Monday, February 26, 2024

حرف خط نقطہ

تجسیمِ وفا ،الفت سرِراز، ماہناز ہیں 
جو شہرِ دل میں حال پر قائم ہیں 
وہ تقدیر پر نائم ،تدبر میں پائیم 
شمیشیر جن کے ہاتھ میں نازاں 
قلم برنگ تجلی صدہا زماں لیے
نور قدیم، نور لطیف کی شفافیت لیے
میم کی عطا پر قائم و صائم شجر 
حجر کا نقطہ، شجر کی الف پر قائم 
زمانے صدیاں بنتے چلتے گئے 
جنبشِ خاماں سے قفلِ نازش ستم زدہ 
دل حرف کنندہ پر لام کا نام 
اتمامِ حجت:کلیہِ درویشاِں ....
حرف تسبیحات 
نقطے تجلیات 
لفظ شبیہات 
خط سایہِ دلبری 
منقش ہالہِ نوری
قندیل نور کی ترمیم
تفریق میں کرم حدوث 
کبریائی میں جبلی دھاگے کا نزول 
الف کے دھاگے 
نقطے کے وعدے 
خطوطِ شبیہات و تجلیات و انوارت کی ہستیاں 
مدحت نامہ لکھیے
لکھوا دیجیے 

وجہِ المنیر کی شاہکار رویت کی ازبر کہانی ہے
طٰہ کی ترتیل شدہ وادی میں جبری آزادی ہے
قدیم راویان نے شام کو سرحد کی مقفل سرحدیں کھول دیں 
رات نے اقتدار سنبھال کے شمس الدحی کے گرد تنویر کے ہالے سنبھالے 
بشر نے جامہ الحسن میں نور کو وجہِ شاہ بنا دیا 
چکر میں صوم و صلوت کے روا رواج رکھے گئے
افسانے لکھے گئے
فسانے بن گئے 
نذرانے بقا کے 
احتیاج نہیں کسی کے
سرکار کی لاگ میں لگن کی چنر سنبھالی نہ گئی کہ آگ میں آگ کا رکھدیا بالن


یہ وہ احتیاجی خط ہے جس کو نقطہ بہ نقطہ قلب میں تصویر کیا جاتا ہے.اس کے بعد لامثل کل شئی کی مثال خط سے خطوط یعنی صورت سے صورتیں ترویج پاتی ہیں. الف لام میم کے امکانی نقطے کی وسعت کئی صدیوں سے نہیں بلکہ ازل سے نقطہ پذیر ہے....

Tuesday, February 13, 2024

اقراء : اکتیسویں نشست

اکتیسویں نشست

متواتر بات چیت و گفتگو ایک مربوط رشتہ قائم کردیتی ہے. اور گفتگو میں تواتر بجانب خدا عطیہ ہوتا ہے. حکیمانہ صفت لیے لوگ اور اللہ کے دوست ایسا سکون رکھتے ہیں کہ ان سے جاری اطمینان کی لہریں قلب و نگاہ میں معجزن ہوجاتی ہے.مجھے حکم ہوا 

قران پڑھو

میں نے ان سے کہا کہ یہ آسان کتاب نہیں ہے.....اسکا پڑھنا  عام لوگوں کے لیے نہیں. بلکہ یہ علماء کرام پڑھاتے ہیں....


فرمانے لگے:  یہ کہاں لکھا کہ خود پڑھنا نہیں ہے یا اسکے لیے استاد چاہیے؟ 

میں نے کہا کہ اس کی زبان اتنی مشکل ہے. اسکی عربی کی گرائمر نہیں آتی ....

شاہ بابا:  آپ قرآن پاک شروع کردیں پڑھنا....آپ سے نہیں پڑھا جاتا تو آپ پانچ آیات روز پڑھ لیا کریں ....ترجمے کے ساتھ .....اسکو ایسے پڑھیں جیسے محب و محبوب کی چٹھی ہے ......پڑھنے کا ایک وقت مقرر کرلیں.. سارا دن قرآن پاک لیے بیٹھنا نہیں بلکہ ہر آیت کا مفہوم اللہ آپ پر واضح کرتا جائے گا...... جس وقت پڑھنے بیٹھیں اسی وقت اس ایک آیت پر غور و فکر کیجیے

میں نے سورہ العلق کھولی ...اسکو پڑھنے لگی ...میری سوئی  تفاسیر پر اٹک گئی کہ اسکا مطلب میں کس تفسیر سے ڈھونڈیں ...


بابا، میں قرآن نہیں پڑھ سکتی. یہ تو علماء و مفسرین پڑھ سکتے.اسکے لیے باقاعدہ نصاب ہوتا ہے

بابا جان فرمانے لگے 

بیٹی،  قرآن پاک اللہ کا کلام ہے.وہ اپنے قاری پر خود اسکے معانی کھولتا ہے.. تفاسیر تو گنجلک وادیاں ہیں جو فرقہ پرستی کو ہوا دیتی ہیں. فلاں مسلک کی تفسیر، فلاں مسلک کے خلاف ہوتے آپس میں تفرقات کو فروغ دیتی ہے.....آپ سورہ اقراء پڑھیے 

اقرا ------- پڑھ 
کیا پڑھنا --------؟ 
کس کو پڑھنا-------؟ 

اقراء سے مراد کیا ہوگی؟ 
بنی نوع انسان جب تفکر کی گھاٹیوں میں خدا کی تلاش میں چل پڑتی ہے تو وہیں سے فرمانِ اقراء جاری ہوتا ہے ...

قرأت کس بات کی کرنی ہے؟ 
تو کون ہے؟
پوچھا جاتا ہے
پھر بتایا جاتا ہے کہ تری پہچان کیا ہے
ترا خدا سے کیا رشتہ ہے پوچھا جاتا ہے
انسان کہتا ہے وہ نہیں جانتا ہے
تب بتایا جاتا ہے
کس مقصد کے لیے بھیجے گئے ہو 
یہ پوچھا جاتا ہے 
انسان نہیں جانتا
تب اسکو بتایا جاتا ہے

انسان کی *نہیں * اور *معلوم* اسکی پہچان بوسیلہ رب فرمان اقراء ہے....آپ قرآن پاک اسطرح پڑھیں آپ کو معلوم ہو جائے آپ کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ آپ کا رب سے رشتہ کیا ہے؟ آپ کو کس مقصد کے لیے بھیجا گیا ...جب آپ کے حاصل کردہ سارے علوم کی نفی ہوگی، تب وہ ذات خود آپ کے اندر قرأت کریگی .....اور سوالات کے جوابات ملنا شروع ہوجائیں گے 

Tuesday, February 6, 2024

من گنجل

 من گنجل کھول سائیں 

گھٹری انج نہ رول سائیں 

من گنجل کھلدا نئیں 

تو وی مینوں لبھدا نئیں 

اندر بڑے جھول سائیں 

کتھے روحی کروبیاں 

کتھے جن و انس تے حورین 

کتھے غلمانِ جنت، کتھے شیطین 

سارے کھڑے ایتھے سائیں 

تسبیح کردے  ایتھے ملائک 

حورین دیون تحائف 

غلمان تعارف دی کنجی 

نوری علی النور کر سائیں 

من گنجل کھول سائیں 

میتھوں میرے توں نہ رول 

میں تے ہاری،سکدی سکدی 

ہن بوہا،باری کھول سائیں 

چَن وی تو،شمس وی تو 

شجر وی تو، گلِ طٰہ تو 

تری قسم، رات وچ تو 

 صبح دا ستارہ بنیا اےتوں 

چار چفیرے رشنائی کر 

جندڑی دی دُہائیاں سن 

صورت صورت وچ توں 

لبھدی پھراں تینوں باروں بار 

اندروں جندری تری صورت وکھائے

لبھیا اندر، باہر ترا سایا سائیں

Wednesday, January 24, 2024

حمد

الحمدُ للہ 

ال حمدُ للہ 

ال (وسیلہ ) حمد (نفس) للہ 

ذات کی تعریف، اپنے آپ کی تعریف بنا ممکن نَہیں. جیسا میں نے اچھا کھانا کھایا.مجھے کھانے میں ذائقے اور بھوک نے کہنے پر مجبور کردیا. واہ،  کھانا بہت اچھا تھا...مولا ترا شکر ہے...تو نے نعمت میسر کی گوکہ رزق کمانے کی مشقت میں نے خود کی. میرے ٹیسٹ بڈز اگر نَہ ہوتے تو میں کیسے اس نعمت کا شکر ادا کرپاتی ...ان ٹیسٹ بڈز کے ہونے کا شکریہ ...یا کہ میرا نیورانز اگر ٹھیک نہ ہوتے تو مجھے  ذائقہ محسوس نہ ہوتا...... اس نیورانز کے نظام کا شکریہ جو مرے دماغ کو سگنلز بھیجتے ہیں کہ مجھے وقت پر زبان تک نیورانز تک میسج پہنچ جانا چاہیے کہ یہ ذائقہ میٹھا، کڑوا ..... ہے ...  یہ سب ذائقے بیک وقت چار ذائقوں کے میسجز لیے مجھے تحریک دیتے رہیں ...... میرا الحمدُ للہ شکر مکمل نَہیں ...

غرض تو ہے کچھ بھی نفع بخش نہیں. کچھ بھی نقصان دہ نہیں.
سب منجانب اللہ ہے
سب للہ ہے
جو نقصان رب سے جوڑ دے.اس نقصان و وسیلے کی حمد جس نے ضمیر جیسی نعمت کی مرے درون میں کاشت کی .....
جو خوبی مجھے معتبر کرے غرض دانش کا منبع مجھے سوچ دے کہ میں یہ سوچ کیسے سکتی؟  یہ خیال تو واردات ہے...اس خیال کی عطا نے شکر کی نعمت دی مجھے ....میری سورہ الفاتحہ ....الحمدُ للہ سے شروع ہوگئی

لیکن میرے نفس نے اگر قرأتِ سورہ الفاتحہ کی ہوتی تُو میں ہر خیر و شر کی معرفت سے اللہ تک پہنچ جاتی. اگر مجھے اندازہ ہو پاتا کہ خیر (حق و باطل )  اور شر (حق و باطل) دونوں میرے لیے برابر ہیں...تب کہ خیر کا نتیجہ حق بھی نکل سکتا یا باطل بھی ---- شر کے سبب سے حق بھی پاسکتی یا باطل بھی....ان دو صورتوں میں میرا محور ان اسباب کی حمد کرنا تھی جن نے مجھے حق سے جوڑا .....یہی مقامِ غور و فکر ہے...

Sunday, January 7, 2024