میم سے ہستِ جہاں
میم سے بودِ جہاں
میم سے جمال عیاں
میم سے اجالا معجل
میم سے رسمِ کروبیاں
میم سے ذکرِ ربِ نہاں
میم افلاک کی قندیل
میم جذبات کی سرخیل
میم شمعِ ہدایت ہے
میم جاری روایت ہے
میم کا سرمہ لگ جاوے
جدھر ڈھونڈوں، اپنا آپ نظر نہ آوے
کمال ہوا کہ جلال جلال نہیں ہے اور حال نہیں ہے کہ اسم کمال نہیں کہ درد سے نڈھال نہیں، طیبہ میں وضو کی مجال نہیں ہے، اشکوں کی ہرتال نہیں ہے، روزہ میان میں نہیں ہے اور حال بھی حال میں نہیں. فکر دو جہاں سے فقر جاری ہے اور سوار کو مل رہی سواری ہے کہ شمع ایسی لو لگاوے عشق دل میں جلاوے، جان روگ لاوے اور آنکھ چشمات بہاوے. ریگِ دل پر لکھی تحریر پڑھو کہ
اللہ اللہ کہا گیا ہے
اللہ ہوگیا ہے جاری
کہاں؟
رگ رگ میں
سانس سانس میں