Sunday, April 25, 2021

عشق ‏رواں ‏موج ‏کا ‏تبصرہ ‏ہے ‏

عشق رواں موج کا اک تبصرہ ہے؟  
کیا ہے عشق؟
عشق مست دنوں کی یادش بحالی ہے؟  
کیا.ہے عشق؟
صاحبو!  
عشق عشق 
یہ تسبیح کرو 
پھر طواف دیکھو 
پھر موج.قلزم کو آب زم.زم.بنا.دیکھو 
پھر چشمات کو پاؤ 
درد سے کراہ لو 
نجات!  نجات!  نجات!  
نجات کے طالب ہین ہم 
ہم کو نہ ملے گی نجات 
قسمت میں ہے ممات 
ہائے یہ روز و شب کا.سلسلہ 
ہائے، افلاک سے اترتا کنواں 
پانی.برسا.رہا ہے 
رم جھم، .رم جھم 
پانی کی چھما.چھم 
غٹا غٹ زمین پی گئی 
ارے سیلاب کدھر؟  
جھلا، بھلا  مانس سیلاب کو پی گیا 
کہتا ہے 
ساقی اور 
ساقی.اور

Saturday, April 24, 2021

حسن ‏، ‏جذب ‏، ‏خدا

جذب ہوئے تو جذبات امڈ آئے. کاغذ پر رنگ بکھرے تو وعدہ الست  دہرانے لگے. یہ عجب ماجرا ہے کہ خوشبو پھیل رہی ہے اور کہاں تلک خوشبو کی پہنچ ہے، یہ حد حسینیت!  یہ حد جہاں سے اعراض نکل کے، تمنا کو جنم دیتا ہے اور تمنا جنون بن کے پروانہ بن جاتی ہے اور گزرگاہیں پکار اٹھتی ہیں 

انت مجنون!  
پاگل گزرگاہ ہے جس نے خوشبو کو پہچانا نہیں.جس نے پہچان لیا،  اس نے سر جھکالیا. خدا کان میں سرگوشی کرتا ہے اور پھر انسان راز سے پردہ اٹھاتے رہنے میں شعور حآصل کرلیتا ہے اور یہ وہ اسرار ہیں جس کو کل اسرار سے واقف ہونا کہتے ہیں. جب حد،  حد نہ رہے تو سر لامکاں کا.سفر شروع میں ہونے کیسی.قباحت  جب انسان اس سوچ سے نکل منجدھار بنتا ہے تو شاخچوں میں گلاب بھی پیغام دیتے ہیں کہ خدا متکلم ہے اور انسان کلیمی سے مبراء نہیں ہے. خدا جب ظاہر ہو تو قم باذن کی صدا سے دل دہل جاتے ہیں کہ دلِ مردہ دھک دھک کرتا نہیں بلکہ رب رب کو جاپ رہا ہوتا ہے. جاپ ایسے نہیں کرتا ہے کہ کہے " رب، رب " بلکہ کہتا ہے ""رب، کب " یا رب،  اب " "رب،  سچ " سچ،  تصویر "، تصویر حسن،  حسن مجذوب .... بس انسان اسماء پر غور کرتا ہے تو وہ شاہد ہو جاتا ہے اور سچ ہوجاتا ہے. صدیقیت کیا ہے؟  صدیقیت سچ کو ایسے ماننا ہے جیسے اسکو ہوتا پایا ہو. ہاں تم.سے سے کچھ صدیق ہیں اور کچھ شہید اور کچھ شاہد ہیں. بس یہ صالحین کا گروہ رب کا پسندیدہ ہے اور وہ جس کو جیسے چاہے اختیار کرلیتا ہے. اس نے کہا "کن " اور فہم کی کرسی دل میں اتر آئی. جب کرسی اترتی ہے تو فہم انسانی ہیچ!  بس قادر مطلق کی قضا کا عصا سامنے ہوتے اختیار کا ہاتھ ید بیضاء ہو جاتا ہے. تب عصا جھوٹ،  فریب کو نگل لیتا ہے اور حق غالب آجاتا یے کیونکہ غلبہ حق کو ہے. تم سے جو مکر و فریب کرتے ہیں وہ جان لیں کہ واللہ خیر الماکرین. جو اس کی شہادت دیں تو وہ جان لیں شہید زندہ ہیں اور وہ رزق دیتے ہیں. اللہ نے کیڑے کو پتھر میں رزق کا سبب مہییا کیا ہے تو کیا وہ علم کے اسباب نہ رکھے گا. عالم اسباب میں سب سے بڑا سبب تری اپنی ذات خود ہے. جس نے خود میں جھانک لیا اسکو مسبب مل گیا اور سبب غائب ہوگیا

عرفان اک نقطہ ہے اور نقطہ کسی دائرے میں رواں رہتا ہے. معرفت کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہوتا ہے جہاں کرسی قرار پکڑ چکتی ہے. کرسی مقرر ہو جائے تو اس کائنات میں ساری کرسیاں اک بڑی کرسی سے جڑے دکھتی ہیں. بس جب تم اک بڑی جبروت تک پہنچو تو احساس ہوگا کہ تم وہاں نہیں ہو بلکہ جبروتی کے دھاگے تم میں انسلاک ہیں اور تم ہو بھی نہیں سکتے، کیونکہ خدا کے علاوہ یہاں کچھ موجود نہیں ہے اور تم خدا نہیں ہو. تو کیا جانا تم کون ہو؟  بس ہم نا معلوم ہیں اور وہ معلوم ہے. اس کے معلوم میں شامل ہونا اسکا حصہ ہونا. اسکا حصہ اس سے الگ نہیں ہوتا ہے گویا تم جتنے نامعلوم ہوتے جاؤ گے،  اتنے معلوم کے ہوتے جاؤ گے. جس نے سمجھا وہ خود معلوم ہے وہ نفس کے ہاتھ فریب میں آگیا. بس نفس بڑی رکاوٹ ہے. 

سدرہ اک مقام ہے جس پر پہنچنا نصیب ہے جب نصیب اوج پر ہو تو خود بلایا جاتا ہے پاس محبوب کو اور ذکر نے بلند ہونا ہوتا ہے کہ مذکور تو ذاکرین میں سے تھا. فاذکرونی اذکرکم کی مشابہت کون و مکان سے کملی نمودار ہو جاتی ہے. اس کملی نے جتنی مثالیں شامل کر رکھی ہوتی ہیں وہ مثالیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور لگتا یہ عالم مثال میں بس اک حقیقت ہے کہ بس ایک نے ایک کو ہمیشہ دیکھا. گویا کوئ موجود ہے ہی نہیں،  بس ایک،  ایک کے لیے موجود ہے. یہ وہ رمز ہے جس کو جانا جا سکتا ہے بعد بیتنے کے. جب بیت جائے تو طالب و مطلوب کے رشتے سمجھنے لگو گے. جان لو گے کہ اسی دنیا میں اللہ کسی روپ میں ظاہر تو کسی روپ اسکا محبوب. یہ جو سینے راز اگلتے ہیں یہ اس کی احسن شارح ہیں کہ اللہ واحد ہے اور کلیمی، کلیم جانتا ہے مگر بات یہ ہے کہ دیدار کی حسرت خمیر میں رکھی گئی کہ تجلیات میں کامل و اکمل اک تجلی ہے جب وہ رو سینے میں دوڑتی ہے تو ہر جانب خدا کا جلوہ دکھنے لگتا ہے تب حق کا پیغام پہنچانے کو اٹھ کھڑا ہونا ہوتا ہے

Wednesday, April 14, 2021

سبب ‏،مسبب

سب پوچھ رہے ہیں حیرت کے اسباب 
میں کہواں:  چل جانے بھی دے اب 
سب کہہ رہے ہیں،  اچھا!  رونق سر شام 
میں کہواں:  یہ ہے عالمِ اسباب!

سبب ہوا اور مسبب بنایا ہے. سبب کیا؟  اخبار کا ٹکرا، جو لگا دل کا تو لگی چنری میں آگ. نہ بجھی نہ بجھائی گئی. جلی تو جلائی نہ گئی!  ارے مٹی میں آگ! جل رہا ہے مٹی بدن!  محشر بدن!  آگ کندن!  نکل رہے ہیں جواہر اور منقش کرسی پر لکھا ہے الحی القیوم 

من شانت! من شانت!  شانتی مقدر!  شانتی سیئات سے دور لیجانے والی ہے. شانتی اک ہستی ہے اور رہتی مستی میں ہے. مستی میں الستی ہے کہ راز الستی کسی فقیر چشتی کے پاس ہے گمان ہے کہ گمان نہیں کہ وحدت کی گنگا میں بس اک چشمہ ہے اور چشمہ کا نام داؤدی سریانی ہے کہ لحن عربی ہے، چاشنی بھی ہے اور ہندسہ عربی جبکہ بات ہندی ہے. یہ کسی قبیل سے نکلا ہے اسم ہے کہ جس کے دھاگے چہار سو بکھر رہے ہیں. کس کی جیون نگری میں.درویش جھوم.جھوم جھوم کی صدا لگاووے. جیون کی مالا میں پریمی اک ہے اور پیالہ بھی. جس نے پیا،  اس نے پلایا اور کم نہ ہوئے مئے. اس مئے کو پینے کے بعد لاگ کے دھاگے کہون کہ 
اللہ اللہ ستارہ سحری! 
 اللہ، مرغ بانگ دیتے گہری

ضرب ‏اور ‏نہر

راز درد جیسا ہوتا ہے اور لہو اشک بن کے نکلتا ہے تب اسرار ظاہر ہوجاتا ہے. اک فقیر گاؤں میں بیٹھا ستارے تکتے رہنے کی ڈیوٹی پر تھا اور جو پاس آتا تو کہتا تو نے ستارہ سحری دیکھا؟  
لوگ پوچھتے بابا ستارہ سحری کیا ہوتا 
وہ کہتا جب پو پھٹنے کو ہو تو انسان نموداد ہوجاتا ہے،  پردہ غیاب سے جونہی انسان نمودار ہوتا ہے تو جانور اس سے بھاگنے لگتے ہیں یا وہ جانوروں سے مگر ستارہ سحری ان کو ایسی صبح دیے جاتا ہے کہ شامیں رشک کرتی ہیں 

لوگ پوچھتے بابا " ستارہ سحری کیسے ملے گا؟  
وہ کہتا جب تک نینیاں کی بازی میں،  نین دیپک نہ ہو جائیں تب تک دیر ہوتی ہے پھر نین کا فرق نہیں رہتا ہے

کوئ پوچھتا کہ بابا نین کا فرق کیسے نہیں رہتا ہے 

وہ ضرب لگاتا تو اللہ اکبر کی ضرب سے زمین سے نہر جاری ہو جاتی 
کہتا پیو اسکو 
جو جو پیتا،  تو کہتا 
نانا کے وارث بہت سے مگر وہ وارث ہمارا ہے 
اب وہ بولتا کیا ملا؟  
کہتا بس والی کونین 
امام القبلتین 

وہ جھک سے اس گاؤں سے غائب ہوتے دوسرے گاؤں چلا جاتا اور کہتا 
حق!  یہ ستارہ سحری ہے 
یہی ستارہ سحری یے جس کو نمودار ہونا تھا

Friday, April 9, 2021

سرخ ‏ردا

شہ سرخی میں کسی سرخ پوش کی ردا ہے اور آنکھ میں اتری حیا ہے  حیا کا مخاطب ہونا اور نور کا جھک جانا ..... جھک گئی زمین اور فلک چھا گیا 
کیا رہا؟ کچھ رہے گا؟
نور الھدی کا آئنہ باقی رہے گا 

اللہ وانگ ستار، ملی ہے دستار،  جبین پر چلتے تیر کی رفتار، یہ دل ہے گرفتار، مریض کا مرض لکھا ہے جانبِ رخسار،  وہ حلقہء یاراں کہ بارِ دگر دیکھ کے چلے مرا ستار اور واج میں حلقہ ء سلیمانی اور راج میں اک راجدھانی ہے  کیسی کہانی ہے اور کہانی لکھی ہوئ عجب نہیں بلکہ جاننے والا حیرت کا مجذوب ہوتا ہے  عجب نہیں کچھ بلکہ آنکھ کا فریب ہے  دل پر ریاکاری جب حجاب ڈال دے تو حقیقت ڈھل جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ادھر نہ جا،  اس دیس نہ جا،  ڈوب جا من نگر میں اور مست کے نئے باب سیکھ!  سیکھنے کو جہان رنگ و بو میں کیا رکھا ہے بس اک جہان ہے جس میں صبا چل چل کے ہوا ڈالتی ہے تو من کے پردے سرسراتے ھو ھو کہتے ہیں گویا یکتائی میں کائنات نے دیکھا جب خود کو تو روپ وہی رہا مگر مابعد جلوے بات بدل گئی ...

ڈوب گیا ہے کوئ ابھرنے کو 
ڈوبنے میں حیات ہے 
حیات دوامی وجود فانی ہے 
زندگی تو آنی جانی ہے 
یہ شبیرو شبر کی کہانی ہے 
شبیر ابن علی، فاطمہ کے لعلِ باکمال. 
شبیر جودو سخا کے مظہر اسم حال

میم ‏سے ‏ہست ‏جہاں ‏

میم سے ہستِ جہاں 
میم سے بودِ جہاں 
میم سے جمال عیاں 
میم سے اجالا معجل 
میم سے رسمِ کروبیاں 
میم سے ذکرِ ربِ نہاں 
میم افلاک کی قندیل 
میم جذبات کی سرخیل 
میم شمعِ ہدایت ہے 
میم جاری روایت ہے 
میم کا سرمہ لگ جاوے 
جدھر ڈھونڈوں، اپنا آپ نظر نہ آوے 
کمال ہوا کہ جلال جلال نہیں ہے اور حال نہیں ہے کہ اسم کمال نہیں کہ درد سے نڈھال نہیں، طیبہ میں وضو کی مجال نہیں ہے،  اشکوں کی ہرتال نہیں ہے،  روزہ میان میں نہیں ہے اور حال بھی حال میں نہیں. فکر دو جہاں سے فقر جاری ہے اور سوار کو مل رہی سواری ہے کہ شمع ایسی لو لگاوے عشق دل میں جلاوے، جان روگ لاوے اور آنکھ چشمات بہاوے. ریگِ دل پر لکھی تحریر پڑھو کہ 
اللہ اللہ کہا گیا ہے 
اللہ ہوگیا ہے جاری 
کہاں؟  
رگ رگ میں 
سانس سانس میں

بنانا ‏،مٹانا

 انتخاب آدمیت رسوائے ہست ہے
انتخاب احد و واحد باعثِ عزت ہے
جلوہ یزد ، نارِ ابراہیمی میں عینِ حق
جلوہ نور سے سرمہِ طور ہے حق الحق
جلوہِ ہست ابن مریم سرِ درا ، علم الحق
جلوہِ رحمانی تا فرش سرِ عرش حبُِ الحق

رحمت ‏

آشیاں میرا ہے یا ترا ہے؟  تو جہاں ہے اور مکان میرا ہے! دستارِ شوق مرے سر پر، سر ترا ہے یا مرا ہے!  رحمت تری نگاہ ہے اورنگاہ میں رستہ ترا ہے یا مرا ہے؟  تلاش مکمل ہوچکی ہے کہ الف سے الف تلک کی بات خالی الف کی بات نہیں ہے  الف سے پہلے ہونا ہے اور الف کے بعد ہونا ہے  پہلے نفی ہے اور بعد میں محبت ہے رحمت ہے،  ماممتا ہے. محمد کی میم ہے.

ان گنت درود سیدی سرکار دو جہان پر - صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے.

میم کا سفر ہے اور میم ایک ہے. اور رسائی میم تلک الف بنا نہیں ہوتی. الف ہونا آسان کہاں؟

لم یلد ولم یولد 
محبت نہیں،  عشق کا سودا ہے 
راکھ ہوتی قبا نہیں،  روح ہے 
انجذاب درد کے تیر ہورہے ہیں 



الف نے پکار لیا ہے 
میم سے اظہار ہے 
روح مشکبار ہے 
رات پھول پھول 
چمن مہک  مہک
زمین سرخ سرخ 
دیپ روشن روشن 
چاندنی چاند دونوں 
ماہتاب کے پیش ہیں 
ید بیضائی ہالہ دل.پر

یہ فاطمہ کا لعل ہے جن کی پیشانی سرخ سرخ ہے، جن کی بات اظہر من شمس ہے کہ شمس کی تابش میں پروانے جل جاتے ہیں اور قصیدہ شانِ قلندر شروع ہوتا ہے!  رنگِ حسینی برنگ  لعل یمنی ہے اور عقیق دہنی ہے. یہ سراج دہنی ہے 

زندگی اک قالب میں،  کہاں. ہاں اک قالب کے سفر سے چلتی اڑاں بھرتی ہے. جب بھرتی ہے تب تشبیہات سے پرے فاصلے ہوتے ہیں تب رہگزر سیدھی،  منزل آسان ہو جاتی ہے تب بلایا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ طالب کو چاہیے مطلوب بن جائے. یہ جہان طالب کا مطلوب اور طالب کا مطلوب ہونے کا سفر جاری و ساری ہے آب کوثر پانی ہے. یہ وہ پانی ہے جو عرش کا پانی ہے. یہیں سے پنجتن پاک کی مہک اٹھی ہے جو لحن در لحن ہر نبی نے رہن رکھتے منتقل کی. پھر یہ ہم تک پہنچی ہے. زمین کی کوکھ کے غم تب کم ہوتے ہیں جب درد بمانند اسماعیل پاؤں مارتا ہے تو چشمہ یہی پانی کی مانند ابلتا زم زم ہوتا ہے. وہ نشان جہاں کھڑے ہو کے سیدنا ابراہیم علیہ سلام کے پاؤں کا نشان ہے  یہاں ہر وہ طائر رہ گزیر ہے جس نے خود کو دریافت کیا. جب تک درد کے چکر حاجرہ کے جیسے سسکنے بلکنے پر مجبور نہیں کرتے،  جب تک قربانی کو ادا نہیں کیا جاتا ہے چشمہ جاری نہیں ہوتا. رحمت جھانکتی مگر دریچوں سے ہے

ملوہیت ‏سے ‏الوہیت ‏کا ‏حسن ‏

آج جسقدر ملوہیت کا مالک تمھارا حسن ہے گویا تم نیلے آکاش پر رہنے والی اک ایسی انجیلِ تحریر ہو جس کو یوحنا کے مقدس مصحف سے لیا گیا ہے. قندیلِ نُو ..

قندیلِ نو
برقِ نو .... 
اشجار پر پربت کے سائے 
پربت پر انوار ہیں چھائے 
افلاک منور ہیں 
تم کو ملوہیت کی مٹی نصیب ہے 
تم الوہیت کے چراغوں سے جل چُکی ہو 
گمان کیا ہے؟
خیال کیا ہے؟  
کمان کیا ہے؟  

تم دور افق پر رہنے والے رانجھے سے پیار کی بات کرتی ہو مگر رانجھا تو نشان والا ہوتا ہے وہ نشان جو تمھارے سینے میں چمک رہا ہے 

جل اُٹھا 
کیا؟
دل - دل کو جلنا ہی تھا نا 
تُمھارے کوچے میں بیٹھی ماہل کو کیسے منایا جائے کہ تم بھی خُدائی راز ہو  راز؟  فاش راز کیا راز ہوتا ہے؟

آج تم کو کس نے پکارا؟
میں نے؟
نہیں،  ھو کا نشان ہے 
نَہیں،  یہ تو گمان ہے 
نہیں، یہ تو نسیان ہے 
نہیں، یہ تو ہیجان ہے 

ہاں، ہاں، یہ گمان ہے 
ہاں، ہاں، کن فکان ہے 
ہاں ہاں، گورستان ہے 
ہاں، ہاں بوستان ہے 

یہ تتلیاں، یہ پہلیاں ہیں، یہ اداس نگر سے وجدان کی جانب جانے والے راز جن کو تم سہہ چکی ہو مگر کہتی ہو کہ میں نہیں کہتی بلکہ یار کہتا ہے. یہ سب گورکھ دھندہ ہے کہ کائنات کہانی ہے اور کردار سج رہے ہیں اور ساز بج رہے ہیں  اس نے مصحفِ داؤدی سے گایا ہے!
کس نے؟
جس کا تم ساز ہو.
وہ راگ جو صدیوں سے بجتا آیا ہے.
آج کے دن اللہ تمھارے پاس بیٹھا ہے اور میں اپنے اللہ کو تمھارے سینے میں قرار پاتا دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں یار جابجا ہے. یار تو ہے اور میں نہیں مگر پارہِ جگر! چاک جگر ہوتا تو بات رفو گری کی ہوتی 


سنو دل 
اے جانِ حزین 
تم اک ایسی ہوا ہو.
جو معطر، معطر ہے 
جو شاخِ نسیاں سے گلِ لحن کی صدا میں نغمہِ گل سناتی ہو  میں کیا کیا بتاؤں، کہ تم کیا کیا ہو. تم خدا ہو اور روبرو ہو. میں نے تم کو اب بھی خود سے الگ دیکھا ہے! آہ! یہ جفا کا تیر میری ذات سے چلا ہے اور خطا پر مسکراتے ہو،  تم بھی عجیب! شاید کیمیا گر نے فطری لحن ایسا رکھا ہے کہ میں تم کو دیکھ کے سنتی ہوں اور سنتے کھو جاتی ہوں 


اے دل. 
دل کے ہزار ٹکرے 
اے دل! .
رونما تم، جلو نما تم 
کبیر ملتا ہے کبریاء جاناں سے 
کبیر کی آہٹ تمھارے سینہِ انجیل میں تحریم صورت اک سورہ ہے اور افلاک نے سورہ مریم تمھارے سینے میں اتار رکھی ہے. تم باطن میں ظاہر ہو اور ظاہر میں باطن ہے. تم تم ہو کہ تم سے پہلے بھی تم جیسی کون تھی؟ تمھارے بعد کون ہوگا؟ ..
حدجان سے قریب آ. 
رگِ جان کو نصیب ہو.
نس نس میں حبیب آ.
شام ہے نا، شام میں آ.
رات رقص کی رانی ہے 
رات تری مری کہانی ہے 
رات روایت اک پرانی ہے 
رات کی بات  انجانی ہے

میں نے تم کو چاہا ہے تو چاہت میں افلاک زمین بوس ہوگئے. اب بتاؤ زمین کیا کرے؟ کیا زمین کا وجود رہے گا؟  

والجبال نسفت .... 
والاوتاد الجبال 
واذالنجموم طمست.

اخیار سے بھلائی کیا ہوگی؟  خیر ہے جان!  خیر سے نروان!  خیر ہے رحمن!  خیر ہے قران!  خیر ہے وجدان!  خیر ہے انسان اگر ہو رحمن یا کہ بن جائے انسان کہ پالے نروان اور بدھی ہو جائے!  بدھی ہوجانے والے کہاں سے آتے ہیں کہ جن کے بے کل سوتے وہ اپنے پاس رکھ لے وہ اس کی فکر میں بدھی ہو جاتے ہیں ...
یہ جات سرکار ہے.
موری جات سرکار.
مورا سئیاں پکارت 
موری باتاں ہارت.
میں کردی جسارت 

یہ آگ تھی! یہی پانی ہوئی، یہی گلزار، یہ ہاتھ تھا جو افق سے نمودار ہوا اور گلنار کردیا  آج تمھاری آگ اس کے افق پر نمود سے پہلے جل رہی تھی مگر پھر کس نے کہا.
شانت،  شانت،  شانت 
آنتا جانتا اک سانچا ہے. 
راجا اک ہے رات میں ہے 
رات پیار کی ہتھیلی ہے 
ہتھیلی میں ترا جگنو ہے



میں نے جانے کس اورر سے تم کو دیکھا، چُنر تمھاری گُلابی رہی اور نوابی رہی ہاتھ میں  یہ ہاتھ سرکار والا ہے،  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اسمِ واؤ کا دل پر ہالہ ہے اور سیدہ بی بی پاکیزہ طاہرہ کی بات ہے. تم نے جلادی اگر بتی؟ تم نے عطر نہیں لگایا؟  تم لگاتی تو اچھا ہوتا کہ بی بی جانم ناراض ہوتی ہیں کہ ایسے بنا عطر کے اجازت نہیں آنے کی. سمجھا کرو دل مگر تم نے کہا اللہ اللہ اللہ اللہ 
پھر سنا ھو کس نے کہا
کہو موری جات؟  .
موری جات 
کیا تری جات؟  
تری جات سائیاں 
تجھ سے چاہ بے پائیاں. 

سائیاں شاہ مٹھل سائیں کے پاس سے تحفہ دیتے ہیِ جس میں لکھا ہے کہ اگنی کے دیپ دھوپ کی تمازت میں نہیں رات کے اندھیرے میں جلتے ہیں  تو خود جل کے منور ہو جا ..سرکار میاں میر کو سلام کو ہم نے بھیجا اک دل اور دل والے پوچھا دل دل ہے اور دل کہاں رکتا ہے دل رنگ بسنتی ہے یہ اعظم ہستی ہے یہ بالائے دل کون ہے؟  یہ پس دل کون ہے یہ جان کے بتایا جانا ہے تم کو کہ تم اک نوری اخبار ہو جس میں مصور کا نیلا رنگ کہیں پیلا تو کہیں سرخ موجود ہے  اس کی نگاہ ہوگی تو تلاوت ہوگی رنگوں کی. چل دھمال ڈال

شاہِ تبریز تم کو بُلاتے ہیں اور حکم سُناتے ہیں کہ محکم اولی شہباز کے ہیں وہ جس سے نسب و حسب اک کڑی ہے  سجدہ گاہ ہے اور اک سیّدہ کھڑی ہے. خمیر جس کا نسبی اور بات جس کی ہو کیا کسبی کہ زمین میں لکھی آیتِ الہی چمکتی اور چمکتی کہتی تحریر میں نصب دلاویز مسکراہٹ کہ تمکنت سے براجمان شاہوں کے شاہ ہیں  افلاک زمین میں ہوں تو زمانے مکان میں آجاتے ہیں. مکان کیا وقعت کھو دیتا ہے؟  امکان کبھی حرفِ امکان سے بڑھ کے ہوا کہ حرفِ امکان نے جہان رنگ و بُو منور کر رکھا ہے کہ گیسوئے حال میں لعلِ یمنی اور دل عقیقِ یمنی ہے  تابندہ جو بات ہے وہ اس کی بات ہے اور رات میں آقا ہوتے ہیں یا آقا والے  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. جناب مآب سے کبھی کیا کہیے کہ دل میں باقی کیا کچھ ہوگا؟  اچھا ہو بھی تو تب و تاب ہوگا کہ پوچھا جائے؟  سچ تو یہ ہے کہ سچ نہیں اس سچ کے علاوہ کہ ذات کا ارادہ کن کی تعبیر ہے اور تعبیر شبیرِ اولی علیہ سلام کی قربانی ہے جن کے پیچھے کھڑے ہیں انجانے سے، بیگانے سے. یہ حال وساطت رسمِ شبیری ہے کہ جسم میں کل حیات کی زنجیریں ہیں. راستے میں بہت سی تحریریں ہیں جن پر لکھا ہے یہ اللہ ھو والی ہستیاں ہیں کہ تو فنا ہو جا کہ بقا تو بقا والے کو ہو کہ فنا ہونے والے کلمہ مکمل کر پاتے ہیں. یہ اس کا اور اس کے حبیب کا جہان ہے اور تو درمیان میں آنے والا فردِ نو کون ہے؟  جسم میں جذب کی زمینیں ہیں اور آسمان سے مستی کی طلب گار ہیں کہ نکلے اشجار سے برق نو 
.برق نو؟  
قفل نو کھلا؟  
یہ سینہ ہے؟  .چابی کیا ہے؟  
طسم!  الف سے طسم!  الم کی بات ہے جس میں رکھی اک ذات ہے  جس کی یہ اوقات ہے کہ سوغاتِ ہما ہے جیسے اللہ نے شہبازی کو بلایا ہے اور جسم میں رکھا تیر چلایا ہو


کج ادائی ہے اور آنکھ بھر آئی ہے. یہ زندگی کبھی تری تو کبھی میری ہے کہ میری نہیں ہے اور تیری بھی نہیں  یہ جذب ہوتی ردا ہے کہ افلاک میں وہ اک نیلا رنگ جس تیر کا ہے وہ آج دل میں ہے اور فائز اک راگ ہے. یہ الوہی نغمہ ہے کہ عشق بس خدا کرتا ہے  یہ حادث و حدوث کا پابند نہیں ہے. ازل سے چلا دھاگہ وقت پر مکمل یکجا ہوجاتا ہے پھر الف الف ہوتی ہے. الف کے رقص میں الف خود تماشائی ہے. الف کو خود سے شناسائی ہے. الف کو ملی کسی در سے شہنائی ہے کہ کج ادائی ہے اور آنکھ بھر آئی ہے. یہ سونا مندر حیا کی تعمیر سے ہے  کہ حیا کا قرینہ اک سے ملا ہے بی بی پاک جانم سب سے عالی ہیں جن سے پانی ہے برق نو کے خالی خالی اخبار. خالی میں ایسی بے رنگی ہے کہ وہ بے رنگی الحق نعرہ خدائی سے خود خدا ہونے تک کا سفر ہے. حق یہ ذات کا سفر کتنا اوکھا ہے جو نہ سہہ پائے سفر اس کے لیے چھوکھا ہے. رادھا بھی بے چین ہے کہ ساغر کے چشمے سے غزال نے آنکھ لگائی ہے. آنکھ مل گئی ہے اور ہاتھ نمودار ہوا ہے  یدِ بیضا 
یدبیضا!  
یا سیدہ!  یا سیدہ!  یا سیدہ 
یدِ بیضا،  ید بیضا،  ید بیضا 
انظر حالنا،  انسان کیا کہے؟  حق کہ قرار میں نسیان تحفہ ہے. تحفہ پایا ہے؟  جذب میں جذاب ہے. رادھا کو چاہیے کہ شاہِ حسین رض نے کنگن بھیجے ہیں. یہ شہنائی والے کنگن ہیں 
برق نو 
احوال نو.
خال خال چہرہ.
بال بال حال. 
زمین نے چلنا چاہا مگر تھم گیا دک کہ  دل کا کام تھم جانا یے کہ رک جانا تھا


بس تھم گئی کہانی اور کہانی تھمتی نہیں سانس تم جائے تو ہاتھ دل پر رکھ دِیا جاتا ہے. سچ کا ہاتھ دل پر ہو تو آنکھ نمانی نیر بہاتی ہے کہ نیل بہے نہ بہے مگر بہتا ہے کہ جنگل میں رادھا ہے جس کو ملا ارادہ ہے کہ یہ وعدہ ہے جس میں رکھا آوازہ ہے.

کن کا  آوازہ 
خیر کا آوازہ 
قالو بلی کی خیر 
قالو بلی میں حیرت 
قالو قالو کہتے رہے 
رک گئے!  بیٹھ گئے دل اور قالو نَہ کہا گیا 
بس اک جان گو کہ دِل دِل تھا کچھ نہ رہا

کھیعص ‏

پھر سے سرگوشی ہوئی ہے اور پھر احساس کے دریچے سے آواز داخل ہوئی ہے. یہ آواز کو سُنارَہا ہے من نگر کی بتیاں عشق میرا. جسم فانی ہے اور روح اعظم ہے. روح اللہ ہے اور جانب جانب چہرہ اللہ کا ہے  فرش پر رہنے والے نے دستک سنادی ہے. شدت میں روکا گیا ہے اور سنگیت کی وادی میں جسم فانی کا گیت روح گانے لگی ہے  وہ گرج جو فانی دنیا نے سنائی تھی،  اسکا گیت روح نے گایا ہے کہ تار سے تار مل گئی  زمانہ زمانہ سے مل گیا  جسم میں افلاک طویل قدامت کا حسن لیے ایسے لامثال لہُ ہستیاں ہیں کہ دل نے کہا 

اے فقیرِ چشتی 
اے رہبرِ ہستی 
اے کافر مستی 
اے تیورِ زمنی 
اے جانِ لحنی 

یہ تھا قفل جس میں کہا گیا کاف اک برق ہے،  وہ برق جس کو طین سے نسبت ہے اور برق جس نے منسوب کیا ہے مٹی کو اور مٹی کو اچک لے یا مٹی اچک لے اس میں خود کو تو مٹی مٹی نہیں رہتی،... جیسے کہف والوں کا کتا سبقت لے گیا بالکل ایسے مٹی سبقت لیجاتی ہے. یہ سابقہ خواب والوں کو ملتا ہے کہ لاحقہ بھی خوب سے ملتا ہے درمیان میں اللہ ہے  جس نے جہان بھر کو مٹی کو مٹی کردیا اور اپنے نشانِ موت کو عزرائیل سے تعبیر کردیا.
جبرئیل امین روح الامین 
موت کے فرشتے جانشین.
میکائیل مٹی میں مکین 
لاریب!  یہ اللہ کے مکان 
لاریب!  یہ بجلی گراتے ہیں 
لاریب!  نشیمن جل کے مجلی ہوتے ہیں 

سنو، جب بجلی گرتی ہے تب سبب اللہ کے سبب نہیں ہے کوئی رہتا ہے. یہ شبیہہ ہے جس میں شائبہ نہیں رہتا مصوری کرنے والے نے قلم ایسے بنایا ہے .... کاف سے ھا کی عطا ہوتی ہے تو ہر شور کی جگہ قرینہِ حسن ھو ہے. وہ وہ ہے مگر وہ ہے کون؟ اس نے کس کو یہ مسند بخش رکھی ہے؟ یہ اظہار اسکو کیوں پسند ہے؟  جہاں سارا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے، یہ کہا ہے اللہ نے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کہتے ہیں 

علی علی علی،  علی علی علی .... 

علی کا ذکر کس نے کیا ہے؟  یہ ذکر ایسا چلا کہ چلا کہ چلتا رہا ہے. جسم تو فانی ہے مگر حق کی آیت نورانی ہے. آگ ہو کہ آتش جس سے دہک دہک کے کوئلہ دل کو روح جب پاتی ہے تو فواد تحریک پکڑ لیتا ہے  تب اللہ کی تار بجتی ہے اور تار جب جب بجے اللہ کی تو درود ادا ہوتا ہے. اس لیے کہا گیا درود اللہ اور اس کے فرشتے بھیجتے ہیں مگر انسان یہ سمجھ نہیں سکتا ہے اور زبان پر درود جاری نہ ہو کیسے جب دل میں اللہ ہو،  قلب میں خفی ہو یا جلی ہو ذکر جاری ہو تو ذکر میں ذکر ہوتا ہے اور دھیان اتارنے والے فرشتے کی قسم.
یہ ذکر جو لقا کے لیے ہوتا ہے 
یہ ذکر جو سینہ چیر کے اتارا جاتا ہے 
یہ ذکر جس سے رخ کی تابانی فزوں ہو جاتی ہے.
یہی احیاء العلوم ہے کہ فالملقیت ذکر کی ہوا سے چلنے والے ہادی فرشتے نے کہا کہ خدا کہتا ہے درود بھیجنا واجب ہے  واجب المرجب ہے  سوغات ہے کہ بات جذبات کی ہے ...بس اللہ جب درود بھیجتا ہے تو کاف سے ھا سے یا بنتا انسان جانے کہ مخاطب وہی ہے آواز وہی ہے خود ہے. ایک ہوجانا ایسا جیسا کن سے پہلے کی بات ہو. کن کا آواز بعد میں پھوٹا تھا قبل اس کے اس نے کہا،  اس نے سنا تھا.  "یا " سے چلتے جب صواد جانب رواں اسم ہوجاتا ہے. یہ حروف سے اسم کا سفر ہوتا ہے کھیعص!  تو دیدار پہلے واجب ہوجاتا ہے  دید کا دعوی کرنے والے پاگل ہوتے ہیں کہ اللہ جہت میں نہیں سماتا ہے مگر جہت کی تخلیق خود سے کرنی پڑتی ہے  اس کی جہت سے اپنی جہت اکو ہوجانی ہے. ہم سب اپنی اپنی نسبت سے خدائی راز ہیں اور جہات میں رازوں کا جہاں لیے جہات میں صواد ہوجاتے ہیں 

کھیعص کی آیت کی نمود 
کھیعص کی آیت کا نزول

سیدہ ‏بی ‏بی ‏جانم

اک ہیبت حسن ہے کہ غیبتِ دل ہے  اور جانے کس نگر سے کشش کی ہوا مجھے کھینچ رہی ہے. زمین کو زمان والے نے بُلایا ہے. خاک نشین تو خاک سے وراء ہوگیا ہے  خاکی اس کی خاک میں کھو کے الحی القیوم کا ذکر ہوگیا ہے. دھیان کر کہ دل کے میان میں نگاہ کے تیر ہیں. جبین جھکتی سیّدہ کو سلام پیش کیے جائے. جانِ حزین کہ رو ہے دل میں. منجمد برق تھی میری اور "رو " بن گئی جب سے ان کو دیکھا. دل نے کہا کھیعص!  کھیعص!  کھیعص!  عاصی کو آس رہی ہے اور آس نے آس میں خود کو چھپالیا ہے. یہ شان رو ہے کہ برق نو ہے.

سیّدہ بی بی جانم طہارت کی اعلی مثال کہ مثال ثانی نہیں کوئی!  ان جیسا بننے کی کوشش گستاخی ہے. ان کو دیکھنا عین گستاخی ہے. بس نین جھکے رہتے ہیں اور سجدہ ہوجاتا ہے. 

سربقدم سیدہ عالیہ ہے 
سر خالی مگر وہ عالی 
وہ جن کی تربت پر ہے 
نور کے دل کی ہے تھالی 
تربتِ زہرا نشیمن ہو مرا
تربتِ زہرا سدا رہوں میں 


قصور نہیں ہے مگر کشور کا مالک کہتا ہے مکسور ھ ہے اور بی بی جانم کے پاس واؤ کا چشمہ ہے. آیتِ تکویر دل میں ہے اور سورہ مریم چمک رہی ہے. میں نے بی بی مریم سے ان سے سایہ پاتے پایا ہے. طہارت مستعار لی گئی ہے اور لی جاتی ہے. جو کچھ جس کے پاس ہے وہ سیدہ کا ہے اور ہمارا کچھ نہیں.ہے. کچھ تو ہے بس ذات جو پرکار ہے، نفسا نفسی میں.پھنسی ہے. یہ تو عالی.ہستیاں جن.کا کرم ہے ورنہ بھرم کیسے رہتا ہے. سورج جب سیدہ بی بی پاک کے پاس ہوتا.ہے تو سورج حجاب لے لیتا.ہے .. کائنات پر ان کی حیا کی ردا پھیلی ہے اور کائنات بھی جھکی چاہتی ہے. مخملیں مخملیں اور کہاں ٹاٹ کا پیوند ... غرض سب سب ہے ان کا ہے اور صواد کی تنزیل ہے. یہ ردائے سیدہ بی بی زہرا رضی تعالی ہے جن کی حیا سے حیا بھی چھپ جائے جن کی نگاہ سے آنکھ ساکت ہوجائے،  سانس تھم جائے اور دل مجذوب ہو جائے. یہ کہانی ازل کی ہے جب انہوں نے دیکھا تھا،  گویا ابھی ابھی دیکھا ہے. وہ جب جب دیکھتی ہیں نور کو نور کا گمان ہوتا ہے. قسم شب تار کی،  حریم ناز ہیں دل میں، نازشِ خواتین ہیں،  تکریم نے جھک کے سلام پیش کیا تو مکرم کہلائی اور گنہ گار کیسے سلام بھیجیے .... قران جزدان ہے بنا ہے اور جزدان میں یہ سیدہ بی بی جانم کے نور کی مجلی آیت!  اللہ اللہ اللہ سیدہ،  نور والی!  قران کی نزولی ترتیل اور ترتیل سے تنزیل ہونے تک،  منزہ مقام تلک بس سجدہ سفر طے کرواتا ہے. سجدہ میں سر نہ کٹے تو آنکھ سلامت رہتی ہے. یہاں آنکھ نہیں بلکہ دل چلتا ہے اور دل سے سنا ہے کہ باد صبا نے کہا ...سیدہ آیتِ تکویر ہے وہ نوری تمجید جو الماجد نے اوراق قرانی مین ڈالی وہ یہاں سے انتقال ہوتی ہے. کون کہتا ہے جب وہ ہوتی ہیں تو نور رہتی ہے. نور کہیں نہیں ہوتی بس وہ ہوتی ہیں جن کی پاکیزگی میں شرمندگی کا عنصر مجھے ماں کی یاد دلاتا ہے. ماں!  پاکیزہ کردے!  ماں مصفی کر تاکہ عطر لگا دل ہو ورنہ خالی سجدہ؟  خالی سجدہ تو ٹکر ہے اور ٹکر کیا مارنی

دل ‏مرکز ‏میں ‏چھوڑ ‏کے

اپنادل مرکز چھوڑ کے 
دل دھیان  میں چھوڑ کے 
وظیفہِ عمل کی نگری میں 
رقص کر،  
نئے آہنگ سے 
نئے طرز کی زمینیں ہیں 
افلاک کی چشمات 
گویا ہیں یہ آبِ حیات ...
پھوٹے من بستی سے چشمے.
جذب ہے کہ جذب مشہود.
جذب ہے کہ مشاہدہ ہے 
جذب ہے کہ شہادت ہے 
جذب ہے کہ الواجد کی تحریر 
جذب ہے کہ نورِ سماوات کی تمثیل.
بجلیاں نشیمن میں گرا دی جائیں 
تو جلوہ گاہ مرکز میں آجاتی ہے 
دل مرکز،  دل مرکز،  دل مرکز 
مرکز میں ساجد ہے؟
یا مرکز میں سجدہ؟
مرکز میں نہ مسجود نہ سجدہ 
بس ایک ہے 
ایک نے بنایا سب کو 
ایک نے جلوہ دیکھا جس میں اپنا 
اسکو اپنا بنالیا 
اسکا ذکر اٹھا دیا 
بھیج دیا زمانے کو 
زمانے کس کے؟
جس کو اپنایا جائے اسکی زمین،  اسکے افلاک 
کرم ہے! کرم ہے!  کرم.ہے 
یہ تیرِ جدائی گو تیغِ تغافل 
مگر کرم مگر کرمگر.کرم 
رکھا.بھرم ہے 
جھکا یہ کس سر ہے 

اجدنی!  وجدنی!  ستجدنی!  بس شعلہ نکلا معبد بدن سے اور ہوگئی زمین وادی طوی ... موسی سے کہا جاتا ہے نعلین.اتار دے. نعلین تو اتار ہی دی جاتی ہے کہ کلیمی کی رمز انوکھی ہے. سچ کہو،  سچ ہو جاؤ تو قم،  قم،  قم کہو اور فیکون.پاجاؤ 

اے فلاک سے جاری نہر 
کتنے در وا کیے؟
کتنے سینے سپر کیے؟
کتنوں کو.واصل حق کیا؟
کتنے بازو سکتے میں کٹ گئے 
ترا اختیار کی تیغ چل گئی 
.جبین جھک گئی کہ جھکنا ہی تھا 
سجدہ کرنا ہی تھا کہ سجدہ ہوگیا 
نظارہ وحدت!  
مے توحید پی ذرا 
پی کے رہ مست مدام تو. 
انفعالیت کچھ نہیں 
بس فعل تری ذات ہے 
ذات کا فعل کار جہاں دراز کیے ہے 
اے دل 
اے دل جام  جم پی لے ورنہ ساقی نے دینا ہی دینا ہے اور ایسا دینا ہے کہ لاگی نہ لگی کہ پتنگ کٹ گئی. پتنگ کی دوڑ ہوگی اس کے ہاتھ جو ہوگا ساقی.
ساقی اور پلا 
ساقی اور دے 
دیے جائے گا 
روئیں جائیں گے ہم 
ہنجو بن کے بدن ہمارے، زمین بوس ہو جائیں گے 
اے زمین بوس پہاڑ! اٹھ!  
اٹھ!  قم فانذر،  وربک فاکبر 
بڑا ہے وہ اور بڑائی نازاں اسکو 
.جبین جھکی رہی سر نیاز میں گیا