Monday, October 12, 2020

انسان کو کان چاہیے

انسان کو کان چاہیے ہوتا 
دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں 
دل بھی کان بن جاتے ہیں 

بعض اوقات خاموشی کے شور کو سننے کے لیے خاموش ہونا پڑتا ہے.  شور مگر حشر خیز ہوتا ہے. میں تو یہی کہتی ہو کہ میں شور ہوں تو وہ کہتا ہے بحر بن جا. میں کہتی سکوت میں بھی شور ہی ہے - ترے ہجر کا شور مرے دل میں پڑتا ہے تو دل پھٹ جاتا ہے - کہتا تو سن بھی لے سہنا تو بڑا مہنگا کام ہے - میں کہتی ہوں اپنا بنالے سارے کام ترے مرے اچھے - مجھ تو دوری مار مکائے گی 
قسم شب تار کی جب زلفیں گرادے - قسم گھنیری رات کہ جب یہ رخ سے ہٹ جائے تو منظر واضح ہو جائے - قسم شمع نبوت کہ مری ہستی نہیں ہے - قسم اس ہاتھ کی جس نے مرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا ہے --- وہ ہاتھ اسکا سایہ ابھی تک محسوس کرتی ہوں -- قسم ان کے سائے کہ احساس حقیقت میں ڈھل جائے - مرا گزارہ شفایاب ہونے میں ہے وہ دوا مل جائے اس در سے کہ کیمیاگری ہو جائے تو ذات کا گوشہ گوشہ دھل جائے سب رستے واضح ہو جائیں

میرے دو ٹکرے ہیں - اک خُدا ہے اک امام حُسین ہیں -- جب یہ دونوں بولتے ہیں تو میں خاموسی سے دیکھتی ہوں -- مگر مصور ہر وقت رنگ نہیں دیتا مجھ کو -- جب اندر جان ملتی ہے تو باہر بے جان ہوجاتا - جب باہر توانا تو اندر کھوکھلا - امام حُسین کو خدا فلک سے دیکھ کے مسکراتا ہے اور وہ سجدے میں بھی کلام کرتا ہے تو خدا مجھ سے کہتا ہے اسے بندگی کہتے - میں یہ نظارہ دیکھ کے تڑپ سی جاتی ہوں اور کہتی ہوں مری تڑپ کو سکون کب ملے گا تو کہتا ہے حُسینی ہو جا - میں مسلسل تپش میں رہتی ہوں - آگ میں رہنے والے ٹھنڈی آہیں بھی بھر نہیں سکتے - وہ ایسا کریں تو زمانہ ان کو جھلسا جھلسا کے مارے گا - یہ خدا نے کہا ہے کہ تجھے تو مرا ہونا ہی ہے مگر قربان ہو کے پاس  آ - بھلا بتاؤ کہ قربان کیسے ہوجاؤں؟  جب تک اسے نہیں دیکھوں گی تو مجھے ہوش رہے گا جبکہ صاحب ہوش وہی ہے جسکو ہوش نہیں ہے - یہ زمانہ نہیں سمجھتا ہے میں بھی نہیں سمجھتے مگر مرے سر پر اک سایہ ہے -- وہ سایہ امامِ حُسین رضی تعالی عنہ کا ہے -- میرا ان سے کیا رشتہ ہے کچھ ہوگا اس لیے قربت کا احساس رہتا کچھ ہوتا ہے تعلق کہ تعلق کے بنا دل نہیں تو کبھی سیدہ بی بی پاک سے دل میں وہ طہارت اٹھتی کہ دل جھک جاتا مگر وہ کہیں نہیں ہوتی تو میں پھر ان کے لیے جھک جاتی یوں لگتا کہ ان کا سایہ ہے ان کی نگاہ ہے مگر وہ نہیں ہے جلوہ نہیں ہے یہ تڑپ ہے کہ ان کا جلوہ ہوچکا ہے تو آہٹ آہٹ پہ ان کا گمان ہونے لگتا ہے تو کبھی مجھے مسکراتے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم دکھتے مگر وہ ہوتے نہیں ہیں جبکہ ان کی مسکراہٹ بھی جلوہ تھی یہ تصاویر بسادیں دل میں جن سے مالک تڑپا رہا مجھے میں تڑپ رہی کہ میں نہ چھوڑ سکتی نہ پا سکتی مجھے عیاں ہے حال بسمل کیا ہے عیان ہے