آشیاں میرا ہے یا ترا ہے؟ تو جہاں ہے اور مکان میرا ہے! دستارِ شوق مرے سر پر، سر ترا ہے یا مرا ہے! رحمت تری نگاہ ہے اورنگاہ میں رستہ ترا ہے یا مرا ہے؟ تلاش مکمل ہوچکی ہے کہ الف سے الف تلک کی بات خالی الف کی بات نہیں ہے الف سے پہلے ہونا ہے اور الف کے بعد ہونا ہے پہلے نفی ہے اور بعد میں محبت ہے رحمت ہے، ماممتا ہے. محمد کی میم ہے.
ان گنت درود سیدی سرکار دو جہان پر - صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے.
میم کا سفر ہے اور میم ایک ہے. اور رسائی میم تلک الف بنا نہیں ہوتی. الف ہونا آسان کہاں؟
لم یلد ولم یولد
محبت نہیں، عشق کا سودا ہے
راکھ ہوتی قبا نہیں، روح ہے
انجذاب درد کے تیر ہورہے ہیں
الف نے پکار لیا ہے
میم سے اظہار ہے
روح مشکبار ہے
رات پھول پھول
چمن مہک مہک
زمین سرخ سرخ
دیپ روشن روشن
چاندنی چاند دونوں
ماہتاب کے پیش ہیں
ید بیضائی ہالہ دل.پر
یہ فاطمہ کا لعل ہے جن کی پیشانی سرخ سرخ ہے، جن کی بات اظہر من شمس ہے کہ شمس کی تابش میں پروانے جل جاتے ہیں اور قصیدہ شانِ قلندر شروع ہوتا ہے! رنگِ حسینی برنگ لعل یمنی ہے اور عقیق دہنی ہے. یہ سراج دہنی ہے
زندگی اک قالب میں، کہاں. ہاں اک قالب کے سفر سے چلتی اڑاں بھرتی ہے. جب بھرتی ہے تب تشبیہات سے پرے فاصلے ہوتے ہیں تب رہگزر سیدھی، منزل آسان ہو جاتی ہے تب بلایا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ طالب کو چاہیے مطلوب بن جائے. یہ جہان طالب کا مطلوب اور طالب کا مطلوب ہونے کا سفر جاری و ساری ہے آب کوثر پانی ہے. یہ وہ پانی ہے جو عرش کا پانی ہے. یہیں سے پنجتن پاک کی مہک اٹھی ہے جو لحن در لحن ہر نبی نے رہن رکھتے منتقل کی. پھر یہ ہم تک پہنچی ہے. زمین کی کوکھ کے غم تب کم ہوتے ہیں جب درد بمانند اسماعیل پاؤں مارتا ہے تو چشمہ یہی پانی کی مانند ابلتا زم زم ہوتا ہے. وہ نشان جہاں کھڑے ہو کے سیدنا ابراہیم علیہ سلام کے پاؤں کا نشان ہے یہاں ہر وہ طائر رہ گزیر ہے جس نے خود کو دریافت کیا. جب تک درد کے چکر حاجرہ کے جیسے سسکنے بلکنے پر مجبور نہیں کرتے، جب تک قربانی کو ادا نہیں کیا جاتا ہے چشمہ جاری نہیں ہوتا. رحمت جھانکتی مگر دریچوں سے ہے