Thursday, February 3, 2022

میاں ‏میر ‏سرکار

نور: رقص ہے الوہی
ساز جامہِ الوہیت
تار جانِ حدیثِ وقت!
ذیشان سے بات کریں گے، مہرِ آفتاب سے رنگ ملا ہے ... عشق کی بات کب چھپی ہے عطر سے خوش لحن نور نے احدیت کا نغمہ اٹھایا ہے . یہ شخص جس نے حدیث ذات کی بات کی ہے، وہ شخص بقا پر فائز ہوگیا کیونکہ اس نے اپنی بات نَہیں کی، بلکہ اُس نے تو جانِ تمنا کی بات کی ہے. دل میں لگن کی بات چلی ہے

اللہ کے بندے احرام پوش بھی ہوتے ہیں
اس کے بندے احرام پوش ہوتے ہیں جو راز ہوتے ہیں کون ہے جو کسی کا راز افشاء کرے

جلال جانے حسن ہے کہ چنر لعل ہو یا سنہری ہو فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ سنہری و لعل سے کیا غرض کہ رنگ بس اللہ کا ہوتا ہے ہر رنگ میں ۔۔جب مخاطب کو خطیب سامنے کیا جاتا ہے تب دوئی نہیں رہتی ہے ۔مخاطب جانتا نہیں کہ تخاطب کیا ہے ۔۔۔۔ کیسی لاعلمی ہے ! لوگ حج کعبے کو جائیں ، لوگ زیارت کو جا ئیں پر عشق کی جانن نہ پانے پائیں کہ پرواز عشق یک گام ہے ۔۔۔۔ہاں عشق ہے جس نے رگ رگ میں یاد کے دروازے وا کیے ہیں ۔۔۔۔ رنگ اور ست رنگی میں دوئی کہیں نہیں ہے۔۔اس لیے جب سلام کسی کو دیا جائے تو گھنگھرو پہن کے رقص مہندی و حنا سے لعل و لعل لباس میں واقف کردیتا ہے اور واقف کہتا رہتا ہے کہ وہ ناواقف ہے
..

اے جبین پر بہنے والے تیر
اے میری روح کی شناسائی
اے رنگ حنا! تو اماوس کا دیا ہے کہ ساز کی جولانی ہے وہ جہاں جہاں سے بات بنتی ہے اور کم سے کم اک بات تو طے ہے کہ فاصلے طے نہیں ہوتے بلکہ طے کروائے جاتے ہیں پھر بتایا جاتا ہے کہ فاصلہ تو ہے ہی نہں
جب ستم نوک سناں ملے ہجر کی داستان ملے تو ہوتا ہے یہی کہ نین سے نین مل جاتے ہیں نین کی بازی کھیلتے ہیں اور جو گھائل.ہو جائے وہ معشوق کو سر دیتا ہے. ہم نے سر دے دیا یے اس لیے گھائل ہیں جی گھائل ہیں ایسے کہ ذات میں آہنگ ہے آہنگ نو
نور: آہنگ نو.
تجدید نو.
عہد وفا
وحدت کی بات
جذبات ہیں
ہم سے کہا گیا ہے کہ احرام پوش کو سلام کرو. ہم نے کہا احرام پوش کون ہوتا ہے کہا گیا جس کی ہستی راز میں چھپ گئی ہو
اللہ اللہ تری گفتار
اللہ اللہ تری سرکار
اللہ اللہ ترا اظہار
اللہ اللہ میرا پالنہار.
سرکار نے کہا ہے

تو ذیشان سے پوچھ کہ رنگ کونسا یے ،کہا اللہ جانے کہاں جانا یے ؟کدھر ہے دل میرا؟ وہ کون ہے جس نے کہا کہ جس جس نے کہا اللہ وہ اللہ کہنے اللہ کا ہوگیا. کن فیکون. یہ احرام پوش نے کہا تو راز جان۔۔۔۔ کیا ہوگا کن فیکون؟ جب ان کی صدا لگے دل میں تو غلام سر جھکائے بندگی میں کھڑے رہتے ہیں ۔۔۔ رنگوں میں یار کے رنگ اور کہیں پر صدائے ہائے ھو ۔۔۔۔ درد کے سوت میں یار کا چہرہ

[ نور: رقص ہے الوہی
ساز جامہِ الوہیت
تار جانِ حدیثِ وقت!
ذیشان سے بات کریں گے، مہرِ آفتاب سے رنگ ملا ہے ... عشق کی بات کب چھپی ہے عطر سے خوش لحن نور نے احدیت کا نغمہ اٹھایا ہے . یہ شخص جس نے حدیث ذات کی بات کی ہے، وہ شخص بقا پر فائز ہوگیا کیونکہ اس نے اپنی بات نَہیں کی، بلکہ اُس نے تو جانِ تمنا کی بات کی ہے. دل میں لگن کی بات چلی ہے...بات کا ختم شد قربانی ہے اور داستان میں کہانی ازلوں پرانی ہے ۔۔۔ دیپ یاد کے ہوں تو دل میں اجالا بعد از قربانی روشنی کا ہوجانا کمال ہے۔۔۔ اسکو کیا چاہیے. کیا چاہیے

یہ تن کا اخبار نہیں ہے یہ روح کی جزیات ہیں جس کو ملا اظہار ..اظہار کے پرندے نے دریافت کیا کہ تو کون؟ میں نے کہا کون؟ کون نہیں یہاں بس اک ذات ہے وہ یار کی ذات ہے یہاں بس اللہ ہے اللہ کی بات اللہ والی سرکار

حسینیت کے لشکر کے سپاہ سارے ملتے ہیں غازی ہمارے. جیسے جیسے بات بڑھی تو مل گئے سب استعارے. یہ وضو کے کنارے یہ جسم کی شبیہ میں اللہ کے سرمدی دھارے. چلو اللہ اللہ کہو سارے کہ یہ ہیں شاخ حنا پر بلبل کی بات کہ بلبل نے کہا کہ وادی دل میں اللہ کی بات ہے وہ سوغات ہے جس میں رات ہے. وہ رات جس میں سورج چمکتا ہے جوگی بنا دیا یے
ٹوٹنے سے پایا دل میں ارادہ ارداہ سے ملا وعدہ کہ وعدہ نبھانا یے پریت نبھائی جاتی ہے آس کے بل پر. پوچھا جاتا ہے محبت کس سے ہوئ؟ کہا جاتا ہے تجھ سے تو جو ذات کا مکین ہے تو دلبرنشین یے تو رگ رگ میں ہے اور رگ رگ تری جانشین ہے کسی اللہ والے سے پوچھو کہ حسینیت کیا ہے وہ بتا دے گا کہ حسینیت وہ الوہیت کا نور ہے جس کے چھینٹے تن من کو نیلو نیل کیے دیتے ہیں تڑپ میں اوگن ہار پھرتے ہیِ مارے مارے اور کہتے ہیں چلو کربل.
اسکی شہنائی بجنے لگی.
ستار میں واج ابھری ہے
کدھر ہے میاں والی سرکار
حاضر ہے کون ان کے دربار
شاہ نوران کے پاس اسرار
غازی کو دیے گئے ہیں اظہار
شہنائی درد والی ہے.
شہنائی سے واؤ کی چشمہ بہتا ہے.
رنگ حنا ...؟
بہتا چشمہ؟
کیا ہے یہ چشمہ؟ کیا ہے حنا؟ حنا آس کی لگائی ہے دیپ سے وہ بات بتائی گئی ہے کہ بات میں بھید ہے کہ وہ بھید کبریاء جاناں کے پاس لے گیا. کبریاء جاناں کے قدم پر سر رکھ دیا میں نے کبریاء جاناں ساتھ ساتھ پرواز میں کبریاء جاناں سے ساتھ نہ چھوٹے چھوٹے کہ بات کبھی مجھ سے ٹؤٹے نہ ٹوٹے
دھاگہ؟ .کانچ کا دھاگہ ملا اور ٹوٹ گیا ہے
تیر چلا ہے
دل سے بہا ہے سرمہ
بج.گیا ہے نغمہ
اک.شناسا پاس ہے
اس سے پوچھو کہ رازدان کون ہے
وہ کہے گا کہ میں
میں اس سے پوچھوں گی کہ جانِ جاناں تم بہت دلنشین ہو
وہ جوابا کیا کہے؟ مسکرادے
بس مسکرانے کی دیر تھی
ایک.ہونا تھا
اک ہونے کے واسطے
میخانے میں جام.پی
خاموش رہ
ادب کر
جستجو میں رہ
کھوج نہ کر
دل والا بہت پیارا ہے
ہر طرف اسکا اجالا ہے
ستم کو زبان ملی ہے
یہ.آہ فغان میں حرف جلی ہے
ذات جس کی علی ہے، وہ مرا حرفِ جلی ہے
اٹھ جا شب بیدار، جاگ جا رنگ حنا لیے. اٹھ کے اب آذان دے
آذان فقر کی روایت ہے
ایسی باتوں سے یہ روایت
محبت کی صدا ہے عنایت
صداقت سے صدیقیت ہے
روایت سے روایان عشق
نظام سرکار سے بات بنی ہے کہ قلم چل رہا ہے،بھٹ شاہ سے چلی روایت ہے کہ نگاہ بھی سرکار کی ہے.،،، سیکھی سچل سائیں سے مستی. وہ الست کی مستی وہ راز سر بستہ. وہ جذبہ میں جب نہیں تھا اور وہ تھا. پھر اس نے جذبات اپنے بھر کے مجھے پھونک دیا. میں پھونکا گیا ہوں عشق سے