Wednesday, October 14, 2020

متلاشی روح کا سفر

 


زندگی میں سچائی کی جستجو میں متلاشی روح کا سفر ازل سے ابد تک محیط ہوتا ہے . لامکاں کی بُلندی سے مکاں کی پستی کے درمیان ارواح اپنے سفر میں آزمائشوں سے کامیابیوں کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں  جیسے پرندوں کی ٹولیاں غول در غول خود میں مگن رفعتوں  کی جانب  پرواز کیے ہوتی ہیں تو کہیں کچھ پرندے پہلی پرواز  میں انجانے اندیشے میں مبتلا ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ خُوشی کا خُمار  سُرور کی منزلیں طے کرائے دیتا ہے .  آسمان کی بُلندیوں سے پرے  رنگ و نور کا جہاں ہے .  اس میں کھُو جانا سالک کا کام نہیں ہے بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا ہی عین زندگی ہے . محؒل کے پار ایک وادی ہے جس میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں جو اپنی ہیئت میں سرخ نارنجی رنگت لیے ہوئے ہیں ان سے نکلنی والی چنگاریاں خوف کی کیفیت طاری کردیتی ہیں اور محل کی خوبصورتی اس وادی کو دیکھ کے اور بڑھ جاتی ہے . محل کی ابتدا میں یاقوت کی سیڑھیاں ہیں . ان سیڑھیوں پر قدم زائر احتیاط سے رکھ کہ پرواز بلندی تک  ہونی چاہیے .راستے کبھی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے نظر نہیں آتے بلکہ یقین کے راستے پر سفر کرنے سے حاصل ہوتے ہے ...

''اے خاک نشین !

''تیرا یقین تیری سواری بن چکا ہے'' .''اب منزل تک پہنچ تاکہ عین الیقین سے  ہوتے تجھے وہ  نظارے دیکھنے کو ملیں کہ  دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیاں جاتی ہیں .'اب اُس کا انتظار ختم ہوا جس کے لیے برسوں تو نے انتظار کیا ہے . اب رخت سفر  باندھ ''!

اٹھ  خاک نشین !

قدموں کی لڑکھڑاہٹ کی پروا نہ کر ! اپنے اندر جھانک اور نور کے نظارے میں گُم رہ اور اعتماد کے ساتھ میری طرف آ ! میرا پیار تجھے بُلاتا ہے ! میری رحمت کی آغوش میں آجا ! محبت لے جا اور عشق بانٹ دے . 

محبت کی میراث لے جا مگر یاد رکھیں !

''آزمائشوں کا سمندر پار کرنا پڑے گا مجھ سے دوبارہ ملنے کے لیے مخلوق سے عشق کرنا پڑے گا . تیرے اشک جو میری یاد میں بہتے ہیں مجھے محبوب ہیں مگر اس زیادہ محبوب تر کام یہی ہے کہ مخلوق کا ہو کے عین الرضا کے مقام کو پہنچ تاکہ  عدم کی مٹی تجھے نصیب ہو تبھی تیری خواہش کو قرار آئے گا اور تجھے وصل کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوگی . 

محبت والے عشق کا سمندر پار کر گئے

عقل والے  بے عقلوں سے بڑھ گئے

آجا ! عشق کی بازی کھیل لے 

اپنا دامن ابدی مسرت سے بکھیر لے

مقصد ء حیات پورا کرلے 

محل نور کا کس کو ملتا ہے ؟ وہ جو محبوب پر شاہد ہوتے ہیں . اپنے خون سے لوح و قلم پر لکھا عمل میں لاتے گواہی دیتے ہیں کہ رب یکتا و واحد ہے . اس کا کوئی شریک نہیں ہے . وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا.  جب کچھ نہ تھا تب بھی وہ تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تب بھی وہی ہوگا . اسی ذات کو قرار ہے جو یہ کائنات رواں دواں کیے ہوئے ہے . وہ چاہے تو آسمان کی رفعتیں نواز دے اور وہ چاہے تو پستیوں میں گرادے . وہ چاہے تو شیطان کو ولی بنا دے وہ چاہے تو ولی کو شیطان بنا دے. وہ چاہے تو نفس پرست کو  عامل کامل بنا دے اور وہ چاہے تو عامل کامل کو نفس پرست بنادے وہ چاہے تو دنیا میں کوئی صدیق ہی نہ رہے اور وہ چاہے تو دنیا صدیقین سے بھر جائے . وہ چاہے تو  دنیا سے سرداری اٹھ جائے اور وہ چاہے تو دنیا میں نائب کا عمل دخل ہو جائے . وہ چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ہے. و چاہے تو نائب کو سردار بنادے اور سردار سے محبوب بنادے . وہ چاہے تو پستی میں گرادے جس کی انتہا کوئی نہیں ہو مگر وہ اپنے محبوب کو گرنے نہیں دیتا . محبت شے ہی ایسی ہے کہ اس کا امر اپنے بندوں کو کشش کیے رکھتا ہے اور وہ اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں .