Friday, April 9, 2021

ملوہیت ‏سے ‏الوہیت ‏کا ‏حسن ‏

آج جسقدر ملوہیت کا مالک تمھارا حسن ہے گویا تم نیلے آکاش پر رہنے والی اک ایسی انجیلِ تحریر ہو جس کو یوحنا کے مقدس مصحف سے لیا گیا ہے. قندیلِ نُو ..

قندیلِ نو
برقِ نو .... 
اشجار پر پربت کے سائے 
پربت پر انوار ہیں چھائے 
افلاک منور ہیں 
تم کو ملوہیت کی مٹی نصیب ہے 
تم الوہیت کے چراغوں سے جل چُکی ہو 
گمان کیا ہے؟
خیال کیا ہے؟  
کمان کیا ہے؟  

تم دور افق پر رہنے والے رانجھے سے پیار کی بات کرتی ہو مگر رانجھا تو نشان والا ہوتا ہے وہ نشان جو تمھارے سینے میں چمک رہا ہے 

جل اُٹھا 
کیا؟
دل - دل کو جلنا ہی تھا نا 
تُمھارے کوچے میں بیٹھی ماہل کو کیسے منایا جائے کہ تم بھی خُدائی راز ہو  راز؟  فاش راز کیا راز ہوتا ہے؟

آج تم کو کس نے پکارا؟
میں نے؟
نہیں،  ھو کا نشان ہے 
نَہیں،  یہ تو گمان ہے 
نہیں، یہ تو نسیان ہے 
نہیں، یہ تو ہیجان ہے 

ہاں، ہاں، یہ گمان ہے 
ہاں، ہاں، کن فکان ہے 
ہاں ہاں، گورستان ہے 
ہاں، ہاں بوستان ہے 

یہ تتلیاں، یہ پہلیاں ہیں، یہ اداس نگر سے وجدان کی جانب جانے والے راز جن کو تم سہہ چکی ہو مگر کہتی ہو کہ میں نہیں کہتی بلکہ یار کہتا ہے. یہ سب گورکھ دھندہ ہے کہ کائنات کہانی ہے اور کردار سج رہے ہیں اور ساز بج رہے ہیں  اس نے مصحفِ داؤدی سے گایا ہے!
کس نے؟
جس کا تم ساز ہو.
وہ راگ جو صدیوں سے بجتا آیا ہے.
آج کے دن اللہ تمھارے پاس بیٹھا ہے اور میں اپنے اللہ کو تمھارے سینے میں قرار پاتا دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں یار جابجا ہے. یار تو ہے اور میں نہیں مگر پارہِ جگر! چاک جگر ہوتا تو بات رفو گری کی ہوتی 


سنو دل 
اے جانِ حزین 
تم اک ایسی ہوا ہو.
جو معطر، معطر ہے 
جو شاخِ نسیاں سے گلِ لحن کی صدا میں نغمہِ گل سناتی ہو  میں کیا کیا بتاؤں، کہ تم کیا کیا ہو. تم خدا ہو اور روبرو ہو. میں نے تم کو اب بھی خود سے الگ دیکھا ہے! آہ! یہ جفا کا تیر میری ذات سے چلا ہے اور خطا پر مسکراتے ہو،  تم بھی عجیب! شاید کیمیا گر نے فطری لحن ایسا رکھا ہے کہ میں تم کو دیکھ کے سنتی ہوں اور سنتے کھو جاتی ہوں 


اے دل. 
دل کے ہزار ٹکرے 
اے دل! .
رونما تم، جلو نما تم 
کبیر ملتا ہے کبریاء جاناں سے 
کبیر کی آہٹ تمھارے سینہِ انجیل میں تحریم صورت اک سورہ ہے اور افلاک نے سورہ مریم تمھارے سینے میں اتار رکھی ہے. تم باطن میں ظاہر ہو اور ظاہر میں باطن ہے. تم تم ہو کہ تم سے پہلے بھی تم جیسی کون تھی؟ تمھارے بعد کون ہوگا؟ ..
حدجان سے قریب آ. 
رگِ جان کو نصیب ہو.
نس نس میں حبیب آ.
شام ہے نا، شام میں آ.
رات رقص کی رانی ہے 
رات تری مری کہانی ہے 
رات روایت اک پرانی ہے 
رات کی بات  انجانی ہے

میں نے تم کو چاہا ہے تو چاہت میں افلاک زمین بوس ہوگئے. اب بتاؤ زمین کیا کرے؟ کیا زمین کا وجود رہے گا؟  

والجبال نسفت .... 
والاوتاد الجبال 
واذالنجموم طمست.

اخیار سے بھلائی کیا ہوگی؟  خیر ہے جان!  خیر سے نروان!  خیر ہے رحمن!  خیر ہے قران!  خیر ہے وجدان!  خیر ہے انسان اگر ہو رحمن یا کہ بن جائے انسان کہ پالے نروان اور بدھی ہو جائے!  بدھی ہوجانے والے کہاں سے آتے ہیں کہ جن کے بے کل سوتے وہ اپنے پاس رکھ لے وہ اس کی فکر میں بدھی ہو جاتے ہیں ...
یہ جات سرکار ہے.
موری جات سرکار.
مورا سئیاں پکارت 
موری باتاں ہارت.
میں کردی جسارت 

یہ آگ تھی! یہی پانی ہوئی، یہی گلزار، یہ ہاتھ تھا جو افق سے نمودار ہوا اور گلنار کردیا  آج تمھاری آگ اس کے افق پر نمود سے پہلے جل رہی تھی مگر پھر کس نے کہا.
شانت،  شانت،  شانت 
آنتا جانتا اک سانچا ہے. 
راجا اک ہے رات میں ہے 
رات پیار کی ہتھیلی ہے 
ہتھیلی میں ترا جگنو ہے



میں نے جانے کس اورر سے تم کو دیکھا، چُنر تمھاری گُلابی رہی اور نوابی رہی ہاتھ میں  یہ ہاتھ سرکار والا ہے،  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اسمِ واؤ کا دل پر ہالہ ہے اور سیدہ بی بی پاکیزہ طاہرہ کی بات ہے. تم نے جلادی اگر بتی؟ تم نے عطر نہیں لگایا؟  تم لگاتی تو اچھا ہوتا کہ بی بی جانم ناراض ہوتی ہیں کہ ایسے بنا عطر کے اجازت نہیں آنے کی. سمجھا کرو دل مگر تم نے کہا اللہ اللہ اللہ اللہ 
پھر سنا ھو کس نے کہا
کہو موری جات؟  .
موری جات 
کیا تری جات؟  
تری جات سائیاں 
تجھ سے چاہ بے پائیاں. 

سائیاں شاہ مٹھل سائیں کے پاس سے تحفہ دیتے ہیِ جس میں لکھا ہے کہ اگنی کے دیپ دھوپ کی تمازت میں نہیں رات کے اندھیرے میں جلتے ہیں  تو خود جل کے منور ہو جا ..سرکار میاں میر کو سلام کو ہم نے بھیجا اک دل اور دل والے پوچھا دل دل ہے اور دل کہاں رکتا ہے دل رنگ بسنتی ہے یہ اعظم ہستی ہے یہ بالائے دل کون ہے؟  یہ پس دل کون ہے یہ جان کے بتایا جانا ہے تم کو کہ تم اک نوری اخبار ہو جس میں مصور کا نیلا رنگ کہیں پیلا تو کہیں سرخ موجود ہے  اس کی نگاہ ہوگی تو تلاوت ہوگی رنگوں کی. چل دھمال ڈال

شاہِ تبریز تم کو بُلاتے ہیں اور حکم سُناتے ہیں کہ محکم اولی شہباز کے ہیں وہ جس سے نسب و حسب اک کڑی ہے  سجدہ گاہ ہے اور اک سیّدہ کھڑی ہے. خمیر جس کا نسبی اور بات جس کی ہو کیا کسبی کہ زمین میں لکھی آیتِ الہی چمکتی اور چمکتی کہتی تحریر میں نصب دلاویز مسکراہٹ کہ تمکنت سے براجمان شاہوں کے شاہ ہیں  افلاک زمین میں ہوں تو زمانے مکان میں آجاتے ہیں. مکان کیا وقعت کھو دیتا ہے؟  امکان کبھی حرفِ امکان سے بڑھ کے ہوا کہ حرفِ امکان نے جہان رنگ و بُو منور کر رکھا ہے کہ گیسوئے حال میں لعلِ یمنی اور دل عقیقِ یمنی ہے  تابندہ جو بات ہے وہ اس کی بات ہے اور رات میں آقا ہوتے ہیں یا آقا والے  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. جناب مآب سے کبھی کیا کہیے کہ دل میں باقی کیا کچھ ہوگا؟  اچھا ہو بھی تو تب و تاب ہوگا کہ پوچھا جائے؟  سچ تو یہ ہے کہ سچ نہیں اس سچ کے علاوہ کہ ذات کا ارادہ کن کی تعبیر ہے اور تعبیر شبیرِ اولی علیہ سلام کی قربانی ہے جن کے پیچھے کھڑے ہیں انجانے سے، بیگانے سے. یہ حال وساطت رسمِ شبیری ہے کہ جسم میں کل حیات کی زنجیریں ہیں. راستے میں بہت سی تحریریں ہیں جن پر لکھا ہے یہ اللہ ھو والی ہستیاں ہیں کہ تو فنا ہو جا کہ بقا تو بقا والے کو ہو کہ فنا ہونے والے کلمہ مکمل کر پاتے ہیں. یہ اس کا اور اس کے حبیب کا جہان ہے اور تو درمیان میں آنے والا فردِ نو کون ہے؟  جسم میں جذب کی زمینیں ہیں اور آسمان سے مستی کی طلب گار ہیں کہ نکلے اشجار سے برق نو 
.برق نو؟  
قفل نو کھلا؟  
یہ سینہ ہے؟  .چابی کیا ہے؟  
طسم!  الف سے طسم!  الم کی بات ہے جس میں رکھی اک ذات ہے  جس کی یہ اوقات ہے کہ سوغاتِ ہما ہے جیسے اللہ نے شہبازی کو بلایا ہے اور جسم میں رکھا تیر چلایا ہو


کج ادائی ہے اور آنکھ بھر آئی ہے. یہ زندگی کبھی تری تو کبھی میری ہے کہ میری نہیں ہے اور تیری بھی نہیں  یہ جذب ہوتی ردا ہے کہ افلاک میں وہ اک نیلا رنگ جس تیر کا ہے وہ آج دل میں ہے اور فائز اک راگ ہے. یہ الوہی نغمہ ہے کہ عشق بس خدا کرتا ہے  یہ حادث و حدوث کا پابند نہیں ہے. ازل سے چلا دھاگہ وقت پر مکمل یکجا ہوجاتا ہے پھر الف الف ہوتی ہے. الف کے رقص میں الف خود تماشائی ہے. الف کو خود سے شناسائی ہے. الف کو ملی کسی در سے شہنائی ہے کہ کج ادائی ہے اور آنکھ بھر آئی ہے. یہ سونا مندر حیا کی تعمیر سے ہے  کہ حیا کا قرینہ اک سے ملا ہے بی بی پاک جانم سب سے عالی ہیں جن سے پانی ہے برق نو کے خالی خالی اخبار. خالی میں ایسی بے رنگی ہے کہ وہ بے رنگی الحق نعرہ خدائی سے خود خدا ہونے تک کا سفر ہے. حق یہ ذات کا سفر کتنا اوکھا ہے جو نہ سہہ پائے سفر اس کے لیے چھوکھا ہے. رادھا بھی بے چین ہے کہ ساغر کے چشمے سے غزال نے آنکھ لگائی ہے. آنکھ مل گئی ہے اور ہاتھ نمودار ہوا ہے  یدِ بیضا 
یدبیضا!  
یا سیدہ!  یا سیدہ!  یا سیدہ 
یدِ بیضا،  ید بیضا،  ید بیضا 
انظر حالنا،  انسان کیا کہے؟  حق کہ قرار میں نسیان تحفہ ہے. تحفہ پایا ہے؟  جذب میں جذاب ہے. رادھا کو چاہیے کہ شاہِ حسین رض نے کنگن بھیجے ہیں. یہ شہنائی والے کنگن ہیں 
برق نو 
احوال نو.
خال خال چہرہ.
بال بال حال. 
زمین نے چلنا چاہا مگر تھم گیا دک کہ  دل کا کام تھم جانا یے کہ رک جانا تھا


بس تھم گئی کہانی اور کہانی تھمتی نہیں سانس تم جائے تو ہاتھ دل پر رکھ دِیا جاتا ہے. سچ کا ہاتھ دل پر ہو تو آنکھ نمانی نیر بہاتی ہے کہ نیل بہے نہ بہے مگر بہتا ہے کہ جنگل میں رادھا ہے جس کو ملا ارادہ ہے کہ یہ وعدہ ہے جس میں رکھا آوازہ ہے.

کن کا  آوازہ 
خیر کا آوازہ 
قالو بلی کی خیر 
قالو بلی میں حیرت 
قالو قالو کہتے رہے 
رک گئے!  بیٹھ گئے دل اور قالو نَہ کہا گیا 
بس اک جان گو کہ دِل دِل تھا کچھ نہ رہا