Monday, October 12, 2020

چارہ گر سے سوال

میں نے چارہ گر سے سوال کیا کہ یہ قفل کیا ہوتا ہے؟  روح کے مقفل ہونے سے مراد کیا ہے؟ کیا گیان سے ہمیں معلوم کی دنیا مل جاتی ہے؟ کیا گیانی ہونا پڑا گا؟  کیا مراقب ہونے سے پہلے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ کس وجہ سے یہ کیا جارہا ہے وہ قفل کیا ہے؟  اگر مجھے علم نہیں تو لا علم ہوں. لا ہوں اور علم تو ہے ... میں تو اکٹھے ہیں ..... ------ 
روح اک اسرار ہے اور اسرار اسے کہتے ہیں جسے عام فہم نہ جان سکے اور اسکے پیچھے وہ بھاگتے جن کو صدائے غیب بلاتی ہے *-- غیب امر ربی سے مل جاتی --- غیب میں داخل وہ ہوتے ہیں جن کو خبر مل جاتے ہیں اور یہ سجدہ ہوتا جو ان کو اس امر جہاں میں داخل کرتا ہے تم کو بھی جان لینا چاہیے کہ ہم جب امر غیب میں داخل کرتے ہیں تو کا وجود ہوتا ہے بس یکتائ ہوتی. دوئی نہیں ہوتی بس لیلی مجنوں اور مجنوں لیلی کا آہنگ --- رنگ اک ہوتا ہے تو جس کو مل جائے اسکو راز سے پردہ اٹھنے پر جان لینا چاہیے  کہ غیب اخبار کے جیسا ہوتا ہے سطر سطر ہوتی کائنات ہی اور آیت دل میں اتر رہی ہوتی ہے تو جان لے اے دل!  تجھ پر لازم ہے کہ راز کی پاسداری کر کہ خدا جفا پروری پسند نہیں کرتا بالخصوص ان سے جن کو وہ دل میں اپنا مقام دے ...روح مرا دل جیسی نورانی ہے، روح بمانند قران پاک روشن ہے روح میں کلمات و کنجیاں ہیں جو کہ ہر روح میں موجود اسرار ہیں .. تمام کی تمام تو اک کامل و اعلی ہستی میں وجود پائیں اور باقی عکس جس کا اس نے اتنا پالیا جس کو جتنی رویت ہوئ --- تو چہرہ محبوب جس جگہ پڑا گا روح نور علی النور کی مثال ہوگا --- نور پر جب نور پڑے نہ تب تک وہ نور ہجرت میں لپٹا آہیں مارتا کن صدا کو یاد کرتا رہتا ہے جب اس پر نور ڈالا جاتا ہے تو وہ نور اسکے لیے نئے جہانون کی سیر ہوتا ہے وہ نور جو اس نور پر ڈالا گیا دونوں کا عکس اگر ایک ہو تو وحدت مل جائے گی. یہ وحدت چاہیے روح کو یہی دوئ کا احساس ختم ہو جائے تو وہ جانے کہ بادل جو چل رہا ہے اسکو "لام " حرف سے تقویت ہے جبکہ ہواؤں کو حرف "و " سے تقویت ہے پتوں اور اشجار جو حرف الف سے تقویت ہے پہاڑوں کو حرف عین سے تقویت ہے،  مٹی جس میِ سوتے پھل بوٹے اگتے ہیں اسکو نقطوِں سے تقویت .انسان کو حرف "ن " سے تقویت ہے جو مثل نور ہوتے ہیں تو کسی کو مانند عکس پہاڑ شجر مٹی فلک بادل سے تشبیح ہوتی ہے. یہ جو اشیاء تحریک میں چل رہی ہیں یہ حروف سے متحرک کہ اب حروف میں نور ان کو چلا رہا ہے اور حرف متحرک مری کن سے. یہی روح کا قفل ہے ہر روح اپنے مصوری کے لیحاظ سے مختلف ہے اور ہر روح کا لفظ جس سے وہ چل رہی ہے وہ مختلف ہے جب وہ لفظ تجھے ملے تو جان لے وہ اسمِ اعظم یے مگر اے دل اسمِ اعظم کی عطا اس پر ہوتی ہے جس کو آزمائش پاس کردے جس کے امتحان میں نتائج اچھے ہوں. گزر اس امتحان سے کہ عطا باری تعالی ہو کہ یہ فتح مبین یے. یہی بشارت ہے

ہاں آہنگ اسکی سطوت ہے رات میں وہ موجود ہے شام اسکا وجود ہے صبح میں وہ شہود ہے ظاہر کی آنکھ نہیں دل بینا کا قصور یے کہ آنکھ میں سرمہ ضرور ہے رات میں مہک اور چاندنی سے کھل رہا ہے موسم یہ تو غش کھا کے رات گر پڑی جب وہ لٹ محبوب کی چھا جائے گی ... صلی اللہ علیہ والہ وسلم موسم کا نہ ہونا ہی اسکا یونا یے طائر کا وجود گراں کیسا ہے کہ شہباز اسکا مانند نور رقصاں پرواز دگر بار دگر کہ جلوہ ہست ہزار نمود شان و شوکت گویائی سب گم ...
ابھی جلوہ نہیں ہے ابھی تو شام نہیں یہ پہر گزر جائے گی وہ رات جس کی کملی کالی ہے وہ دن جو طٰہ والا ہے صلی اللہ علیہ والہ وسلم قسم خدا کی وہ ہر جا موجود ہیں بہار وہ ہیں خزاں محسوسات فراق کا نام ہے کہاں نہ ہونے کا نغمہ ہے؟ بس ہونے سے یہ کار جہاں چلا ہے یہ زیست ناتمامی میں گزر رہی ہے اور گھڑی شہ الفت میں مگن میں سردار گھڑی وہ ہے جب راز نہاں کھل جاتا یے مفتوح وہ علاقہ ہے جس پر غشی چھاجائے وہ عنوان یے جسکا نام و نشان رہے جہاں خدا ہے وہ غالب ہے وہی غالب رہے گا انسان مغلوب یے وہ مغلوب رہے گا نائب وہ ہوتا ہے جو سوار رہتا ہے ہر وقت نیابت کے ذمہ ہے شعور ہمہ وقت جانب  محبوب ہو ..