لوگ بھاگ رہے ہیں،
بلکہ مانگ رہے ہیں،
کیا مانگ رہے ہیں،
دید کی بھیک،
ممکن نہ تھی دید آسان،
جب حاجرہ کے چکروں کا لگنا
اسماعیل کے پا سے زم زم کا نکلنا،
موسی کا خود شجر سے سراپا آگ بن جانا
اللہ نور سماوات کی تمثیل تھے
یقینا ہم نے سبھی سرداروں کو اسی برق سے نمو دی، یہ شہ رگ سے قلبی رشتہ تھا ... .
جس پہ مقرر اک فرشتہ تھا.
جس نے جان کنی کا عالم دو عالم میں سمو دیا،
یہ عالم موت تھا، یا عالم ھُو تھا
دونوں عالمین کے رب کی کرسی نے الحی القیوم کے زینے دکھائے،
باقی وہی ہے، فانی تھا کیا؟
یقینا فانی کچھ نہیں،
مٹی تو اک کھیل ہے،
روح کے ٹکروں کا کٹھ پتلی بننا تھا
قالو بلی کا آواز کن کے آوازے سے پہلے،
تخلیق آدم اور اسماء کا القا ء
ذات کی تجلی، صفات کی تجلیات
دونوں آدم کو مل گئیں اور شیطین کو کہا،
ساجد ہو جا، سجدہ میرا تھا، قضا کرکے، منصف بنا؟
نہیں، خطا تو آدم نے کی تھی، آدم کی توبہ اور شیطین کا تکبر، در سے در ملنا، بند ہونا، قفل لگنا،
یہی لوگ شرالدواب ہیں،
صم بکم عمی کے تالے ہیں ان کے دل میں،
ہم نے بدترین کو کیسے کھڑا کیا، اپنے سامنے کہ للکارے ہمیں اور ہم نے کیسے اسکو اُس تماشے کے پیچھے رسوا کردیا، جس کا آخر زیاں تھا، جس کی ابتدا بھی زیاں ..... افسوس شیطین نے زیانی کا سودا کیا اور آدم کو ہم نے نور نبوت کے فیض سے نوازا،
پہلے عارف کی معرفت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہ مکمل ہوئ،
یہی توبہ کی مقبولیت کا وقت تھا،
حوا کی زمین سے کیسے کیسے عارف نکالے،
آدم کی پشت میں، کتنے پیامبر تھے، جن کو حوا نے دیکھا، .
آدم کو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جد ہونے پہ فخر ہوا، یہی ہمارے حکمت ہے کہ کسی کو کم، کسی کو زیادہ سے نوازتے ہیں!
اے وہ ذات، آگ لگی ہے!
اے وہ ذات، جس نے مجھے چراغوں سے تبسم دیا،
اے وہ ذات، جس نے روشنی سے تیرگی کا فرق دیا
اے وہ ذات، مقصد کیا تھا میرا؟
سلسلہ ء ہدایت کے واسطے، میں تو خود ہدایت کی متمنی، میں تو خود اوج معرفت کی خواہش مند ...
اے دل، دل کے واسطے کائنات ہے،
دل، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، اس دل کے کتنے حصے پھیلے؟
جتنے حجاز مقدس کے گگن سے رشتے تھے،
جتنے کربل کے شاہ نجف سے رشتے تھے،
جتنے لاھوتی کے ملکوتی سے سلسلے،
جتنے عجائبات کا، عالم سے سلسلے،
رابطے ہوتے ہیں، نور کے نور نبوت صلی اللہ.علیہ والہ وسلم ہے، جس کو ملے ہدایت، اسکو ملتی ہے اس نور تک رسائی