احساس کہاں ہے ، لباس کہاں ہے ؟
زندگی ہے جسکا اقتباس، وہ کہاں ہے؟
لہو کی بوندوں میں یار کا آئنہ ہے
تشنگی بڑھی بے انتہا ، قیاس کہاں ہے؟
ربط احساس سے ٹوٹا سجدے کے بعد
ڈھونڈو میرا نشان ، اساس کہاں ہے؟
جُنون کو خسارے نے دیا پتا منزل کا
حساب چھوڑو ،دل شناس کہاں ہے؟
-----------------------
---
جواب میں ، احساس میں کیا الجھے
پھولوں کو نئی خوشبو ملتی جائے
رنگ بکھرتے ہیں بارش کے بعد
وصال کے بعد ملال ہیں مٹتے
بہاراں ہے ! یار شکوے کیسے
قبا میں بند پھول پر جگنو کیسے
صبا میں پتے ہیں کھلتے رہتے
شجر کو ملے سندیسے کیسے کیسے
----------------------
صدائے نغمہ ھو جب گونجتا ہے ، جبل میں کہرام آجاتا ہے ۔زمین پر اساس پاتے یہ جبل بُلندی کا حامل ہوجاتا ہے ۔ ذاکر کے ذکر پر خوش ہوتے شرابِ طور عطا کردیتی ہے ۔ نور سے ہستی کا رُواں رُواں کھو بیٹھے ہستی ، فرق ختم ہوجائے ، تو مشاہدہ بھی ایک ہوجاتا ہے ۔
تکمیل کا سفر قربانی کی دھوپ میں کاٹا جاتا ہے ۔ لوحِ محفوظ پر لکھے حُروف کی سیاہی وقت کو تھما دی جاتی ہے ۔ لٹکا دیے جاتے ہیں نیزے پر سر ، نعش سولی پر ، مٹی کے بُت سے نغمہِ ھو بول اٹھتا ہے ۔ موت کی زندگی کی عطا ہوجاتی ہے ۔
اندھیروں کو رُوشنی کو ہدیہ دینا ہوتا ہے ۔ احسان پر بسمل کو تڑپنا بھی سرِ عام ہوتا ہے ۔ کان کُنی کا عمل وسیلوں سے شروع ہوجاتا ہے ، فیض عام ہوجاتا ہے ، چھید در چھید کیے جانے کے بعد اندھیروں میں روشنی سے محفلِ نور کی ابتدا ہوجاتی ہے
محفلِ نور ساقی کے دم سے چلے
بادہِ مے سے سب داغ دلِ کے دُھلے
آئنہِ جمال ، اصل ُالاصل جمال میں مدغم اصل ہوجاتا ہے ۔ مقامِ فنائے عشق میں حیات دوامی ، اسم لافانی کی عطا پر شکر کا کلمہ واجب ہوجاتا ہے ، خوشبو کا بکھر جانا کِسے کہتے ہیں ، صبا کو سندیسے کیسے دیے جاتے ہیں ، غاروں میں اندھیرا ختم ہوجانے کے بعد سب در وا ہوجاتے ہیں ۔
مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے
۔ صدائے ہست کے میٹھے میٹھے نغموں کا سلسلہ جاری رہنا ہے ، سجدہ در سجدہ سلسلہ جاری رہنا ہے ، سویرا ہوجانے کے سویرا پھر کیا جانا ہے ۔
سجدے میں ایک اور سجدہ کریں
سر اٹھنے پر ہم نیا سویرا کریں
مہِ تاباں کی سُرخ پلکوں پر
تلوں کے بل پہ رقص کریں
مصور نے عبد کی تصویر میں جمال کے نگینوں سے سجایا ہے ۔اسکا احسان ہے کہ جمال دیا ، اسکا احسان کہ کمال کی رفعت دی ۔ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے ۔جہاں جمال بسا دیا جاتا ہے ، رسمِ شبیری کو نیا وقت دیا جاتا ہے۔نماز کے لیے قبلہ مقرر کر دیا جاتا ہے ۔سرِ طور سُحاب روشنیوں کی برسات کرتے ہیں ، اقصیٰ کے میناروں میں جگہ دے دی جاتی ہے ۔
اے سرِ زمینِ حجاز ! تجھے سَلام ! سینہ مکے سے مدینہ کردیا جاتا ہے ۔محبوب کے محبوب کی جانب متوجہ کردیا جاتا ہے ۔ یہ مساجد ، یہ جبل ، یہ مینارے ، تیرے روشنی کے استعارے ، لہو ان سے گردش مارے ، کہاں جائیں غم کے مارے ، کرم ہو مرجائیں گے دکھیارے ۔ کپڑا جل کے راکھ ہوجائے تو ہوا کو اوپر اٹھنے نہیں دیا جاتا ہے ، چنگاری سلامت رہتی ہے ، راکھ بکھرتی نہیں ہے ، خوشبو دھیمی دھیمی بکھرتی ہے ۔