شمس کی تب و تاب کی تاب نہ لا سکو گے اور حرف کی بندش کھل نہ سکے گی! رنجش ہی رہے گی اور رنج سے جائے گا سراب. یہ حرف جو درد کا عذاب ہے اور یہی عشق کا جواب ہے اور عشق میں رکھا اک گلاب یے. گلاب میں خوشبو یے
یہ خوشبو ہے کہ حرف آرزو ہے اور حرف ولا میں رکھا سوال یے جس کو ملے وہ چلے شاہا کے پاس