اپنادل مرکز چھوڑ کے
دل دھیان میں چھوڑ کے
وظیفہِ عمل کی نگری میں
رقص کر،
نئے آہنگ سے
نئے طرز کی زمینیں ہیں
افلاک کی چشمات
گویا ہیں یہ آبِ حیات ...
پھوٹے من بستی سے چشمے.
جذب ہے کہ جذب مشہود.
جذب ہے کہ مشاہدہ ہے
جذب ہے کہ شہادت ہے
جذب ہے کہ الواجد کی تحریر
جذب ہے کہ نورِ سماوات کی تمثیل.
بجلیاں نشیمن میں گرا دی جائیں
تو جلوہ گاہ مرکز میں آجاتی ہے
دل مرکز، دل مرکز، دل مرکز
مرکز میں ساجد ہے؟
یا مرکز میں سجدہ؟
مرکز میں نہ مسجود نہ سجدہ
بس ایک ہے
ایک نے بنایا سب کو
ایک نے جلوہ دیکھا جس میں اپنا
اسکو اپنا بنالیا
اسکا ذکر اٹھا دیا
بھیج دیا زمانے کو
زمانے کس کے؟
جس کو اپنایا جائے اسکی زمین، اسکے افلاک
کرم ہے! کرم ہے! کرم.ہے
یہ تیرِ جدائی گو تیغِ تغافل
مگر کرم مگر کرمگر.کرم
رکھا.بھرم ہے
جھکا یہ کس سر ہے
اجدنی! وجدنی! ستجدنی! بس شعلہ نکلا معبد بدن سے اور ہوگئی زمین وادی طوی ... موسی سے کہا جاتا ہے نعلین.اتار دے. نعلین تو اتار ہی دی جاتی ہے کہ کلیمی کی رمز انوکھی ہے. سچ کہو، سچ ہو جاؤ تو قم، قم، قم کہو اور فیکون.پاجاؤ
اے فلاک سے جاری نہر
کتنے در وا کیے؟
کتنے سینے سپر کیے؟
کتنوں کو.واصل حق کیا؟
کتنے بازو سکتے میں کٹ گئے
ترا اختیار کی تیغ چل گئی
.جبین جھک گئی کہ جھکنا ہی تھا
سجدہ کرنا ہی تھا کہ سجدہ ہوگیا
نظارہ وحدت!
مے توحید پی ذرا
پی کے رہ مست مدام تو.
انفعالیت کچھ نہیں
بس فعل تری ذات ہے
ذات کا فعل کار جہاں دراز کیے ہے
اے دل
اے دل جام جم پی لے ورنہ ساقی نے دینا ہی دینا ہے اور ایسا دینا ہے کہ لاگی نہ لگی کہ پتنگ کٹ گئی. پتنگ کی دوڑ ہوگی اس کے ہاتھ جو ہوگا ساقی.
ساقی اور پلا
ساقی اور دے
دیے جائے گا
روئیں جائیں گے ہم
ہنجو بن کے بدن ہمارے، زمین بوس ہو جائیں گے
اے زمین بوس پہاڑ! اٹھ!
اٹھ! قم فانذر، وربک فاکبر
بڑا ہے وہ اور بڑائی نازاں اسکو
.جبین جھکی رہی سر نیاز میں گیا