پھر سے سرگوشی ہوئی ہے اور پھر احساس کے دریچے سے آواز داخل ہوئی ہے. یہ آواز کو سُنارَہا ہے من نگر کی بتیاں عشق میرا. جسم فانی ہے اور روح اعظم ہے. روح اللہ ہے اور جانب جانب چہرہ اللہ کا ہے فرش پر رہنے والے نے دستک سنادی ہے. شدت میں روکا گیا ہے اور سنگیت کی وادی میں جسم فانی کا گیت روح گانے لگی ہے وہ گرج جو فانی دنیا نے سنائی تھی، اسکا گیت روح نے گایا ہے کہ تار سے تار مل گئی زمانہ زمانہ سے مل گیا جسم میں افلاک طویل قدامت کا حسن لیے ایسے لامثال لہُ ہستیاں ہیں کہ دل نے کہا
اے فقیرِ چشتی
اے رہبرِ ہستی
اے کافر مستی
اے تیورِ زمنی
اے جانِ لحنی
یہ تھا قفل جس میں کہا گیا کاف اک برق ہے، وہ برق جس کو طین سے نسبت ہے اور برق جس نے منسوب کیا ہے مٹی کو اور مٹی کو اچک لے یا مٹی اچک لے اس میں خود کو تو مٹی مٹی نہیں رہتی،... جیسے کہف والوں کا کتا سبقت لے گیا بالکل ایسے مٹی سبقت لیجاتی ہے. یہ سابقہ خواب والوں کو ملتا ہے کہ لاحقہ بھی خوب سے ملتا ہے درمیان میں اللہ ہے جس نے جہان بھر کو مٹی کو مٹی کردیا اور اپنے نشانِ موت کو عزرائیل سے تعبیر کردیا.
جبرئیل امین روح الامین
موت کے فرشتے جانشین.
میکائیل مٹی میں مکین
لاریب! یہ اللہ کے مکان
لاریب! یہ بجلی گراتے ہیں
لاریب! نشیمن جل کے مجلی ہوتے ہیں
سنو، جب بجلی گرتی ہے تب سبب اللہ کے سبب نہیں ہے کوئی رہتا ہے. یہ شبیہہ ہے جس میں شائبہ نہیں رہتا مصوری کرنے والے نے قلم ایسے بنایا ہے .... کاف سے ھا کی عطا ہوتی ہے تو ہر شور کی جگہ قرینہِ حسن ھو ہے. وہ وہ ہے مگر وہ ہے کون؟ اس نے کس کو یہ مسند بخش رکھی ہے؟ یہ اظہار اسکو کیوں پسند ہے؟ جہاں سارا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے، یہ کہا ہے اللہ نے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کہتے ہیں
علی علی علی، علی علی علی ....
علی کا ذکر کس نے کیا ہے؟ یہ ذکر ایسا چلا کہ چلا کہ چلتا رہا ہے. جسم تو فانی ہے مگر حق کی آیت نورانی ہے. آگ ہو کہ آتش جس سے دہک دہک کے کوئلہ دل کو روح جب پاتی ہے تو فواد تحریک پکڑ لیتا ہے تب اللہ کی تار بجتی ہے اور تار جب جب بجے اللہ کی تو درود ادا ہوتا ہے. اس لیے کہا گیا درود اللہ اور اس کے فرشتے بھیجتے ہیں مگر انسان یہ سمجھ نہیں سکتا ہے اور زبان پر درود جاری نہ ہو کیسے جب دل میں اللہ ہو، قلب میں خفی ہو یا جلی ہو ذکر جاری ہو تو ذکر میں ذکر ہوتا ہے اور دھیان اتارنے والے فرشتے کی قسم.
یہ ذکر جو لقا کے لیے ہوتا ہے
یہ ذکر جو سینہ چیر کے اتارا جاتا ہے
یہ ذکر جس سے رخ کی تابانی فزوں ہو جاتی ہے.
یہی احیاء العلوم ہے کہ فالملقیت ذکر کی ہوا سے چلنے والے ہادی فرشتے نے کہا کہ خدا کہتا ہے درود بھیجنا واجب ہے واجب المرجب ہے سوغات ہے کہ بات جذبات کی ہے ...بس اللہ جب درود بھیجتا ہے تو کاف سے ھا سے یا بنتا انسان جانے کہ مخاطب وہی ہے آواز وہی ہے خود ہے. ایک ہوجانا ایسا جیسا کن سے پہلے کی بات ہو. کن کا آواز بعد میں پھوٹا تھا قبل اس کے اس نے کہا، اس نے سنا تھا. "یا " سے چلتے جب صواد جانب رواں اسم ہوجاتا ہے. یہ حروف سے اسم کا سفر ہوتا ہے کھیعص! تو دیدار پہلے واجب ہوجاتا ہے دید کا دعوی کرنے والے پاگل ہوتے ہیں کہ اللہ جہت میں نہیں سماتا ہے مگر جہت کی تخلیق خود سے کرنی پڑتی ہے اس کی جہت سے اپنی جہت اکو ہوجانی ہے. ہم سب اپنی اپنی نسبت سے خدائی راز ہیں اور جہات میں رازوں کا جہاں لیے جہات میں صواد ہوجاتے ہیں
کھیعص کی آیت کی نمود
کھیعص کی آیت کا نزول