Monday, October 12, 2020

بہت خوب دلنشین احساس

بہت خوب دلنشین احساس!  
سرسراتے پتے جیسے ہوں شاد 
رونقِ گِل میں ہے چھپا سراب 
دل ہے آب میں مگر آنکھ آب آب 
کم مایہ کو ملے کچھ تو نایاب


سیکھایا گیا الف کو 
سیکھا ہے جب تلک میم تک نہ گئے 
درد سہہ ب پ ت ٹ  س ش کا 
ورنہ نَہیں درون میں باقی کچھ 
حرف حرف کی حکایت سن لے
راوی اک ہے اور روایت سن لے 
شاہی کے پاسدار نے راز فاش کیا 
سینہ دل سے راز نیم بسمل نکلا 
یہ سیکھ کہ جگر گداز یے ابھی
یہ کہہ یا وہ کہہ نالہ رسا ہو جائے
عشق چیخ نہیں! پکار نہیں!  قرار نہیں!  اشکبار نہیں کچھ 
طلب کے ہار نہیں 
بس سیکھ لے جو سوجھ لیا جائے 
یہ بدھ کی شام ہے مگر ہے رات ہے حنا کی
ہر رات وصلت کی ہر صبح ہجرت کا 
وہ مرا روز ازل -- یہ میرا امروز


قریب ہو یا دور ہو! اے دل، تو فقیر ہو!  ورنہ منتِ غیر رسوائی ہے اور سودائے عشق نری رسوائی ہے! یہ کمائی ہے بوند بوند قطرے میں وفا کی شہنائی ہے!  تو نے جدائی کی بات کی اور آنکھ مری بھر آئی ہے! عجب یہ تری مری لڑائی ہے!  وضو سے آنکھ بھی بھر آئی ہے! کمی ہے!  اس لیے کم مائیگی لوٹ آئ یے


آنکھ سے دل کا سفر کیجیے 
ظاہر سے ولا کی بات کیجیے
رنگ رنگ میں بوئے علی ہے 
یہی ہر جا ہے حرف جلی ہے 
جسے ملے عین!  وہ ولی ہے 
مسکرا تو کہ کھلی کلی ہے 
یہی تار اللہ والی بجی ہے 
راگ میں عشق کی وحی ہے


جذبات سے تیرفگن عیاں ہوا 
ورنہ کیا تھا جو نہاں نہ ہوا 
خبر مری ہے اور اخبار ہوگئ 
سازش دہر ہے آشکار ہو گئی 
وجہِ بشر تخلیق کا حرف میم 
وجہِ آدمیت میں یہی تکریم 
وجہ اثبات کی یہی ہے دلیل 
رنگ رنگ میں یہی ہے وکیل
میں کہوں کیا حرف ہیں قلیل 
میں تو خود میں ہوئی  تحلیل 
راج ہے اور راجدھانی میں شاہی 
یہ سلطنت عشق کی ہے کمائی


ملا ہے تحفہ ء نسیان عشق میں اور وضو نہاں میں ہوا ... صبا نے کہا کہ انتشار سے کہو رفع ہو جائے  حاجت روا سامنے ہے! کہوں کسے؟ طبیب سامنے ہے! طبیب نے دل پر ہاتھ رکھا ہے اور دل کو اسم جلال میں رکھا ہے مجھ میں شاہ نے کمال رکھا ہے اور حرف حرف میں شہِ مقال رکھا ہے. سنگ دل میں وجہ وبال کا ستم ہے کہ ریزہ ریزہ ہے وجود اور ستم کا دھواں الہیات کا جامہ لیے کہے جائے 

یا میم!  یا محمد!  
الف!  الف اول اور اول سے آخر تلک بات یے اور بات میں راز، راز میں کمال، کمال میں حال،  حال میں ساز،  ساز میں جواب،  جواب میں وصال،  وصال میں ہجرت،  درد میں لذت،  لذت میں آشنائ،  آشنائ سے رسوائ ...لو عشق ہوگیا


کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ


کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ


یا حق!  سلام!  یا حق سلام!  یا الولی سلام!  یا والی سلام!  یا حاشر سلام!  یا رب عالمین سلام!  یا واجد سلام!  یا رب محمد  صلی اللہ علیہ والہ سلام ..سلام یہ ہے کہ سلام نہ ہوا اور شوق یہ ہے کہ عشق نہ ہوا!  خیال یہ ہے کہ خیال نہ ہوا!  محو تو نہ ہوا تو کمال نہ ہوا!  کمال نہیں کہ تو ڈوب  مگر ڈوب ڈوب کے رہ لے زندہ! رگ زیست کے بہانے ہیں اور ہم طیبہ جانے والے ہیں یہ روح کے شادیانے ہیں اور ہم.لو لگانے والے ہیں رنگ رنگ میں بوئے علی ہے یہ صحن نجف یے اور دل کربل کی روشن زمین ہے اور ملو اس صبا سے ورنہ رہ جاؤ گے ادھورے

چھپ رہا ہے اور ڈھونڈ رہا ہے زمانہ اسے! وہ مجھ میں قید ہے اور لامکانی کا پردہ جاتا رہا!  دل میں تسبیح ہے اور ھو کا تار ہے!  وہ جو لگاتار ہے وہی الوہیت کا سزاوار ہے. کاش یہ سنگ طیبہ کو چلے اور نعت کہنے کو زبان حق ملے اور ملے کچھ نہ ملے!  واللہ ہم چلے کہ دل ہمارا جلے!  واللہ ہماری سزا ہے!  اور ہم سزا لینے چلے!  واللہ سزا کی بات کرو نا!  ہم تو سہہ رہے درد جدائ کا ..لگ گیا روگ!  دل کو لگ گیا جدائ والا دھکا!  وہ ملا نہیں پرندہ لامکانی میں یے پھڑپھڑاہٹ بھی عجب یے اور قید بھی عجب ہے میں بے بس بھی بیخود اور بیخودی کا جام پلایا گیا اور تڑپایا گیا. واللہ سلام ہے کہ سلام عشق کو ہوا!  سلام واللہ عاشقین کو ملا 
قبول کرو ورنہ رہ جائے گا منہ کالا ..ہونا ہے اسم حق کا بول.بالا اور دل میں دھواں سے دود ہستی کو ملا اجالا. مجھے سرمہ و وصال میم.سے ملا اور حرف کمال الف سے ملا. یہ تکمیل کے در ہے اور رگ میں در کھلے ہے اٹھو سلام کرلو ورنہ رہ جاؤ گے کھڑے


نہ ہوا نے پوچھا، نہ اسکی مجال تھی 
نہ ہم نے کچھ کہا، نہ ہماری بات میں بات تھی 
وہ ملتا ہے تو باتیں جاتی رہیں اور وہ نہ ہو سو باتیں بھی ہوئی اسکی اور نہ ہوئیں ...وہ بات سے نہیں ملتا کبھی. وہ دل میں اترتا ہے اور نشان ہو جاتا ہے آیت آیت جیسا اترتا ہے جیسا کہ قران پاک اترتا ہے اور نفس کا روزہ سلامت!  نفس صامت نہ ہو شجر ساکت نہ ہو ڈھے جائے جیسا جبل خشیت سے چادر بن جائے اور سرخ ہو جائے 

یہ سرخی ہماری ہے میان
یہ لعل یمن ہمارے میاں
یہ صحن ارم والے ہیں 
یہ رنگ میں رہن والے 
پڑھو درود!  پڑھ لو 
کہ سلام دیے جانے ہیں 
درود کا تحٍفہ ہے اور دل پہ اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ