Friday, November 12, 2021

عشق ‏دی ‏کھیڈ

چاہنے کے لیے چاہا جانا چاہیے
پہچان کا سیاپا 
عشق دی کھیڈ اے 
اونہے دل اچ لائ اے 
کھیڈو اگ دے دیوے بال کے 
اونہوں دل وچ مان کے.
جان تے جائیے 
انہوں من منائیے 
عشق دی کھیڈ اے 
اونہے دل اچ اگ لائ یے 
عشق روحاں دا سنجوگ 
عشق مٹی دا بالن اے

سنو 
حرف لے لو 
تمھاری امانت 
تمھارے حرف 
مرے چند لفظ 
سنو 
تم چاہت لے لو 
تم چاہت بانٹ دو 
بس پھر وہی ہے 
وہی جو سیپ ہے 
وہی جوہر ذات 
کامل و اکمل سائیں 
اللہ کی ہے پرچھائیں 
رادھا رادھا بول سائیں


روح جل رہی کہ دل ہے 
شام مل رہی کہ سانول ہے 
دل میں تڑپن ہے کہ آ مل 
مل جائے سانول یار تے رنگ سنہرا 
مل جائے سانول یار تو چال شب دیگ سے نکلی سنسار میں رنگ چھوڑتی ہوا ہے

اب تمھیں کیا بتاؤں کہ کیسے ہوتا ہے یہ سب؟ کیسے بتاؤں کیوں ہوتی ہے جلن یا دھواں جس کی اصل یہ ہے حقیقت ہے. دھواں کسی خوشبو کا نشان ہے


بے نشان دھواں 
بے  بے دھواں 
کہہ رہا ہے رواں رواں 
آرہا ہے جینے کا قرینہ 
سینہ ہے کہ مدینہ 
جل رہا ہے کہ دل کہ روح ہے 
جلتا ہے دل پے پاؤں نہیں 
جلتا ہے دل پے آنکھ نہیں 
صورت مورت ویکھی جاواں 
میں کھو گئی آں پیا 
سانول یار سونا اے 
لے چلیا اس پار، جس پار اک بات راز ہے.
راز دیرینہ ہے 
سینہ ہے کہ مدینہ ہے 
جبل النور ہو یا طور ہو 
چار نشان جل جائیں تو 
تقویم مکمل ہو 
آؤ مکمل تقویم میں 
آؤ کملی میں چھپ جائیں 
دیری نہ ہو جائے 
دیری ہوئ تو لکدے لکدے رات لنگ جانی


جانت ہو، مانت ہو 
پیا گھر جاؤ گی 
تو بتاؤ گی 
پریت کا دھواں ہے 
نشانوں میں بنٹا دل ہے 
ہر نشان میں یٰسین و طٰہ 
ہر بات میں اللہ والی جھنکار 
کلام میں گویا ابوالکلام 
دل کے ہاتھ میں بیضائی ہالہ 
دل کہے شہ والا شہ والا

جانب طور ہو، تم مخمور ہو 
جانب سرورر ہو تم مجبور ہو؟  
جانب ظہور ہو،  تم موجود ہو


وہ ہے نا تو احساس ہے. احساس ہے نا تو جلن ہے. جلن ہے تو دھواں ہے. دھواں ہے تو رواں رواں ذاکر ہے اور مذکور ہے آیتِ طٰہ


یسین کی فضا میں آیتِ طٰہ 
دل میں تیر چلا، کہا منتہی 
ابتدا سے چلو نا 
ابتدا میں رہو 
کن میں رہو 
فیکون چھوڑ دو راب دی راہ وچ 
رکھ لی جھولی اچ جندڑی دے سول 
سولاں وچ چانن گنوایا اے 
اے عشق دے کھیڈ انوکھی ہے 
ایڈ اچ جان چھٹڈی سوکھی نہیں 
روکھی سوکھی کھا، پی لے تے یار دے بوہے دی کنڈی نہ ٹٹول. نہ بوہا چھوڑا، نہ واج مار


واج لگ جاوے گی جد 
اوس ویلے راکھ اڈ جاوے گی 
اتھرو وگ جاون گے 
لمیاں جدائیاں کٹ جاون گیاں 
راکھی باندھن.آلے چلے آون گے 
بھیناں دے بھرا 
کہون گے 
عشق دے کھیڈ رچائی اے 
لکا آپ جیہڑا بڑا ہرجائ اے 
عشق دی کھیڈ بڑی اوکھی 
جان نہ چھٹے اس وچ سوکھی


جناب طاہر جناب مطہر جناب سید جناب عالی جناب سردار جناب روحی جناب افلاک پر مقیم کسی طائر سے جانب وادی سرور ہے. آنکھ میں کیسا نور ہے. دل جلا ہے گویا جبل النور ہے. وہ جو وجہ ظہور ہے اس میں بات ضرور ہے. اس میں.وہ آپ ضرور ہے. راگ میں الاپ کا کانٹا ہے رادھا چلی سانول.یار نال اور روپ نگر کی چنر کا رنگ لال ہے 
لال رنگ چنر ہماری 
لال رنگ چنر تمھاری



Thursday, November 4, 2021

فلک ‏،شمس

آسمان تمھارا ہے. اس کے دل پر شمس نے رخِ عناب سے محویت طاری کی ہے. سب یک ٹک ھو، سب یک ٹک سو!  جاناں کے طواف چار سُو، کو بہ کو. منصور کے قبلے کو جانو  شین قاف اور حـــــا مـــیم سے مسافر سدرہ کا سفر جانب منتہی. خواہش سلوک میں ڈھل گئی اور سالگ خواہش ہوگیا. راستہ سیدھا ہوگیا اور اللہ مرشد ہوگیا  اللہ کی تکبیر من ہادی من الا اللہ. کچے ڈھاگے کی ڈور، من نین کی ندیا میں چور،  کون جانے کس کے موڑ، چلی ہے باد جانے کس اوور  

سنو،  ہدایت یافتہ 
سنو،  تہہِ نہاِں سے سہہ نہاں کی حاجت میِں رہنے والے محجبوب شمس، کسی رنگساز کی طرح ڈھل رہا یے  تراشا یے اسکس باردگر کے رعنائ بن عیوب ریے

خدا ‏سے ‏تعلق

خدا سے تعلق یقین کا ہے ـ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد  ہے ـ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت!  درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ـــ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ـ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ـ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ـ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ـ یار کی آمد کی شادیانے ـ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ــ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ـ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ـ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ــ پیکر در پیکر اور میں مسحور ــــ خدا تو ایک ہی ہے ـ دوئی تو دھوکا ہے ـ ہجرت پاگل پن ہے ـ وصل خواب ہے ـ مبدا سے جدا کب تھے؟  اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ـ کن سے نفخ کیے گئے ــ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ـ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہےـــ  ساکن ساکن ہے وجود ــ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ـ جا بجا نور ـ جابجا نوری پوشاکیں ـــ نہ خوف ـ نہ اندیشہ،  یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ـ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے،  جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ـ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ـ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ـ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ـ بچا نہ کچھ فقط اک آس ـ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟  یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ـ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا،  تن کے آئنوں میں دیکھا،  نقش میں روئے یار ـ مل گیا وہی ـ سہاگن باگ لگی ـ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ـ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ـ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ـاس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ـ من و تو ــ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت،  وہی باطن کی آیت ـ وہی مشہد،  وہ مشہور،  وہی شاہد،  وہ شہید ــ وہی اعلی،  وہی برتر ـــ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں

بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی 
بقلم:  نور

اللہ ‏دل ‏دے ‏اندر

اللہ دل دے اندر.
صاحب نے کیا مست مست 
اللہ دل دے اندر 
صاحب کی سہاگن ہوئ. 
اللہ دل دے اندر.
سہاگ سلامت رہے سدا 
اللہ دل دے اندر 
فانی، باقی میں فنا ہوا 
اللہ دل دے اندر 
حجاب در حجاب اٹھا 
اللہ دل دے اندر 
مستوں کو مست کیا 
اللہ دل دے اندر 
مست ولائے حیدری قافلہ 
اللہ دل دے اندر 
حسینی قافلہ تیار 
اللہ دل دے اندر .... 
سجدہ شبیری کے لیے چلے 
اللہ دل دے اندر 
پیار والے کا پیار سلامت 
اللہ دل دے اندر.
چکر پے چکر دمِ وصلت 
اللہ دے دے اندر 
مست مست کیتا صاحب نے 
اللہ دل دے اندر.
صاحب کے ساتھ مست 
اللہ دے اندر 
حال میں قال نہ رہا 
اللہ دے اندر 
زبان ساکت روح متحرک 
اللہ دے اندر 
ادب جھکا،  جھکا ہی رہا
اللہ دل دے اندر 
مستوں کا نگہبان 
اللہ دل دے اندر 
وجد میں روحان 
اللہ دل دے اندر 
روح ہے یا فرقان 
اللہ دل دے اندر 
فکر میں ترا دھیان 
اللہ دل دے اندر 
اللہ دل دے اندر 
سبحانی سبحانی 
اللہ دل دے اندر 
من رآنی، من رآنی 
اللہ دل دے اندر 
مازاغ کی قسم 
دیدار میں مست مست
صاحب نے کیا مست 
ازلوں کے ساتھ میں 
ابد کے دھاگوں میں 
اللہ دھیان میں ہے 
اللہ دل میں اترا ہے 
صاحب نے بنایا سہاگن 
مست مست مست مست

سچے ‏!

سچے!  تری سچائی کی قسم رب نے کھائی 
سچے!  تجھے حق کی صدا دی ہے سنائی 
سچے!  ترے ذکر میں ہے فکرِ خدائی 
سچے!  تری بات میں اسکی ہے  رعنائی 
سچے!  خوب ترا دل، ملا ذوقِ شکیبائی 
سچے!  رب نے کیا تجھے پاسِ شہنائی 
سچے!  آنکھ تری نور سے ہے بھر آئی 
سچے!  اللہ دل دے اندر،  اللہ دل دے اندر 
صاحب نے کیتا تینوں مست مست

خود ‏احتسابی

میں لکھنے میں لکھوں کیا. لکھوں تو سمتِ بے بہا میں ڈوبی ہوں .. گویا اس سے جا ملی ہوں. سوچتی ہوں اسکا آئنہ تھی مگر علم کا حیطہ اس آئنہ کو صیقل نہ کرسکا. میں حسد و جلن کا شکار رہتی تھی.احساس کمتری سے یہ حسد و جلن نکلتا ہے اس وجہ سے مجھے لگتا تھا یہ شخص مجھ سے جلتا ہے یا حسد کرتا ہے .... میں بہت جلد کینہ پال کے بغض و عناد کے پہاڑ بنادوِ تو مجھے لگتا ہے کہ سامنے والا بغض رکھتا ہے. سامنے والا میرے لیے کینہ رکھتا ہے. میں نے کسی کو معاف کرنا سیکھا نہ تھا اس لیے مجھے لگتا ہے یا لگا کرتا تھا سامنے والا کبھی مجھے معاف کرنی کی صلاحیت نہیں رکھتا یعنی ظالم ہے ...  کیا میں جو "گمان " رکھ رہی تھی ویسے لوگ بن نہیں رہے تھے؟ لوگ کبھی بھی زہریلے نہیں ہوتے. لوگ تو ہمارا آئنہ ہوتے ..  پھر اللہ نے کچھ ظرف بخشا اس کی مہربانی شاہ صاحب کی عنایت تو میں نے خود کو بدلتا پایا.   دل بدلا تو لگا میں نے عناد پالا. جب کینے کا پردہ چاک ہوا تو اپنے ارداگرد افراد کی مجبوری، درد کے چہرے،  دکھ تکالیف کے ردعمل دکھے ...جب ردعمل پر مرہم رکھا تو دل میں ایسا سکون اترا جیسا کہ انسان امر ہو جائے. جب ضبط کرنے پر ضبط کیا تو آنسو کے ساتھ خدا کے ہونے کا احساد بھی ہوا .. پھر مجھے احساس ہوا کہ خدا کیسے ملتا ہے ...مگر یہ دل کی بیماریاں وہ چاہے تو ختم ہوتی وگرنہ ہمیں وہ احساس دلاتا رہتا ہے جیسا کہ مجھے دلا رہا ہے میں بیمار ہوِں 
مجھے یقین ہے جو بیمار کرتا ہے وہی شفاء دیتا ہے ....اس بات کی سمجھ اب آئ: فثمہ وجہ اللہ.  ہر جانب میرا چہرہ ہے ...اس کی صورت جمال سے ہر شے لپٹی ہے یعنی سورہ الشمس کی مثال فالھمھا فجورھا فاتقوھا 
ہم نے اچھائ و برائ ملحم کردی 
بات یہی دکھی میں اس کے جمال و حسن میں کھوجاؤں تو اسکے جمال کی صورت باطن سے ظاہر میں جھلک پڑے گی یعنی اسکا چہرہ. تو باقی کیا رہ گیا؟ برائی موجود مجھ میں. مجھے خود کی تصیحح کرنی ہے. یہ بات مجھے شاہ صاحب سے سیکھنے کو ملی. وہ مبلغ نہیں تھے بلکہ وہ بابا و فقیر ...مرشد کے پاس پروٹوکول ہوتا عزت و احترام کا. بابا یا فقیر کے پاس نہیں. اس لیے میرے برے رویے کو جس حسن اخلاق سے برداشت کرتے رہے مجھے اس سے اللہ کی جھلک ملی. وہ اللہ میں اس قدر فنا تھے کہ ان کو بس پیار دینا تھا ان کو یہ پروا نہیں کرنی تھی(مخلوق)  صفت جمال سے کیا پایا جارہا ہے. وہ اپنی ذات سے عشق میں اس قدر سچے رہے کہ ان کا دھیان کسی برے رویے کے بجائے ذات سے عشق پر رہا. اس لیے انہوں نے بدل دیا دل ...مجھے احساس ہوا تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے دل بدلا کرتے تھے. ان کا حلم "ان کی بردباری،  ان کی تواضع ان کے حسن اخلاق نے دنیا والوں کو مجبور کردیا وہ بدلیں مگر انہوں نے کسی سے نہیں کہا مجھ پر جان نچھاور کرو جبکہ صحابہ نے محبت ان سے ایسی کی کہ مر مٹنے کو تیار رہے. مر مٹنا یعنی فنا ہوجانا ہوتا ہی اس کے لیے ہے جو بہت بے لوث ہو جس میں اپنا پن ملے. جس کو دیکھ کے سکون ملے.

Thursday, October 7, 2021

اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب سے دھوکے میں ڈالا

 کہانی سنانے بیٹھے تھے اور خموش زبان سے کہنے لگے کہ سن تو لیا ہے اور کہیں کیا

بات اتنی سی اک جاگیر دار نے زمین کسی کی ضبط کرلی اور اسکو چاہ تھی کہ وہ اپنی مملکت بڑھائے ... ضبط جس کی، وہ یتیم تھا اور فریادی تھا اسکی فریاد پکار تھی. وہ ایک سے ایک کہتا رہا کہ میری زمین مجھے دلوا دو مگر کسی نے سنی ہی نہیں. سننے والے "کان " تھے مگر "کان " بہرے رہے. وہ روتا رہا. دیکھنے والی آنکھیں مگر " اندھی " رہیں اور اسکی چیخ و پکار " اندھوں و گونگوں کے دیس میں کوئ سن نہ پایا.... یہ اک دِن روتے روتے بینائی والا مل گیا. اس نے اسکو پکڑا، دلاسہ دیا اور کہا "اللہ دیکھ رہا ہے " یتیم کو سمجھ نہ آئی بات کہ " اللہ دیکھ رہا ہے " اللہ اگر دیکھ رہا ہے تو سب اندھے کیوں ہیں؟ وہ بینائی والا اسکو کہہ گیا "انتظار کر "
جاگیر دار کی زمین میں قحط آگیا اور قحط سے گاؤں والے تنگ ..جاگیر دار کی زندگی بھی عسرت میں بسر ہونے لگی ... اس کو اب اللہ یاد آنے لگا. اس نے اعلان کرایا کہ اب جو مجھے اس قحط سے نجات کا نسخہ لا کے دے گا، میں اسکو یہ اتنی زمین "ہبہ " کردوں گا ....
وہ بینائی والا جاگیردار کے پاس گیا اور کہا پڑھا کرو
یا اللہ یا رحمن یا کریم یا ذوالجلال رب انی مغلوب فانتصر
.اے اللہ تو رحمن ہے، مجھے اپنے جیسا بنا
اے اللہ تو رحیم ہے، مجھے اپنے جیسا بنا
اے اللہ تو کریم ہے، مجھے اپنے جیسا بنا
اے اللہ تو جلال والا، اکرام والا ہے
ترے جلال کے آگے میں مغلوب ہوں، میری مدد کر
جاگیر دار نے اس کلمے کو اک دفعہ پڑھا، اسکے سینے میں وہ کلمہ روشن ہوگیا ...جیسے روشن ہوا ...اس پر رقت لگ گئی اور رقت میں وہ ساجد ہوگیا ...بینائی والے نے سر پر ہاتھ رکھ کے
اے جاگیردار، تجھے کس بات نے اس رب سے دھوکے میں رکھا؟
وہ تو اس بینائی والے کے قدموں میں لپٹ کے رونے لگ گیا اور عجز میں ڈھلتا گیا اور اپنا آپ اللہ کو سونپ دیا ...جیسے جیسے وہ یہ کرتا جا رہا تھا، قحط ختم ہوتا جارہا تھا

احساس کے دریچے وا ہوئے تو

 کبھی احساس کے دریچے وا ہوئے اور محسوس نے ڈیرا جمالیا.

لا،لیاں اکھاں اسی، ویکھ جی نہ رجدا
آنکھ ملنا بھی سعادت کی بات ہے اور عبادت سے نصیب ہوتا ہے. عبادت بندگی ہے. بندہ سرنگوں ہوں "خود کے سامنے " اور مانگت میں یہ شہنائی بجے ... جہاں کیا شے ہے سب کچھ ترے لیے لٹا دوں
مانگ بھی گھڑی سے ملتی ہے اور گھڑی مانگ سے بھرپور ہوتی ہے. جس گھڑی مانگ، مانگ سے پڑ ہوجائے تو دوئی کا کاسہ پھینک دیا جاتا ہے اور یکتائی کے سینے پر لکھا "ھو " سجتے سہرے جیسا سامنے ہوتا ہے
وہ اکیلا
وہ تنہا
تنہائی کی سرحدوں میں
زندگی کے میلے میں
ذات وہی سچی ہے
جس میں آنکھ رکھی ہے
دل میں بے کلی ہو
آنکھ میں نمی ہو
دل شہر مکہ کی گلی ہو
جانب سیاہ دائرے کسی راوی کی ندی میں بہنے والے اشکوں کے سیلاب تمنا سے پوچھو کہ گلشن ہستی نے کتنے راز سینے میں قرار پکڑنے سے پہلے پورے کردیے. کچھ مانگ کی ادھوری لاج میں نیا میں ڈوبتے چلے گئے. کچھ مانگت مانگت کرتے رہے جیسا پیاسا کہے " پیاس، پیاس، پیاس " پیاس لفظ تشنہ ہے اور تشنگی کی سرحدوں خدا سے جڑی ہیں. تشنگی جب سوا ہوتی ہے تب خدا ہر رگ میں جلوہ گر ہوجاتا ہے. من و تو کا فرق پرے ہوتا ہے نفی و اثبات کا کھیل سارا ہوتا ہے. علی علی کہتے دل علی علی ہوجاتا ہے
علی --- حق کا ولی
علی --- اسم جلی
تلاوت: واذ القری القران
بس جب کھالیں نرم پڑنے لگیں، جب میل دھلنے لگے تو سمجھ لو تار، تار سے ملی ہوئ ہے یا تم خود تار ہو. تم تار کو تاروں سے ملا رہے ہو. تار جب مل جائے تو ھو جاتی ہے.
ھو اسم البقاء
الف وادی الفنا
محبت مرض شفا
دید، عین لقاء
آنکھ محو تماشا
لب گویا ہوئے
واللہ! تو دکھا
واللہ! چشم دل کی زبانی تری کہانی
حاش للہ! تو، تو نہیں بلکہ خدا ہے
2 Shares
Like
Comment
Share

درود بھیجنا تو سعادت ہے

 درود بھیجنا تو سعادت ہے اور جو بھیجتا ہے وہ سعید ہے. جس کا قبول ہو وہ مسعود ہے. جس نے ادا کیا وہ شاہد ہے، جس نے شہید کو پالیا اس نے ظاہر و باطن ایک کرلیا. جس کا درون و بیرون میں اک ذات کی جلوہ گری کا عکس ملا، وہ عکس مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیے ہے. اس کے حسن کی بے مثال کاریگری میں خدا کی سوچ و ارادہ شامل رہا ہے. خدا وہ ہے جس نے یہ کائنات بنائی ہے. خدا وہ ہے جس نے تمھیں بنایا ہے. خدا وہ ہے جس نے ادراک کی بلندی سے فہیم کیا اور تم پر کئی در وا کیے. تم بھی چلو اس کی جانب تاکہ تحفہ ایزد ملا. حق خوش ہوتا ہے جب "میم " سے "الف " اور "الف " سے "میم " تلک کی بات ہے. یہ سجدہ ہوتا ہے. جب میں نہیں ہوتا تو، تو ہوتا ہے، جب تو ہوتا ہے تو کون نہیں ہوتا ہے. ہر جانب ترا رنگ. درون کی تمام صورتیں عیاں ہوجاتی ہیں. گویا شمس طلوع ہو رہا ہے. طالعِ شمع پر مطلع کیا ہے؟ اک نام ہے "مصطفوی چراغ " صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. قسم لیل کی جس نے راز کی حفاظت کی، قسم دن کی راز والے کو صبح ملی

عطار فروش کے پاس نہیں جانے سے بہتر ہے کہ اپنے من کے عطر سے خود کو بھر لو ...عطر کبھی بکتا نہیں، عطر ہبہ ہوتا ہے. یہ تم میں ہے. حق کی عیانی نے مہر ضوفشانی ہے، ترجمانی کی یے کہ رگ رگ میں وضو ہوتا ہے اور رگ رگ میں آیت کھلتی ہے. رگ رگ میں کلمہ ہوتا ہے، رگ رگ میں جلوہ ہوتا ہے. رگ کا ظاہر و باطن ایک ہوجاتا ہے. تب قسم اس شمشیر کی جو سینے میں قرار پکڑ لیتی ہے وہ حیدری تلوار یے. یہ احساس کی وہ کاٹ ہے جس نے بڑے بڑے ذی سواروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا. پینے والے نے امرت کا پیالہ پیا اور کہا
ھو البقاء!
ھو البقاء محو لقا، لب حیا عکس دلربا، زینت سیدہ بی بی جانم، شہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ..تمنائے فنائے راہ عاشقاں، جسم فانی میں رہے باقی باللہ .... حق کے چشم و چراغ یونہی راستے بناتے ہیں
تم میں حق کے چشم و چراغ ہیں تم ان کو پہچانو تاکہ تمھاری تاجوری کی جاسکے
اب رکو نہیں!
قیام میں رہو
اب چلو وادی البقاء
ہوجاؤ محو لقا
یہی تمنائے جان دلربا
یہی بات کی: مہرو شمس نے
جس کسی نے پایا ہے، صدقہ پایا ہے. جس نے دیا ہے ہے ان کی عطا سے دیا ہے. تمھارا ہونا تو اک حیلہ ہے کہ تم خود میں وسیلہ ہو اور وسیلے جب قبیلے سے جڑتے ہیں تو سردار وجود آتے ہیں. یہ شان ربی ہے کہ یہ حق کی صدی ہے. دل کہے ربی ربی! اور جب دل کہے تو سمجھو "میم " کا نشان ہے دل میں قرار پکڑا ہوا ہے. جس طرح حق درود بھیجتا ذاکر ہوتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا ذکر کرتے ہیں، جب تم ذکر کرو تو سمجھو کہ تم نہیں وہ کرتے ہیں. تب جانو گے کہ تم تم نہیں، تم ایک حیلہ ہو جس کو وسیلہ کیا گیا ہے. جس کو طریقہ دیا گیا یے. جس کو شان سے نوازا گیا ہے کہ انسان کو جب شان دی جائے تو وہ کہے گا
حی علی الفلاح
آذان بلالی! آذان بلالی
ہلال احمر
یا حسین
ہلال احمر
یا حسین

وہ میرا ہے اور میں اسکی ہوں

 وہ میرا ہے میں اسکی

تو درمیان میں "وہ، میرا " حجاب ہے
دراصل تو اور تیرا ہے
کہیں تو کچھ سنیں گے واہ! تو نے خوب سنایا
واہ خوب دل لگایا جہاں میں
واہ بھیجا مبشر کسی کو
واہ کٹھ پتلیاں محو رقص ہیں
واہ راجدھانی میں غلام ہیں
واہ سب نظام اسکے اور زمانے سب خواب ہیں
وہ خواب میں اک خواب جو شروع ہوا
نیا زمانہ شروع ہوگیا
چلو اس خواب کیجانب
جہاں رسول محتشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
چلو روز ازل کے خواب میں
چلو پھر خواب کو ختم کردیں
آ اجل مجھ کو تھام
تو کہیں بھاگ نہ جائے درد سے
میں ہی تجھ کو تھام لوں
Like
Comment
Share

اللہ بول رہا ہے

 تنہائی کی شام میں

آہٹ کی دستک میں
چپ کی دوپہر میں
خامشی کے پہرے میں
اللہ بول رہا ہے
منادی ہورہی ہے
کسی یومِ سعید کی بات ہے
کسی سعید سے بات ہے
جانے مقدر کس اور پر
سدا سہاگن، صاحب والی کو
سمت دیے جارہا ہے
ہر سمت میں وہی سعید ہے
اور خاموشی کی دوپہر میں
اللہ بول رہا ہے
تم حامی شہرِ صدا کے ہو
تم والی صدیوں کے رواج کے
تم نقد جاں لیے کیوں پھر رہے
اس نے ابھی سودا نہیں مانگا
اس نے ابھی شہ رگ نہیں کاٹی
تم مت کہو ابھی
فصل لربک وانحر
تم اب ادا کرو
اور وقت کے مذبح خانے میں جاؤ
وہیں پر اللہ بول رہا ہے
یہ ماہ ذیقعد تم.پر گزر ہا ہے
یہ آیت کی روانی ہے
تمھاری موج در موج میں
ایک ھو کا عالم ہے
اس ھو کے عالم میں
اللہ بول رہا ہے
آج اللہ بول رہا ہے
آج سب خاموش ہیں