات ہے -- دلربا کی بات ہے ---شجر انتہا کی بات ہے -- ساز دل میں سادات ہیں -- یہ بڑی شان کی بات ہے ---                                                                                                                                                                                                            دل جمع ہے اور تنہائی کی بات ہے -- موجود ہیں --- نفی کی بات ہے --- کہانی رقم ہو رہی ہے اور'' میں ''رقم کر رہی ہے مجھے ---  ازلی اور ابد کی تیاری  کی ہے -- جس نے بھیجا ہے وہ اچک لے گا کسی بجلی کی مانند، پھر مرے پاس کچھ نہ رہے گا اور رہے گا کیا؟  نور الھدی کا آئنہ ہوں -- نور باقی رہے گا --                                                                                                                                                                                                                                       جب چاہے بلائے جب چاہے ستائے کون جانے گا کہ کلام العشق میں ''حب العطش ''سے واجب درود تلک کہ بیانی باتیں محض کہانی نہیں ہے، یہ شعلے جلے ہیِ دل میں -- پریتم کریو تے پریت کریو سارے زمانے نے چکھی نہیں پریت دی زہر -- میٹھی ہے وہ زہر ہے -- کھاؤ اور مرجاؤ -- مرجائیں گے میاں --- لہر لہر ہو جائیں گے میاں کاشانہ رسالت میں رہنے   والے اشکِ جوہر سےپوچھو کہ عزیز ہے یہ دل. ،وہ چاہیں جس کو عزیز رکھے اور وہ رحمت بانٹنے میں حریص ہیں --- وہ شاملِ حال ہے، جس نے حرف دیے زبان دی -- کیف کی سرحدیں ہیں یہ سرمدی لہریں ہیں --- یہ وجدانی باتیں ہیں -- یہ فہیم سمجھائے تو فہم میں آتی ییں کہ کاجل لگ جاتا ہے اور پھر سندر ہو جانے پر  حجاب کرنا پڑتا ہے۔ بس حجاب ضروری ،طواف ضروری. سندر ہی سندر کا طواف کرتا ہے

اپنے درد سے تھک گیا ہوں میں --- اپنی ذات میں سمٹ گیا ہوں --- ترے حجاب میں چھپ گیا ہوں --- تری ذات سے نکلتا نہیں ہوں اور تو مجھ میں حل ہے اور سطریں ترا عکس ہے --- عشق مسجود ہے جسطرح جبین نے عہد کیا ہے کہ کوبہ کو تو ہے تو جبین میں راز کیا ہے؟ یہاں سے تو ملا تو میری ذات مکمل ہوگئی --- میں نے تجھ تلک کا سفر شروع کیا ہے --- ذات مری گم ہو رہی ہے --- حل ہو رہی ہے --- موجہ ء دل گمشدہ --- ذات بحر بے کنار شد --- نیستی! نیستی!  نیست!  من کیست؟  تو نہاں؟  تو ہی عیاں! من شاہد --- اشھد مکمل ہوگیا --  شہادت مجھ میں ہو رہی ہے --- میں اپنی خودی میں شاہد ہوں -- من میں تو -- غلام منستُ --- من کجا؟  غلامِ توئی --- کیا نصیبا!  مرا نصیب اچھا ہے کہ ترا ہاتھ دل پہ رکھا ہے --- یہ پلکیں جھک کے صفائی کرتی ہیں۔۔۔ تری رویت!  رویت کو مطہر کرنا ہے تاکہ تری لوح کو چھو جائے دلِ نمازی --- حریم دل میں تری نیابت کے جھنڈے --- تو اپنا آپ خلیفہ ہے --- انسان نہیں کوئی بس جہاں ترا --- تری راجدھانی میں شاہ بن گیا ہے کوئی --- یا عزیز منست!  یا علیم منست!  یا خالق منست!  منم قربانم!  منم عصیانم شرمسارم!  معافی نامہ تحریر کردم!  یہ دل دھیان برد!  منم بردم تہہِ نہاں تو آیا ہے!

 لہر غم ہوگئی ہے میاں!  دھیان میں کھو گئی میاں --- تجھ میں منزل میری --- میری نیت کی سچی کہانی -- میری حیات کی گمشدہ کتاب -- ترے اوراق نورانی -- تو وجدان!  تو فرقان! تو جمالِ کی کہانی!  حق تو یے بمثال میم! 

حی علی الفلاح --- فلاح بہ خیر العمل نقارہ ء حق!  خیر البشر الواجد کی تحریر --- تحریر پڑھ لو ورنہ اپنی کہانی گم ہو جانی --- پانی میں پانی ہو جانی -- وہ محترم  ہیں اور میں احرام حرم کو لپٹی کتاب کو دیکھے جاؤں ---

اے ضوئے دل سلام
اے شمعِ فروزاں سلام
اے زندہ اسلام سلام
اے حیاتِ جاوادں سلام
اے شافی محشر سلام
اے ساقی کوثر سلام.
اے نوری ہالے سلام
اے ذو وقار سلام

شب قدر کی رات

میں تمھیں بتاؤں اک بات کہ شب قدر کی رات دیدار کی رات ہے تو تم کو یہ بات مطلق سمجھ نہیں آئے گی. اطلاق سے نہیں انتقال سے سمجھ آئے -- دعا کیا کرو شب قدر میں صحیفوں کا انتقال ہو کیونکہ قران پاک کو مطہرین چھو سکتے اس لیے خدا فرماتا یے وثیابک فاطھر --- نیت ایسا بیچ ہے جب شجر الزیتون ہو تو ہر بھرا -- شجر الزقوم ہو صم بکم کی مثال ہوگئی -- نیت سنبھال نہ سیکھ لے ورنہ پتے کھلنے بیل بوٹے لگنے سے پہلے خزان نہ آجائے --- اٹھ مثلِ شجر سائبان یو جا-- مسافر کو چاہیے کہ زادراہ محبت کو جانے -- تسلیم کو تحفہ سمجھے -- نیاز تقسیم کرے -- خدمت کو شعار بنالے -- اے نفس -- قلب سلیم ہو جا کہ  فواد سے رابطہ ہوگا--- کلمہ کفر کا پڑھنے سے زندگی میں اندھیرا ہوا تھا --- اجالا زندگی یے اور حرا مقام دل میں وہ نشان یے جہاں طائر حطیم سے اڑتے ہیں اور منبر تلک آتے ہیں -- دانے چگتے اور غٹرغوں کرتے --- شہباز لامکانی کا ایسا پرندہ ہے جس کے پر اتنے قوی ہیں کہ ہواؤں کے سنگلاخ سینے پر داستان رقم ہو جاتی یے ---* کوہستان -- بیابان-- میدان کچھ بھی ہو یہ مراد ہوتے ہیں اور با مراد ٹھہرتے ہیں --- یہ کومل تلک جو ماتھے پر ہے یہ ھو کا نشان یے --- جب یہ نظر میں ہو تو طائر کو نشان مل جاتے ہیں --- تخیل کی تمام پروازیں ہیچ ہوتی ہو جاتی ہیں جب انسان کو نگاہ مل جائے *-- نگاہ ملے تو خیال مل جاتا یے --- محبوب خیال میں یے اور تو بھی محبوب کے خیال میں -- یہ جو خیال ملتے جاریے ہیں یہ عندیہ ہیں کہ واصل ہونا دور نہیں --- آیات ترتیل ہو جائیں تو قندیل روشن ہوجاتی ہے --- اصل کام یہی یے

کوئ حرف نہ کمال رکھا ہے --- دل شاہ کے پاس رکھا ہے --- جسے دیکھا اس نے رخ پر نقاب رکھا ہے -- شمس کے آگے سحاب رکھا ہے -- دل کو مانند کباب رکھا ہے -- دھواں حق کی مثال رکھا ہے -- مری بات بات میں حال رکھا ہے -- کہاں پہ اس نے کمال رکھا ہے -- جان کو وبال میں رکھا ہے کہ ہجرت سے بیحال رکھا ہے -- بمانند کعبہ دل بیمثال رکھا -- دل میں ریشمی رومال رکھا ہے --- ایسا اپنا کمال رکھا ہے --- موئے مبارک سے مہک رہا ہے چمن ---مبارک یہ شے ہے جس نے حذر میں ڈال رکھا ہے -- حیات فانی ،  رگ جاودانی،  میں کہانی،  ستم نوک سناں،  سجدہ قرانی،  انجیر شاہ ثانی،  طریق شاہِ زمن،.... یہ بجلیاں گریں،  نشیمن جلے -- کچھ خیال کر،  کر خیال ورنہ مر جانا،  مر جانا اچھا ہے!  مر جا!  مر جا!  مر جا!  دھواں!  یہ دھواں اٹھا!  یہ جا!  وہ جا!  موجود وہ! ہم نیست و نابود

درد لافانی ہو رہا ہے

وُضو کا طریقہ تھا اک سلیقہ تھا. وہ تھا دل کو نیت کے وضو سے پانی کرا دیا جائے ... پانی تو اخلاص سے ملتا ہے پر کچا ترا گھڑا ہے. جس سے پانی گر جائے ...برتن پکا ہو تو بات بنتی ہے ... یہ باتیں کہنے والے سے کہہ دو کہ کہہ دیا جائے اسکو سن لیا جانا چاہیے ورنہ بات سنائی جاتی کہ ضرب لگا دی جاتی یے. ہھر بسمل بن کے شور مچاتے ہیں کہ منوں پچھو ماں نی، میرا حال نہ کوئی ہے ... زمین پہ گلاب سجے ہیں خوشبو سے مہک رہے ہیں ہر شجر اور پتے لہریے دار بل کھاتے سلام عشق سلام عشق سلام عشق کہی جارہے ہیں ..وہ آجائیں تو وہ یہاں موجود ہوں گے وہ خود یہیں ہیں میں بس فنا نہیں یوں ..اے خدا فنا کی مٹی چھکا دے مجھے اپنا بنا لے ....یہ لگن سے چلی اک وادی یے جس میں می رقصم مانند شرر بودم والا یے ...مقام دل کہاں یے؟

لافانی ہو رہا ہے 
روحانی ہو ریا ہے 
دل دیکھیے مترجم کی کہانی ہو رہا ہے 
شمس کی طولانی ہو رہا ہے 
آنکھ کی زبانی ہو رہا یے 
جلے دل کی نشانی ہو رہا ہے.
یہ دل مانند پیشانی ہو رہا ہے 
اچھا کلام ربانی ہو رہا ہے 
کعبہ میں اترے گا دل کبھی 
کعبہ دل سے طواف طولانی ہو رہا یے 
کاجل لاگ گئے ـــ لاگی من دیپک کی نشانی ہو رہا ہے 
دھواں موم سے اٹھ رہا ہے
لہریہ ہوائیں ـــــ جذب عشق مستانی ہو رہا یے 
نعرہ ء دل میں عشق کی گرانی 
مرا دل وجود کی دھانی ہو رہا ہے


دل کو لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے؟

تمہیں دل کہوں؟
دِل کو لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
تم کو مگر خیال پر دسترس نہیں 
خیال پر تم کو حضوری حاصل نہیں 
جب مرا خیال مجھ میں حضور نہیں اور کورے کاغذ جیسا سیال ہوں جسکا ہر حرف نگاہ سے بنتا ہے، مجھے لفظ بانٹنے کا کہنے سے کیا جائے گا مین حرف دل کی پجاری --- میم----حے ------میم----دال -- الف نہیں یے اس لیے دو دفعہ میم یعنی میم کے اوپر میم ..گویا نور علی النور --- گویا زیتون کا شجر بھی ہم رنگ ہے گویا شاخ انجیر میں مجلی ہتے "حے " جیسے ہیں گویا "دال " ایسی یے جیسے کلام کرے. تم نے محبوب کا حسن دیکھا میرے؟ اگر کبھی دیکھو تو پاگل ہو کے کہو میں مجذوبِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہو ... دِل تو دِل کی سنتا ہے تو بوجھ ہلکا ہوتا اگر تم ان کی زلفِ پوشیدہ کا نور دیکھو تو سمجھ آئے گی غشی سی طاری رہتی یہ صدائے غنود --- جسطرح لیل میں شمس موجود ہوتا ہے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی رات میں موجود ہوتے ہیں اور اپنی کملی کا زلفِ نور کا سایہ کیے رکھتے ہیں اس لیے ہم چین کو سوجاتے ہیں مگر وہ لوگ جن کو جلوے کی تابش میں جلنا یوتا ان کو اس سے چین نَہیں آتا، پھر جب کملی ہٹاتے ہیں کائنات سے تو صبح ہوجاتی یہ سحر خیزی ..اس لیے پرندے اللہ ھو -- کرتے جبکہ چڑیاں چہچہاتی،  جبکہ پتے لہلہاتے، شبنم گرتی یہ آنسو خوشبو سے جدا ہونے کا جان لیوا ہوتا ہے .... ان کے چہرے کو جب دیکھو تو نگاہ جھک جائے جبکہ دیکھا ہے نہیں یہ تو گمان سے نکلتا نور ہے جو مرے سینے میں معجزن یے کہ شاید وہ دیکھ رہے ہیں --- اللہ آنکھوں کو پالیتا ہے اسیطرح وہ بھی آنکھوں کو پالیتے ہیں ...یہ حسن ملکوتی ہے جس کی مثال ملے گی نہیں اور بندہ گم صم ہو جائے گا --- دل کی فصل میں لالہ ء جنون کھل گیا ---- دل کو عندیہ ء بہار مل گیا

نور ہے! چار سو نور ہے!  نور کی پوشاک ہے! نوری ہالے ہیں!  یہ اسماء کیفیت والے ہیں!  یہ حرف پیامِ شوق والے ہیں! یہ نگاہِ شوق کا بیان ہے دل میں معجز بیانی کہ کہاں سے چلے ہم اور کہاں تلک ہم جائیں گے ... سیاہی بھی محجوب ہوگئی -- شرم سے -- حیا سے --- ردائیں، نوری دوشالے میں صحنِ نور ہے جس پر مجلی آیات ہیں .... یہ استعارہ ہے یا نقشِ علی پاک جس سے میرا ستارہ منور ہورہا ہے....   ستارہ سحری جسکو صبح کو نوید ملی یے --- آشیانہ تنکا تنکا کرکے جمع ہو تو ضائع ہو جاتا اور بنا بنایا زمین بوس مگر جو شہر دل ھو کے ویرانے میں رہے --- وہیں کاشانہ ء رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود ہوتے ہیں --- وحدتِ کل،  امامت کل،  تاجدار کل،  علمِ کل،  قدسی سلام بھیجتے ہیں 
یہ ترے قدسی کے ان کے قدسی سے ربط ہیں 
کتنا شاداں بخت ہے تمام جن و انس کے قدسی بہ نسبت اسی صورت وہاں موجود ہوتے جس قدر یہاں 
جس کے دل کا تار مل جائے تو کہے 
وجی میم دی تار 
سانوں مکایا مار 
اشکاں دے اے ہار 
ہوئے دل دے آر پار 
شمع دل اچ وسدی اے 
ہور نہیں کوئ دسدا سے

تم پتھر نہیں ہو 
تم نوری ہالہ ہو 
کبھی خود کا حسن دیکھا؟  
تم دیکھو صورت تو مخمور ہو جاؤ 
وہ درون سے نکلا تو بہنے لگا نور 
یہی بہنے لگا ہے پھر بین السطور 
تم نے جانا ہوگا کہ عشق میں معشوق وہ خود یے 
لازم یے دل!  اگر تم ہالہ دل سے پری مثال خود کو دیکھو تو کھو جاؤ 
تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟
آسمان کی چھایا یے.
برسات ہے!  برسات ہے!  برسات ہے!  گگن برسے،  لالی نے دی تنہائی اور تنہائ میں شہِ کربل ہیں 
وہ مری تنہائیوں میں رہنے والے عین روئے علی ہیں 
وہ عکسِ فاطمہ رضی تعالی عنہ ہیں 
یہ وہ خاتون ہیں جن کی قدموں کی خاک کہیں سے مل جائے تو چوم چوم کے مر جائیں گے وہ اس قدر لائق محبت ہیں!  وہ ہمیشہ سفید چادر میں رہتی ہیں جن سے کشش کے تیر نکلتے رہتے ییں

چارہ گر سے سوال

میں نے چارہ گر سے سوال کیا کہ یہ قفل کیا ہوتا ہے؟  روح کے مقفل ہونے سے مراد کیا ہے؟ کیا گیان سے ہمیں معلوم کی دنیا مل جاتی ہے؟ کیا گیانی ہونا پڑا گا؟  کیا مراقب ہونے سے پہلے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ کس وجہ سے یہ کیا جارہا ہے وہ قفل کیا ہے؟  اگر مجھے علم نہیں تو لا علم ہوں. لا ہوں اور علم تو ہے ... میں تو اکٹھے ہیں ..... ------ 
روح اک اسرار ہے اور اسرار اسے کہتے ہیں جسے عام فہم نہ جان سکے اور اسکے پیچھے وہ بھاگتے جن کو صدائے غیب بلاتی ہے *-- غیب امر ربی سے مل جاتی --- غیب میں داخل وہ ہوتے ہیں جن کو خبر مل جاتے ہیں اور یہ سجدہ ہوتا جو ان کو اس امر جہاں میں داخل کرتا ہے تم کو بھی جان لینا چاہیے کہ ہم جب امر غیب میں داخل کرتے ہیں تو کا وجود ہوتا ہے بس یکتائ ہوتی. دوئی نہیں ہوتی بس لیلی مجنوں اور مجنوں لیلی کا آہنگ --- رنگ اک ہوتا ہے تو جس کو مل جائے اسکو راز سے پردہ اٹھنے پر جان لینا چاہیے  کہ غیب اخبار کے جیسا ہوتا ہے سطر سطر ہوتی کائنات ہی اور آیت دل میں اتر رہی ہوتی ہے تو جان لے اے دل!  تجھ پر لازم ہے کہ راز کی پاسداری کر کہ خدا جفا پروری پسند نہیں کرتا بالخصوص ان سے جن کو وہ دل میں اپنا مقام دے ...روح مرا دل جیسی نورانی ہے، روح بمانند قران پاک روشن ہے روح میں کلمات و کنجیاں ہیں جو کہ ہر روح میں موجود اسرار ہیں .. تمام کی تمام تو اک کامل و اعلی ہستی میں وجود پائیں اور باقی عکس جس کا اس نے اتنا پالیا جس کو جتنی رویت ہوئ --- تو چہرہ محبوب جس جگہ پڑا گا روح نور علی النور کی مثال ہوگا --- نور پر جب نور پڑے نہ تب تک وہ نور ہجرت میں لپٹا آہیں مارتا کن صدا کو یاد کرتا رہتا ہے جب اس پر نور ڈالا جاتا ہے تو وہ نور اسکے لیے نئے جہانون کی سیر ہوتا ہے وہ نور جو اس نور پر ڈالا گیا دونوں کا عکس اگر ایک ہو تو وحدت مل جائے گی. یہ وحدت چاہیے روح کو یہی دوئ کا احساس ختم ہو جائے تو وہ جانے کہ بادل جو چل رہا ہے اسکو "لام " حرف سے تقویت ہے جبکہ ہواؤں کو حرف "و " سے تقویت ہے پتوں اور اشجار جو حرف الف سے تقویت ہے پہاڑوں کو حرف عین سے تقویت ہے،  مٹی جس میِ سوتے پھل بوٹے اگتے ہیں اسکو نقطوِں سے تقویت .انسان کو حرف "ن " سے تقویت ہے جو مثل نور ہوتے ہیں تو کسی کو مانند عکس پہاڑ شجر مٹی فلک بادل سے تشبیح ہوتی ہے. یہ جو اشیاء تحریک میں چل رہی ہیں یہ حروف سے متحرک کہ اب حروف میں نور ان کو چلا رہا ہے اور حرف متحرک مری کن سے. یہی روح کا قفل ہے ہر روح اپنے مصوری کے لیحاظ سے مختلف ہے اور ہر روح کا لفظ جس سے وہ چل رہی ہے وہ مختلف ہے جب وہ لفظ تجھے ملے تو جان لے وہ اسمِ اعظم یے مگر اے دل اسمِ اعظم کی عطا اس پر ہوتی ہے جس کو آزمائش پاس کردے جس کے امتحان میں نتائج اچھے ہوں. گزر اس امتحان سے کہ عطا باری تعالی ہو کہ یہ فتح مبین یے. یہی بشارت ہے

ہاں آہنگ اسکی سطوت ہے رات میں وہ موجود ہے شام اسکا وجود ہے صبح میں وہ شہود ہے ظاہر کی آنکھ نہیں دل بینا کا قصور یے کہ آنکھ میں سرمہ ضرور ہے رات میں مہک اور چاندنی سے کھل رہا ہے موسم یہ تو غش کھا کے رات گر پڑی جب وہ لٹ محبوب کی چھا جائے گی ... صلی اللہ علیہ والہ وسلم موسم کا نہ ہونا ہی اسکا یونا یے طائر کا وجود گراں کیسا ہے کہ شہباز اسکا مانند نور رقصاں پرواز دگر بار دگر کہ جلوہ ہست ہزار نمود شان و شوکت گویائی سب گم ...
ابھی جلوہ نہیں ہے ابھی تو شام نہیں یہ پہر گزر جائے گی وہ رات جس کی کملی کالی ہے وہ دن جو طٰہ والا ہے صلی اللہ علیہ والہ وسلم قسم خدا کی وہ ہر جا موجود ہیں بہار وہ ہیں خزاں محسوسات فراق کا نام ہے کہاں نہ ہونے کا نغمہ ہے؟ بس ہونے سے یہ کار جہاں چلا ہے یہ زیست ناتمامی میں گزر رہی ہے اور گھڑی شہ الفت میں مگن میں سردار گھڑی وہ ہے جب راز نہاں کھل جاتا یے مفتوح وہ علاقہ ہے جس پر غشی چھاجائے وہ عنوان یے جسکا نام و نشان رہے جہاں خدا ہے وہ غالب ہے وہی غالب رہے گا انسان مغلوب یے وہ مغلوب رہے گا نائب وہ ہوتا ہے جو سوار رہتا ہے ہر وقت نیابت کے ذمہ ہے شعور ہمہ وقت جانب  محبوب ہو ..

تمھارا ہونا باعث رحمت ہے

تمھارا ہونا باعثِ رحمت ہے کیونکہ ہم میں سے رحمت وسیلہ ہے اور حیلہ بنتی ہے خدائی نعمت کا . قلم نعمتِ رب ہے ... یہ اسی طرح ترقی کرتا ہے جسطرح حرا کی وادی سے روشنی پھیلی . اقراء پہلا مقام ہے اور کائنات کی میم کے سائے بُہت. سمجھوں جس نے میم کا سایہ پالیا اسکو رحمت بنایا گیا بوسیلہ رحمتِ میم کے. رمز انوکھی ہے مگر رمز آخر ہے درست. سایہ بھی ان کی کملی. پوری کائنات اس کی کملی سے مانگ کر کھارہی. سوال اٹھتا ہے وہ  "یا ایھا " لفظ جو المزمل یا المدثر کیساتھ لگتا ہے، وہ یا ایھا لفظ تو میں تم  کہوں جیسے "سنو مرے دل " جب میں ایسا کہوں تم مجھے احساس ہوگا کہ دل تو مرے سامنے ہے جبکہ ہم یا ایھا کہتے ہیں تو ہمارا دل ہمارے سامنے نہیں ہو سکتا؟ ہم سے کہلوایا جاتا ہے یا ایھا ..یہ رب کی زبان ہے جبکہ کہہ ہم رہے گویا ہم رب کی مثل اسکے محبوب کو پکار رہے. کیا تم کو لگتا کہ ہمارا نفس ساتھ ہوگا اسطرح کی نعت میں؟  نَہیں !  اگر نفس ساتھ ہو تو عیاں تک نہ ہو یہ نعت ہے. اسطرح جب میں کہوں اٹھو اور جاؤ  عید مناؤ .... عید تم منارہی ہو کیونکہ میں نے کہا ہے مگر جب قران پاک کھولو تو اللہ فرماتا ہے حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم مبشر ہیں ...ہمیں خوشخبری دیتے ہیں ..کون سی خوشخبری . ... کیا جنت میں ان کا جلوہ .... جنت ان کو جلوہ ہے اور بنا جلوے کے تو شیطان بھی رہا کرتا تھا ...ملعون ہوگیا ...یہ جلوہ آدم علیہ سلام کو ہوا تھا ...دیکھو کیا خوب معاملہ ہوا ان کیساتھ ..جب رب نے ان کو علم الاسماء دیا یہ اسم کتنے حرف پذیر سماعت ہوں گے کہ جیسے خدا نے کہا ہوگا تو کن لفظ ہے؟ نہیں یہ قفل کی چابی یے کہ ہوجا ..جب سورہ المدثر میں رب نے کہا "قم " تو یہ اسم بھی کنجی ہے کہ اٹھو تمھاری روح کے لیے اس منصب کا در کھولا گیا یے. اس منصب کو نذیر کہا تحفہ کہا گیا ہے. یہ توشہ رحمت...  یہ ہادی الامم ہے ...قم کی کنجی ہر پیامبر سے چلی آئی ہے مگر کیا خاص بات ہوگی اس قم میں جو آنجناب عالی سرور عزت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ملا ...اصل میں یہ نعمت ہے جو چل رہی ہے جسکو کہا گیا انا اعطینک الکوثر ...یہ کوثر کا فیض ہے جسکو وارث کے طور پہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے آگے مومنین میں منتقل کرنے کا ذمہ معبود برحق نے لیا ہے. یہ روحانی علوم ہیں جن کو انشراح صدر کے بعد معلوم کے دل میں اتارا جاتا ہے. یہ معلوم کون یے؟ یہ وارث جسکو علم دیا گیا وہ معلوم ہوگیا اس لیے قران پاک نے فرمایا ھل یستوی 
..کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ..سنو ..علم جلوے سے ملتا ہے ..جسکو جلوہ نہ ہو تو سمجھو وہ لا علم ہے جسکو علم نہ ملا تو اس کے لیے لفظ ایسے ہیں جیسے وہ چابی جس کو تالا نہ ملا .... جب آپ کو خالی چابی مل جائے تو آپ اسکو طاق میں سجا دیں گے یا پھر اسکو سجانا تو کجا اسکو لینا چھوڑ دیں گے کہ چابی کا استعمال آپ کی نگاہ میں کچھ نہیں یے ..  اس لیے ہر قفل کے لیے اک چابی ہے. تمھاری روح مقفل ہے مری روح ...یہ لفظ چابیاں ہیں جن سے ہماری روح کے قفل کھلیں گے. اب ان چابیوں کی شنا خت لازم امر ہے کہ کس لفظ سے ہماری روح کےقفل در کھلیں گے. جونہی یہ کھلا روح آزاد ہو جائے گی. آزاد روح غلامی قبول نہیں کرتی. یہ سیر کرتی ہے جہاں جہاں کی. اس کے لیے آسان امر ہے کہ فلک پر جائے یا ناسوتی ء خلق کے عظیم الشان اجلاس کو جا کے دیکھے یا معلق رہے. اے عزیز من!  یہ دل کھوگیا ہے ان کنجیوں میں جیسے تم نے اگر اسرار معرفت تلک اس سیڑھی تک جانا یے تو پرواز کی انتہا تلک کی تمام کنجیاں اک حرف میں پیوست ہوکے تیر کے نشان کے مانند تمھارے دل میں حلقہ بنائے رکھیں گے. پھر جو کوئ اہل ظر گزرے گا وہ بتا دے گا کہ الف واسطہ ہے کوئ کہے گا میم واسطہ ہے کوئ کہے گا ح واسطہ ہے کسی کو ع واسطہ لگے گا مگر مری جان یہ اسم نہیں ہیں یہ حروف ہیں یہ حروف یکجا ہوکے مل جائیں تو ہم روشن منور تجلیات کو سہتے ہیں جس کے لیے اللہ نے نور علی النور کی تشریح ہم کو بیان کی یے ..  اب سوال یہ ہے کہ کون ہم کو بتلائے کہ ہم کیسے اسراد کی تلاش میں خود سے پوچھیں ..  اسکے لیے مرشد کی ضرورت پڑتی یے مرشد مجاز میں مل جاتا ہے یہ روحی روحی چشمہ ء کوثر بھی ہوتا ہے ..بس تجھ کو کسی روح سے نسبت ہو تو سمجھنا لازم یے وہی تری آیتِ کوثر ہے

انسان کو کان چاہیے

انسان کو کان چاہیے ہوتا 
دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں 
دل بھی کان بن جاتے ہیں 

بعض اوقات خاموشی کے شور کو سننے کے لیے خاموش ہونا پڑتا ہے.  شور مگر حشر خیز ہوتا ہے. میں تو یہی کہتی ہو کہ میں شور ہوں تو وہ کہتا ہے بحر بن جا. میں کہتی سکوت میں بھی شور ہی ہے - ترے ہجر کا شور مرے دل میں پڑتا ہے تو دل پھٹ جاتا ہے - کہتا تو سن بھی لے سہنا تو بڑا مہنگا کام ہے - میں کہتی ہوں اپنا بنالے سارے کام ترے مرے اچھے - مجھ تو دوری مار مکائے گی 
قسم شب تار کی جب زلفیں گرادے - قسم گھنیری رات کہ جب یہ رخ سے ہٹ جائے تو منظر واضح ہو جائے - قسم شمع نبوت کہ مری ہستی نہیں ہے - قسم اس ہاتھ کی جس نے مرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا ہے --- وہ ہاتھ اسکا سایہ ابھی تک محسوس کرتی ہوں -- قسم ان کے سائے کہ احساس حقیقت میں ڈھل جائے - مرا گزارہ شفایاب ہونے میں ہے وہ دوا مل جائے اس در سے کہ کیمیاگری ہو جائے تو ذات کا گوشہ گوشہ دھل جائے سب رستے واضح ہو جائیں

میرے دو ٹکرے ہیں - اک خُدا ہے اک امام حُسین ہیں -- جب یہ دونوں بولتے ہیں تو میں خاموسی سے دیکھتی ہوں -- مگر مصور ہر وقت رنگ نہیں دیتا مجھ کو -- جب اندر جان ملتی ہے تو باہر بے جان ہوجاتا - جب باہر توانا تو اندر کھوکھلا - امام حُسین کو خدا فلک سے دیکھ کے مسکراتا ہے اور وہ سجدے میں بھی کلام کرتا ہے تو خدا مجھ سے کہتا ہے اسے بندگی کہتے - میں یہ نظارہ دیکھ کے تڑپ سی جاتی ہوں اور کہتی ہوں مری تڑپ کو سکون کب ملے گا تو کہتا ہے حُسینی ہو جا - میں مسلسل تپش میں رہتی ہوں - آگ میں رہنے والے ٹھنڈی آہیں بھی بھر نہیں سکتے - وہ ایسا کریں تو زمانہ ان کو جھلسا جھلسا کے مارے گا - یہ خدا نے کہا ہے کہ تجھے تو مرا ہونا ہی ہے مگر قربان ہو کے پاس  آ - بھلا بتاؤ کہ قربان کیسے ہوجاؤں؟  جب تک اسے نہیں دیکھوں گی تو مجھے ہوش رہے گا جبکہ صاحب ہوش وہی ہے جسکو ہوش نہیں ہے - یہ زمانہ نہیں سمجھتا ہے میں بھی نہیں سمجھتے مگر مرے سر پر اک سایہ ہے -- وہ سایہ امامِ حُسین رضی تعالی عنہ کا ہے -- میرا ان سے کیا رشتہ ہے کچھ ہوگا اس لیے قربت کا احساس رہتا کچھ ہوتا ہے تعلق کہ تعلق کے بنا دل نہیں تو کبھی سیدہ بی بی پاک سے دل میں وہ طہارت اٹھتی کہ دل جھک جاتا مگر وہ کہیں نہیں ہوتی تو میں پھر ان کے لیے جھک جاتی یوں لگتا کہ ان کا سایہ ہے ان کی نگاہ ہے مگر وہ نہیں ہے جلوہ نہیں ہے یہ تڑپ ہے کہ ان کا جلوہ ہوچکا ہے تو آہٹ آہٹ پہ ان کا گمان ہونے لگتا ہے تو کبھی مجھے مسکراتے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم دکھتے مگر وہ ہوتے نہیں ہیں جبکہ ان کی مسکراہٹ بھی جلوہ تھی یہ تصاویر بسادیں دل میں جن سے مالک تڑپا رہا مجھے میں تڑپ رہی کہ میں نہ چھوڑ سکتی نہ پا سکتی مجھے عیاں ہے حال بسمل کیا ہے عیان ہے

حسین احساس

یہ حَسین احساس ہوا ہے کہ لگتا ہے احساس سب یے- کسی کے دل کے جلے ہوئے کو دیکھنا بھی تحمل سے کام ہوتا ہے - جب انسان جلتے کو دیکھتا ہے تو جذباتی ہو جاتا ہے- وہ کہتے ہیں اس نے دیکھا - دیکھ وہ رہا ہے مگر ہم سب کہتے ہیں کہ ہم دیکھ رہا ہے- نظر نے نظر سے ملاقات کرلی --- یہ بس پھونک دیا تن من اور تن من کی لاگی آگے منتقل ہوگئی - یہ کیسے ہوتا ہے - جب درویش بابا کہے اللہ ھو - اللہ اللہ کہنے سے اللہ نہیں ملتا بلکہ یہ آواز کی شدت ہے جو دل کے تار رگ رگ میں جوڑتی ہے - اے دِل تمنا ہے کہ اس سرمئی شام میں اللہ کو اس شدت سے یاد کریں کہ وہ ہم پہ نظر کردے - پھر نظر ہو جائے تو دل نشان ہوتا یے- آیتہ اللہ، وجہ اللہ ہو جاتی یے پھر جو کہتا ہے اللہ کا دیدار ہوا اسکو حقیقت میں اللہ کے بندوں کا دیدار ہوتا مگر دیکھ وہ اللہ کو رہا ہوتا ہے یہ راز ہوتا ہے کہ نظر نظر سے ملاقات کرے تو رات ہو جاتی ہے یہ باہم رشتہ ہے رات کا چاند سے کہ چاند کو سورج چاہیے وہ بھی رات --- چاند اللہ سے ضد کرتا ہے تو اللہ جب رات میں شمس اتارتا ہے تو جلوہ ہو جاتا اب کہو رات سورج ہے یا سورج رات ہے تو صبح بھی رات ہے اور رات بھی صبح یے یہ حال والے ملیں گے تو کہاں سے ملیں گے کہ کمال کا سرمہ نصیب نہیں ہے


تم بھی راز ہو اسکا، میں بھی راز - ہم سب انسان اسکا راز ہیں اور اکثر میں سوچتی ہوں یہ راز اشکار نہیں ہوتا ... اندر وہ صدا لگاتا ہے تب ----- کہ میں ہوں --- اطمینان ہوجاتا ہے --- پھر کوئ کتاب، کوئ محفل دیکھتی -- کسی کو نعت پڑھتے دیکھتی -- تو شوق تڑپ سے بیقرار ہوجاتا اپنا لکھا پڑھتی تو اور تڑپ میں دل میں ہوک سی اٹھتی ہے--- میں اپنی آگ میں جل رہی --- اپنا لکھا ہوا عزیز بھی ہے -- یہ سلگاتا ہے، تن من جلاتا ہے -- داتا ہیں نا لاہور والے --- وہ بہت اچھے ہیں ہمیشہ دور سے دیکھتے -- قریب نہیں آتے پر مسکراتے ہیں --- داتا ہیں ایسے دیتے کہ بندہ کہتا یہ خوان اترا کہاں سے اور ہھر وہ انجان بن جاتے -- میں سوچتی ہوں داتا ہیں اور بے نیازی اللہ والی ہے --- یہ قصے ہیں دل کہ بیباک ہوگئے ہیں مگر مجھے سب بھول جاتا ہے مجھے لگتا ہے کہ سیدی حُسین کی خوشبو سارے جہاں میں ہے --- وہ آیتِ تطہیر ہر جگہ ہے مگر کسی کو وہ دکھی نہیں ہے وہ سرخ رنگ کی لعل نشانی جب دلوں میِ سماتی ہے تو بندہ کہتا ہے 
لعل سے لعلی اور حال سے بیحالی 
رات میں چاندنی ، باقی سب مایا 

یہ حقیقت ہے کہ میں حقیقت ہوں -- میں حقیقت ہوں -- یہ خدائ حقیقت ہے - نفس کو موت مل جانی ہے تسلیم کے وضو سے تو چہار سو میں وہی ہونا ہے انا فی البحر - انا انی لا تموج --- رکھ لے ہتھ مرے سر تے مینوں لے چل ساتھ اپنے - اس نے کشش کی دوڑ مرے گلے میں ڈالی ہے اور میں کھینچی جارہی ہوں اس دوڑ میں - مینوں لبھے نہ کوئ ہور ... خالی گھڑا زور سے بجتا ہے خالی گھڑے کی باتیں ہیں بھرا ہو تو خاموشی کی دبیز تہہ میں ہوتا

احساس کے معانی

بات کرتے کرتے احساس کو نئے معانی مل جاتے ہیں --- دیوار کو بھی تو کان مِل جاتے ہیں --- شاید کان کو مل رہی مری آواز -- میں تو شاید کھو گئی ہوں اور جوگی بین بَجا رَہا ہے.  اسکا درد سن رہی ہوں برسوں سے، اسکا درد جب دل میں اترتا ہے تو پھر دل کہتا نماز پڑھ. ------ نماز کو پانی چاہیے --- وہ کہتا ہے میرا درد پانی بن کے نکلے گا تری چٹانوں سے تو میری آہیں سنیے گا کہ کوئ نہیں محرمِ دل کس کو سنائیں گے حال دل؟  یہی کہ اللہ نے فرمایا اللہ درود پڑھتا ہے؟ اللہ کو دیکھا ہے؟  اللہ دل میں تمھارے تو تم نہیں وہ درود پڑھتا ہے یہ راز کسی نے نہیں جانا نہیں بندہ درود پڑھ نہیں سکتا جب تک وہ درود پڑھے نا تسبیح توڑ دو اب دل کی تسبیح شروع کرو وربہ دل ٹوٹ جائے گا

وہ کہتا ہے کہ مجھ میں چھپ جا، وہ کہے اور دکھے نہ تو بندہ کیسے چھپے اور کیسے وہ ظاہر ہو؟  وہ ظاہر ہے تو اللہ ظاہر ہو تو دیکھے اپنے آئنے کو --- اسکا آئنہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ..جب تک اپنی نفی نہیں خدا نہیں ملتا خدا نہ ملے تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کلمے میں پڑھنے سے کیا حاصل ہے ..پہلے خدا دیکھو جا بجا پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو جا بجا ... یہ روح پڑھتی نہیں کلمہ بلکہ یہ چادر بن کے تن جاتی کلمے کی جب کہ زبان کو سمجھ نہیں آتہ لا الہ الا اللہ کا مطلب کیا ...اللہ کو ہم دیکھنے نہیں دیتے اپنے محبوب کو تو ہم کہتے اللہ تو نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا. اب بھلا بتاؤ اللہ اچھا کیوں نہ کرتا کیونکہ وہ بھی چاہتا اسکے محبوب کو دیکھیں جب اللہ محبوب کو دیکھتا ہے تو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں ...یہ دیکھو محبوب کو دیکھو نظر کتنی پاک کرنی پڑتی ہے ... یہ نظر پاک اللہ کے نام سے ہوتی اللہ کہتا اللہ کا ذکر کر مگر میں اسلو کہتی درود پڑھوں گی پھر وہ مجھے دل کے کالے گند سیاہ غلاظت دکھا کے کہتا دل صاف نہ ہو درود کا فائدہ سو میِ یہ سوچتے کہتے اللہ کا ذکر گھر صاف کرکے کہتے تاکہ وہ آئیں گھر تو دل مجلی ہو مگر کون جانے کون کس حد تک ہے میں کہاں جاتی ہوں میری حد کیا ہے مجھے مرہ حد مل جائے تو کام بن جائے
مجھے اللہ سے زیادہ ان کے محبوب سے لگاؤ ہے صلی اللہ علیہ والہ وسلم شاید اللہ سے لگاؤ کب کا یے مگر محبوب سے آشنائ کا احساس کلمے سے ہوا کہ پہلے لا --* الا اللہ --- پھر محبت پاک دل نہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں دکھتے کہنے کو کلمہ پڑھ لو مگر دکھیں گے تو گھر صاف ہوگا پھر چایے دل میِ کتنا گند ہو وہ جلوے سے صاف ہوگا ان کے جلوے کا دیا اک دفعہ جل جائے تا عمر جل دل جاتا یے 
چراغ مصطفی بنا یے دل جلا ہے مثل طور جو 
ہوا بجھا نہ پائے گی یہ روشنی کمال یے

تب جذب ہوجاتے ہیں ہم بولتے نہیں ہم بولتے ہیں اور ہم بول بھی نہیں رہے ہوتے وہ بولتے ہیں ہم کچھ نہیں کہتے وہ کہتے ہیں درحقیقت یہ وہ نظام چلا رہے مرے آقا نظام چلاتے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو جب وہ ہر جگہ ہیں تو میں اندھی ہوں مجھے آنکھ چاہیے ہر ہر جگہ ان کو دیکھنے کو