Wednesday, October 14, 2020

زندگی اور جنگ

 









زندگی اور جنگ۔۔۔۔۔۔۔۔نور سعدیہ شیخ

زندگی میں سلاخیں بدن میں گڑھ جاتی ہیں اور زندگی محدود ہوجاتی ہے. قیدی کا کام کیا؟ اس کو دو حکم ملتے: ایک مالک سے اور دوسرا نائب سے. وہ کس کا کہنے مانے؟ بدن کے اندر دھنسا مادہ التجا کرتا ہے اور کبھی خاموشی کی چادر اوڑھ کر سمندر کو شوریدہ کرتا ہے ۔

''مکانی قیدی''کی بات قوقیت رکھتی کیونکہ ظاہری طور پر زندگی اس کی غلام ہےمگر پسِ پردہ' یہ 'زمانی ''مالک کی تابع ہوتی ہے.انسان کی جنگ جو اس کے من کے اندر چلتی ہے وہ اسی زمانی و مکانی نسبت کا شاخسانہ ہے. تم ایک وقت ایسا پاؤ کہ جب مکان کی وقعت کھو دو تو ''تمہارا '' اور'' زمانی'' کا رابطہ ایک ہوجائے،تب صرف اور صرف راستے کی رکاوٹ میں شامل تمہارا نفس ہے. اس راستے میں عقل بطور پل صراط بن کر تمہارا راستے کا پل بن جاتی ہے اور یہ پل تمہاری آزمائش اور پہچان کی طرف کا راستہ بھی ہے۔

بدنی پانچ حسیات اور وجدان ایک دوسرے کی ضد ہیں. لاشعور زمانی اور حسیات مکانی ہیں.کبھی نفس تمھیں آنکھ سے بھٹکائے گا تو کبھی خوشبو راستہ روکے گی تو یہ کبھی نغمہ ساز بن کر بھٹکے گی تو کبھی نغمے کی کشش ۔۔۔۔۔ ۔۔! کبھی چھو جانے کا احساس گداز ڈال کر تیرا راستہ روکے گا. ان سے جنگ تیرا جہاد اکبر ہے اور یہی راستہ جنگ عین 'زمانی '' کی طرف لے جائے گا۔

جنگ کے مرحلے تیرے نفس کے مراحل ہیں: جب تو امارہ سے لوامہ سے ملحمہ سے ملکوت سے جبروت سے لاہوت کا سفر طے کرتاہے. ایک درجے سے دوجے درجے جانے کا امتحان ہوتا ہے. ایک دروازہ ایک پل پار کرنے کے بعد کھلتا ہے ۔اس پل کو تم' پل صراط' کہ لو کہ جہاں ساری حسیات کو یکجا کرکے تم چل سکے تو چلے ۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حس نے بھی تمھارا توازن خراب کر دیا تو سمجھو تم برباد ہوگئے ۔ اس بربادی سے بچنے کی دعا مانگنا اور بچ بچ کے چلنا صبر اور تقوٰی سے حاصل ہوتا ہے

زندگی میں جب تجھے آزمائشیں گھیر لیں اور تو گھبرا کر مایوس نہ ہو کہ خالق کا فرمان ہے
لا تقنطو.۔۔۔۔۔۔۔
مایوس مت ہو۔ (اللہ کی رحمت سے )

تیری مایوسی ،تیرا نفس ہے جو تجھ پر حاوی ہونا چاہتا ہے وہ تجھے دس ہزار طاویلیں دے کر راستہ روک دے گا۔. رکنے والے سفر روک دیتے ہیں اور جنگجو سفر جاری رکھتے ہیں. دنیا میں جنگجو کبھی سپاہی ہوتے ہیں تو کبھی جرنیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!

تیرے اندر کی جنگ تیرا مقدر ہے اور تیرا ان پر حاوی یا محکوم ہوجانا تیری تدبیر ہے. اور ایمان دو حدود کے بین بین ہیے. نفسانی خواہشات پر جبر کرنے والے یہ راستہ کھو سکتے ہیں مگر صابر کو میٹھا پھل ملتا ہے اور صابرین کے ساتھ وہ ہستی ہوتی ہے.

صبر و جبر تیرے نفس پر گرہیں ہیں جب تو ان سے خواہشات نفسانی کو مقفل کرتا جائے گا تو تجھ پر انوار منکشف ہوں گے مگر تو اگر نفس کو کھلائے گا تو تیرے دل پر مہر لگنے کا خطرہ ہے جو معطونوں کے لیے ہے.

دنیا میں تیرے صبر کو تقویت دینے والی چیز تقوٰی ہے. یہ تیری نفس کا دست راست ہے. زندگی کی خار راہوں سے موتی چن کر کانٹوں سے بچ بچ کے چلنا زندگی کا عین ہے.

وہ وعدہ جو روح وجود میں آنے سے پہلے کر چکی ہے وہ ہی جو ایک زندگی.گزار چکی ہے جب جب تو موتی چنے یا کانٹے۔۔۔۔!! یا تجھ میں احساس جاگے کہ تو اس بات سے واقف ہے ،تو سمجھ لےکہ تیری روح تجھ میں بیدار ہے اور تیری ذات کو کیل کانٹوں سے نکالنے میں معاون ہوگی .یونہی تیرے نفس کے مدارج طے ہوتے جائیں گے.