Friday, April 9, 2021

سرخ ‏ردا

شہ سرخی میں کسی سرخ پوش کی ردا ہے اور آنکھ میں اتری حیا ہے  حیا کا مخاطب ہونا اور نور کا جھک جانا ..... جھک گئی زمین اور فلک چھا گیا 
کیا رہا؟ کچھ رہے گا؟
نور الھدی کا آئنہ باقی رہے گا 

اللہ وانگ ستار، ملی ہے دستار،  جبین پر چلتے تیر کی رفتار، یہ دل ہے گرفتار، مریض کا مرض لکھا ہے جانبِ رخسار،  وہ حلقہء یاراں کہ بارِ دگر دیکھ کے چلے مرا ستار اور واج میں حلقہ ء سلیمانی اور راج میں اک راجدھانی ہے  کیسی کہانی ہے اور کہانی لکھی ہوئ عجب نہیں بلکہ جاننے والا حیرت کا مجذوب ہوتا ہے  عجب نہیں کچھ بلکہ آنکھ کا فریب ہے  دل پر ریاکاری جب حجاب ڈال دے تو حقیقت ڈھل جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ادھر نہ جا،  اس دیس نہ جا،  ڈوب جا من نگر میں اور مست کے نئے باب سیکھ!  سیکھنے کو جہان رنگ و بو میں کیا رکھا ہے بس اک جہان ہے جس میں صبا چل چل کے ہوا ڈالتی ہے تو من کے پردے سرسراتے ھو ھو کہتے ہیں گویا یکتائی میں کائنات نے دیکھا جب خود کو تو روپ وہی رہا مگر مابعد جلوے بات بدل گئی ...

ڈوب گیا ہے کوئ ابھرنے کو 
ڈوبنے میں حیات ہے 
حیات دوامی وجود فانی ہے 
زندگی تو آنی جانی ہے 
یہ شبیرو شبر کی کہانی ہے 
شبیر ابن علی، فاطمہ کے لعلِ باکمال. 
شبیر جودو سخا کے مظہر اسم حال