میں لکھنے میں لکھوں کیا. لکھوں تو سمتِ بے بہا میں ڈوبی ہوں .. گویا اس سے جا ملی ہوں. سوچتی ہوں اسکا آئنہ تھی مگر علم کا حیطہ اس آئنہ کو صیقل نہ کرسکا. میں حسد و جلن کا شکار رہتی تھی.احساس کمتری سے یہ حسد و جلن نکلتا ہے اس وجہ سے مجھے لگتا تھا یہ شخص مجھ سے جلتا ہے یا حسد کرتا ہے .... میں بہت جلد کینہ پال کے بغض و عناد کے پہاڑ بنادوِ تو مجھے لگتا ہے کہ سامنے والا بغض رکھتا ہے. سامنے والا میرے لیے کینہ رکھتا ہے. میں نے کسی کو معاف کرنا سیکھا نہ تھا اس لیے مجھے لگتا ہے یا لگا کرتا تھا سامنے والا کبھی مجھے معاف کرنی کی صلاحیت نہیں رکھتا یعنی ظالم ہے ... کیا میں جو "گمان " رکھ رہی تھی ویسے لوگ بن نہیں رہے تھے؟ لوگ کبھی بھی زہریلے نہیں ہوتے. لوگ تو ہمارا آئنہ ہوتے .. پھر اللہ نے کچھ ظرف بخشا اس کی مہربانی شاہ صاحب کی عنایت تو میں نے خود کو بدلتا پایا. دل بدلا تو لگا میں نے عناد پالا. جب کینے کا پردہ چاک ہوا تو اپنے ارداگرد افراد کی مجبوری، درد کے چہرے، دکھ تکالیف کے ردعمل دکھے ...جب ردعمل پر مرہم رکھا تو دل میں ایسا سکون اترا جیسا کہ انسان امر ہو جائے. جب ضبط کرنے پر ضبط کیا تو آنسو کے ساتھ خدا کے ہونے کا احساد بھی ہوا .. پھر مجھے احساس ہوا کہ خدا کیسے ملتا ہے ...مگر یہ دل کی بیماریاں وہ چاہے تو ختم ہوتی وگرنہ ہمیں وہ احساس دلاتا رہتا ہے جیسا کہ مجھے دلا رہا ہے میں بیمار ہوِں
مجھے یقین ہے جو بیمار کرتا ہے وہی شفاء دیتا ہے ....اس بات کی سمجھ اب آئ: فثمہ وجہ اللہ. ہر جانب میرا چہرہ ہے ...اس کی صورت جمال سے ہر شے لپٹی ہے یعنی سورہ الشمس کی مثال فالھمھا فجورھا فاتقوھا
ہم نے اچھائ و برائ ملحم کردی
بات یہی دکھی میں اس کے جمال و حسن میں کھوجاؤں تو اسکے جمال کی صورت باطن سے ظاہر میں جھلک پڑے گی یعنی اسکا چہرہ. تو باقی کیا رہ گیا؟ برائی موجود مجھ میں. مجھے خود کی تصیحح کرنی ہے. یہ بات مجھے شاہ صاحب سے سیکھنے کو ملی. وہ مبلغ نہیں تھے بلکہ وہ بابا و فقیر ...مرشد کے پاس پروٹوکول ہوتا عزت و احترام کا. بابا یا فقیر کے پاس نہیں. اس لیے میرے برے رویے کو جس حسن اخلاق سے برداشت کرتے رہے مجھے اس سے اللہ کی جھلک ملی. وہ اللہ میں اس قدر فنا تھے کہ ان کو بس پیار دینا تھا ان کو یہ پروا نہیں کرنی تھی(مخلوق) صفت جمال سے کیا پایا جارہا ہے. وہ اپنی ذات سے عشق میں اس قدر سچے رہے کہ ان کا دھیان کسی برے رویے کے بجائے ذات سے عشق پر رہا. اس لیے انہوں نے بدل دیا دل ...مجھے احساس ہوا تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے دل بدلا کرتے تھے. ان کا حلم "ان کی بردباری، ان کی تواضع ان کے حسن اخلاق نے دنیا والوں کو مجبور کردیا وہ بدلیں مگر انہوں نے کسی سے نہیں کہا مجھ پر جان نچھاور کرو جبکہ صحابہ نے محبت ان سے ایسی کی کہ مر مٹنے کو تیار رہے. مر مٹنا یعنی فنا ہوجانا ہوتا ہی اس کے لیے ہے جو بہت بے لوث ہو جس میں اپنا پن ملے. جس کو دیکھ کے سکون ملے.