Thursday, November 14, 2024

موسویت کی چادر میں حکمت



نبی بس خبر پاتا ہے یا نشریات پالیتا ہے جبکہ رسول نشریات نہ صرف بانٹتا ہے بلکہ نشر کردہ حدود کی پابندی کراتا ہے. موسی علیہ سلام کی زندگی کی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عقدہ کھل جاتا ہے نبی پر نبوت کا عقدہ پیدائشی نہیں بلکہ اسکی اپنی دریافت سے کُھلتا ہے.

ایک بچہ جس کا خاندان اُسکے پاس نَہیں یا جس نے ماں کا لمس نَہیں پایا.زندہ ماں کا ہونا،ہجر کا درد سہنا بڑے بڑوں کے پاؤں تلے زَمین نکال دیتا ہے. وہ بچہ حادثاتی طور پر تتلانا شروع کردیتا ہے.اس پر گفتگو کرنے کا ہنر چلا جاتا ہے یعنی وہ بچہ معاشرتی طور پر الگ ہے یا سمجھا جاتا ہے

یہ بچہ جب جوان ہوتا ہے، جوانی میں قبائلی محبت کے بَجائے انصاف کا معاملہ کرنا چاہا اور شدت میں قتل ہوگیا. اس وقت موسی علیہ سلام اپنے کیے گئے قتل کی پوری ذمہ داری لینے  سے قاصر رہے اور جلاوطنی اختیار کرلیتے ہیں ....اس جلاوطنی کی بنیادی وجہ خوف کا عنصر تھا. وہ اپنے خوف کا سامنا کرنے سے قاصر رہے....

یہی جَوان حادثاتی طور پر معلوم ساتھ پالیتا ہے اور نبی کے عہدے پر فائز ہوجاتا ہے مگر یہی جوان خدائے بزرگ برتر کے ہونے کے باوجود یا خبر کے باوجود یقین کے درجے پر فائز نَہیں ہو پاتے.اس لیے جب دعوت کا حکم ہوتا ہے تو جناب موسی اختلاف کرتے پائے جاتے

خدا فرماتا ہے
نبوت کا اقرار کرو اور جاؤ خبر دو
موسی علیہ سلام:  میرا یقین کون کرے گا 
خدا: ان کو بنی اسرائیل کے خانوادہ نبوت کی بابت بتاؤ
موسی علیہ سلام: قبائلی سردار میرا یقین نہیں کریں گے 
خدا:  ان کو کہو میں اسکی جانب سے ہوں جو کہتا ہے
میں وہ ہوں، جو کہ میں ہوِں 
موسی:  وہ بات نہیں مانیں گے،  ہارون کو ساتھ کردیجیے....
خدا: عزم جلال میں ہارون علیہ سلام کو موسی علیہ سلام کے ساتھ کرتا ہے 
جاؤ، فرعون کو خبر دو کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرے ...
موسی:  وہ میری بات نہیں مانے گا، نہ یقین کریں گے
خدا:  عصا پھینک دینا ،ہاتھ نکال لینا 

قران پاک میں سورہ طٰہ میں اسی خوف کی نشاندہی کی گئی  جب سامری جادوگر رسیاں پھینکتے ہیں تو موسی علیہ سلام اژدہے سے ڈر جاتے ہیں 
ندا آتی ہے:  عصا پھینک دیجیے

یہاں خوف کے عنصر کے ساتھ، یقین کی کمی کا عنصر ہے جو کہ عام انسانی نفسیات ہے مگر اک نبی کی نفسیات معاشرے کی سطح سے بلند ہوتی ہے جس پر عام استدلال یہی ہے کہ فرعون کی قوم یقین کی اس بلندی کو نہیِ پاسکتی یا بنی اسرائیل کی قلب کی ساخت ایسی بنی نہیں ہوگی جس کی بدولت بِن دیکھے کا سودا کیا جاسکے....

یہاں امتی ہونے پر فخر ہوتا ہے 
میرے رسول فرماتے ہیں 
میرے اک ہاتھ پر چاند دوسرے پر سورج رکھدیں، میں یہ رستہ نہیں چھوڑوں گا 

اللہ کی رائے سے قبل، یا نزول وحی سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رستہ اختیار کرلیتے ہیں،  جیسا کہ اللہ نے چاہا ...اس مقام پر یقین اس قدر راسخ ہوگیا کہ گویا "میں، تو" "تو، میں " سے نکل گیا .. بس ایک ہوگیا 

اس لیے خدا نے خود فرمایا 
قل ھو الاحد .........

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یتیم و مسکین بچے مگر ایسے صبر و بردبار بچے ہیں جن کی صداقت و دیانت نبوت سے قبل مثال. حضرت ابراہیم کیطرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھوج و جستجو سے یقین کو اک مرتبہ راسخ کردیا. غار حرا میں وحی سے قبل کھوج و جستجو اور وحی یقین کے حال میں نزول ہوئی. یعنی جو اللہ تراشا گیا تھا ذہنِ حال میں،  وہ ویسا پالیا گیا....یقین آگیا ....دریافت کی اکملیت اُسی ایک لمحے میں ہوگئی ...